Express News:
2025-04-22@06:11:49 GMT

زباں فہمی نمبر242عید منائیں، خوشیوں کو گلے لگائیں

اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT

ہرسال عید آتی ہے تو فقط خوشیوں کے میلے ہی نہیں سجتے، بلکہ کہیں کہیں غم کا سماں یا پرچھائیں بھی دِکھائی دیتی ہے۔

اس پُرمسرّت موقع پر ہمیں اپنے پیارے یاد آتے ہیں جو ہم سے بچھڑگئے اور عید کے موقع پر اُن کی یاد ہی باقی رہی۔ اس سلسلہ مضامین کے مصنف کا بھی صدمہ ابھی تازہ ہے کہ 19جنوری 2025ء کی شب، میری پیاری بہن مجھ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑگئی۔ یہاں ایک اہم دینی مسئلہ دُہرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ بہت لوگ کہتے سُنائی دیتے ہیں کہ ہم اس مرتبہ عید نہیں منائیں گے، کیونکہ ہمارے ساتھ فُلاں نجی یا قومی سانحہ ہوا ہے۔ ہم سوگ منارہے ہیں ۔یا۔ یہ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ہم عید سادگی سے منائیں گے۔

ہماری حکومت بھی ایسی گزارش تقریباً ہرسال کرتی ہے۔ دینی تعلیمات کی روشنی میں صحیح یہ ہے کہ عید، رمضان المبارک میں بحسن وخوبی عبادات بجا لانے کی خوشی میں منائی جاتی ہے اور اِس کا کسی کی پیدائش، وفات، کسی انفرادی یا اجتماعی سانحے سے کوئی تعلق نہیں;نیز عید پر خوشیوں کا اظہار بھی سادگی سے ہونا چاہیے یعنی یہ کہ اسرافِ بے جا نہ ہو کہ کسی کی دل آزاری یا احساسِ کمتری کا سبب بنے، وہ یہ سوچے کہ کاش میرے پاس بھی اتنا ہوتا کہ مقابل کی طرح شان وشوکت، امارت اور سماجی رتبے کا اظہار کرتا۔

ہرسا ل کی طرح اِمسال بھی عیدالفطر کی آمد کے موقع پر بازاروں میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم اور پھر عین عید کے دن لوگوں کے معمولات، بہ یک وقت کئی حقائق کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں:

ا)۔ لوگ مہنگائی کا رونا روتے ہیں، مگر خریداری کرنے والوں کی تعداد اور اخراجات سے اس پرچار کی نفی ہوتی ہے۔

ب)۔ عید منانے کے لیے جس قدر اہتمام کیا جاتا ہے، اس کا چوتھائی بھی رمضان المبارک کے دنوں میں نظر نہیں آتا۔ پورا مہینہ مسجدیں یکساں طور پر، نمازیوں سے بھری ہوئی نہیں ہوتیں;نمازیوں کی اکثریت وہی ہوتی ہے جو سال بھر باجماعت نماز کے لیے حاضر ہوتی ہے۔ فصلی بٹیروں کی طرح حاضر ہونے والے، ابتدائی چند دن، پھر آخری عشرے کی طاق راتوں میں اور پھر ’ختم ِ قرآن‘ کی محفل کے موقع پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ (کچھ عرصے قبل کسی نے سوشل میڈیا پر شوشہ چھوڑا کہ قرآن شریف کی تلاوت کے ایک دور کی تکمیل کو ’ختمِ قرآن ‘ کہنا بے ادبی اور ناجائز ہے تو سمجھ دار لوگوں نے علماء سے رجوع کیا اور یہ ثابت کیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں!)

ج)۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد عید کی خریداری اور اشیاء کی فروخت میں اس درجے منہمک ہوتی ہے کہ عبادات پس ِ پُشت ڈال کر سب کچھ کرتی ہے۔ ہر طرح کے مکروہات اور خُرافات کا مشاہدہ بھی عام ہے۔

د)۔ بعض لوگ رمضان شریف میں عبادت کریں نہ کریں، عید کے دن لمبی تان کر سوتے ہیں جیسے برسوں سے جاگے ہوئے ہوں، یہ طریقہ ہر لحاظ سے غلط ہے۔ اس معاملے میں غیر مسلموں سے سبق سیکھنا چاہیے کہ اکثر لوگ پورا ہفتہ خواہ کچھ نہ کریں، ایک مخصوص دن اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے اپنی عبادت گاہ کا رُخ ضرور کرتے ہیں۔

آج جب ہر طبقے کے لوگ ہر مسئلے کے حل اور ہر معاملے میں رہنمائی کے لیے Googleسے مدد لیتے ہیں، انٹرنیٹ ہی کو حَرفِ اوّل وآخر سمجھتے ہیں تو ایسے میں ضروری ہے کہ مُستند کتابی معلومات دُہرائی جائیں۔ خاکسار ایسے موقع پر اپنے سلسلہ ’سخن شناسی‘ اور ’زباں فہمی‘ میں شامل گزشتہ مضامین سے ضروری اقتباسات دوبارہ پیش کرنے میں حرج نہیں سمجھتا۔

اردو لغات میں عید سے متعلق مندرجات بھی بہت دل چسپ ہیں اور انھیں یاد کرنے اور کرانے کی ضرورت ہے ، کیونکہ نئی نسل کو تو ’’عیدمبارک‘‘ کے سواء کچھ معلوم ہی نہیں:

محاورے میں عیدکا چاند ہونا سے مراد وہ شخص جسے مدت دراز کے بعد، عین حالت انتظار یا حالت اشتیاق میں دیکھا جائے۔

عید منانا: معنیٰ بالکل صاف ہے۔

عید ہونا یا ہوجانا (فعل لازم): عید کا تہوار ہونا، نیز انتہائی خوشی ہونا، مراد برآنا۔

عید کے پیچھے چاندمبارک۔ کہاوت: تہوار گزرنے کے بعد مبارک باد دینا۔

عید کے پیچھے ٹر۔ کہاوت: برات کے پیچھے دھونسا۔ وقت گزر جانے کے بعد، یا ، بے موقع کسی کام کا کرنا، کیوں کہ جب تہوار نکل گیا تو خوشی کیسی اور جب برات چڑھ چکی تو باجے کس کام کے۔ (ٹر پنجاب کا ایک میلہ تھا جو عید کے دوسرے روز باغوں میں منایا جاتا تھا، یہ بعد میں دہلی میں بھی ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل پنجاب باسی عید کو ’’ٹرو‘‘ کہتے ہیں۔)

یہاں ایک بات ازراہِ تفنن بھی کہی جاتی ہے کہ ’چھت پر (یا گھر سے باہر) نہ جانا، کہیں لوگ تمھیں دیکھ کر یہ نہ سمجھیں عید کا چاند نکل آیا۔ ایسے میں ایک صاحب نے یہ شعر کہا ہے:

ماہِ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز

شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی

                                    (جلیلؔ نظامی)

اب اس شعر میں کچھ ابہام محسوس ہوتا ہے۔ ذرا غورکریں توخود سمجھ لیں گے۔

عید کے موقع پر، خصوصاً عیدا لفطر عُرف چھوٹی یا میٹھی عید پر عیدی کا لین دین عام ہے، مگر روزاَفزوں مہنگائی نے اس معاملے میں بھی حالات بدل دیے ہیں۔ ہم اپنا ہی تجربہ اور مشاہدہ بیان کریں۔ پہلے جو رشتے دار، کسی خوشی کے موقع پر ملیں نہ ملیں، عید بقرعید پر ملنے آتے تو عیدی دے جاتے تھے ، پھر وہ سلسلہ کم ہوتے ہوتے ختم ہی ہوگیا۔ اب تو سیکڑوں میں ایک آدھ بھی بھولے بھٹکے آتا ہے۔ (صحیح لفظ سیکڑہ سے سیکڑوں ہے)، بقرعید پر بھی عالَم یہ ہے کہ لوگ کسی دوسرے کے ہاتھ گوشت بھِجوادیتے ہیں یا بڑی بے شرمی سے کہہ دیتے ہیں کہ اپنے گھر سے کسی کو بھیج دو، اپنا حصہ لے جاؤ یا تیسری صورت یہ کہ کچھ عرصے کے بعد آپ کے گھر کے آس پاس کہیں آنا ہوا تو باسی گوشت ڈیپ فریزر سے نکال کر دینے چلے آئے۔

عیدی کی بات ہوئی تو لگے ہاتھوں اس کی تعریف بیان ہوجائے:

عیدی۔ اسم مؤنث: (۱)۔ عید کا انعام، عید کا خرچ جو بچوں کو دیا جائے۔ (۲)۔ وہ نظم جو اُستاد لوگ بچوں کو عید سے ایک روز قبل، کسی خوش نما کاغذ پر لکھ کر عید کی مبارک باد دیتے ہیں اور اس میں حق اُستادی وصول کرتے ہیں۔(۳)۔ وہ مٹھائی اور نقدی وغیرہ جو عید کے دن سسرال سے آئے یا سسرال میں بھیجی جائے۔ (۴)۔ وہ خوش نُما کاغذ جس پر عید کے اشعار یا قطعہ لکھتے ہیں۔

؎میں وہ مجنوں ہوں کہ میرا کاغذِتصویر بھی

مثلِ عیدی باعثِ خوشنودیٔ اطفال ہے

               (ذوقؔ)

استاد ذوقؔ کو داد دیجئے کہ ایک طرف اپنے آپ کو مجنوں قراردے رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ بچوں کے لیے آسان فہم اصطلاح نہیں اور دوسری طرف یہ بھی دیکھیے کہ عیدی کو بچوں ہی کی خوشنودی کا سبب قرار دے رہے ہیں یعنی یہ نہیں کہ اس کا تعلق کہیں لیلیٰ یا اُس کے گھرانے سے جوڑدیتے۔ یہ ہوتا ہے عصری تقاضوں کے ساتھ ساتھ کسی نکتے کا عمدہ بیان! .

....تعجب ہے کہ عیدی کے تین دیگر معانی کہیں گم ہوگئے ہیں اور آج اگر کسی اچھے پڑھے لکھے شاعر، ادیب یا کسی اور معتبر شخص سے بھی پوچھیں تو بہت مشکل ہے کہ وہ ایک سے دوسرا معنی بتا پائے۔ یہ ہوتا ہے کسی لفظ، ترکیب، اصطلاح ، محاورے، کہاوت یا فقرے کا رِواج کہ معانی محدود ہوکر رہ جائیں، خواہ مُثبَت ہوں یا منفی۔ اسی طرح چالو عوامی بولی(یا تحتی بولی یا ذیلی بولی) عُرف Slangکا معاملہ بھی ہے جس کا ذکر گاہے گاہے، زباں فہمی میں ہوتا رہتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب عید کارڈ وسیع پیمانے پر چھپا کرتے تھے اور ہر کوئی حسب ِ استطاعت، سستے مہنگے ہر طرح کے عیدکارڈ خرید کر اَپنے اعزہ ، دوست احباب اور واقفین کو بذریعہ ڈاک بھیجا کرتا تھا تب کچھ ایسے اشعار ان کارڈز پر چھپے ہوئے نظر آتے تھے:

دیکھا ہلا ل عید تو احساس یہ ہوا

لو ایک سال اور جدائی میں کٹ گیا

…… ٭ ……

ہلال عید کا   ہم باہم دیکھتے ہیں

گلے مِل رہی ہیں ہماری نگاہیں

…… ٭ ……

ہلال عید کو دیکھو تو روک لو آنسو

جو ہوسکے تو محبت کا احترام کرو

…… ٭ ……

تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے

شام تیری کیا ہے، صبح عیش کی تمہید ہے

صاحبو! اگراچھی اردو کا لطف اُٹھانا ہے اور عید ہی کے موضوع پر عمدہ اشعار سے حظ اٹھانا چاہتے ہیں تو مشاہیر سخن کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کلام برموضوع ِعید:نظیرؔ اکبرآبادی

یوں لب سے اپنے نکلے ہے اب بار بار آہ

کرتا ہے جس طرح کہ دل ِبے قرار آہ

ہم عید کے بھی دن رہے امیدوار آہ!

ہو جی میں اپنے عید کی فرحت سے شاد کام

خوباں سے اپنے اپنے لیے سب نے دل کے کام

دل کھول کھول سب ملے آپس میں خاص و عام

آغوش خلق گل بدنوں سے بھرے تمام

خالی رہا پر ایک ہمارا کنار آہ!

یہ پوری نظم 2023ء کے عید والے مضمون ’’عید منائیں، غم مٹائیں‘‘ (زباں فہمی نمبر 184) میں نقل کرچکا ہوں ، بس اس کا آخری شعر اور دیکھ لیں:

جس عید میں کہ یار سے ملنا نہ ہو نظیرؔ

اس کے اُپر تو حیف ہے اور صد ہزار آہ!

                        (اُپَر: اوپر)

ہر شب ، شب ِبرات ہے، ہرروز عید ہے 

سوتا ہوں ہاتھ گردن ِ مِینا میں ڈال کر

             (آتشؔ)

(پہلا مصرع یوں غلط مشہور ہے: ہرروز، روزِعید ہے، ہر شب ، شبِ برات)

اللّہ رے صبح ِعید کی، اُس شوخ کو خوشی

شانہ ہے اور زلف ِ مُعَنبر تمام رات

        (آتشؔ)

خدا شاہد ہے مجھ کو عید ہوتی

گلے سے تو نے لپٹایا تو ہوتا

       (ممتازؔ)

سب لوگ دیکھتے ہیں کھڑے چاند عید کا

مشتاق ہوں میں رشک قمر تیری دید کا

        (بہادرشاہ ظفرؔ)

آپ تو حق میں مِرے ہوگئے اب عید کا چاند

کہ برس دن میں ادھر آج کرم تم نے کیا

              (معروفؔ)

کب سے شب فراق ہوں مشتاق دید کا

خورشید ہوگیا ہے مجھے چاند عید کا

               (داغؔ)

گر میکدے میں عید منائی تو کیا ہوا

ایسا ہی شیخ تیر ا دوگانہ  قضا ہوا

            (داغؔ)

ماتمِ غیر میں تمھیں دیکھا

ورنہ یہ عید کس کے گھر نہ ہوئی

          (داغؔ)

یقیں جاں اس کو اے قاتل اسی دن عید ہوجائے

گلا جس روز رکھ دوں مَیں تِری تیغ ہلالی پر

                         (اسیرؔلکھنوی)

کبھی دکھاتا ہے صورت میں برسویں دن

غرض وہ مہر ِ لقا، چاند عید کا ٹھہرا

                         (اسیرؔلکھنوی)

عید رمضاں ہے آج با عیش و سرور

ہم کو بھی ادائے تہنیت ہے منظور

اس عید سعید کی خوشی میں حضرت

قومی بچوں کو یاد رکھیے گا ضرور

                                    (اسمٰعیل میرٹھی)

غرّہ شوال! اے نورنگاہ روزہ دار

آکہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار

                                    ( علامہ اقبال )

پیام عیش ومسرت ہمیں سناتا ہے

ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

                        ( علامہ اقبال )

 

چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند

اپنی تصویر کہا ں بھول گیا عید کا چاند

اُن کے اَبروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے

اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُبھا عید کا چاند

جانے کیوں آپ کے رُخسار مہک اُٹھتے ہیں

جب کبھی کان میں چُپکے سے کہا عید کا چاند

دُور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے

غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند

لے کے حالات کے صحراؤں میں آجاتا ہے

 

آج بھی خُلد کی رنگین فضاء عید کا چاند

تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں

گھول کر دَرد کے ماروں نے پیا عید کا چاند

چشم تو وُسعت ِ افلاک میں کھوئی ساغرؔ

دل نے اک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند

                        (ساغرؔ صدیقی)

ہوتی تھی مجھ کو عید سمندر میں اُس گھڑی

ٹھیرا جہاز جب کوئی ٹاپو نظر پڑا

                        (نامعلوم)

قتل کی سُن کے خبر، عید منائی مَیں نے

آج جس سے مجھے ملنا تھا گلے مل آیا

                        (نامعلوم)

ابھی انٹرنیٹ پر ایک شاعرہ شِفا کجگاؤنوی صاحبہ (ساکن جَون پور، ہندوستان) کا کلام دیکھنے کو ملا:

چلو ہم عید منائیں کہ جشن کا دن ہے

خوشی کے گیت سنائیں کہ جشن کا دن ہے

رخوں پہ پھول کھلائیں کہ جشن کا دن ہے

دلوں میں پریت جگائیں کہ جشن کا دن ہے

مگر رکو ذرا ٹھہرو یہ سسکیاں کیسی

خوشی کہ رت میں دکھوں کی یہ بدلیاں کیسی

سنو یہ غور سے مائیں بلک رہی ہیں کہیں

یہ دیکھو بچوں کی آنکھیں چھلک رہی ہیں کہیں

کسی کے عید کے جوڑے میں ہے کفن آیا

کہیں پہ زخموں سے لپٹا ہوا بدن آیا

کوئی تو کھلنے سے پہلے کلی کو لوٹ گیا

کہیں درخت ہی اپنی زمیں سے ٹوٹ گیا

کس نے کر دیے پامال سایہ دار شجر

جڑیں کہیں پہ کٹیں اور کہیں بچے نہ ثمر

کہاں ہیں وہ کہ جو خود کو خدا سمجھتے ہیں

وہ جو کہ امن و اماں کے فسانے کہتے ہیں

وہ جن کے ہاتھ میں رہتا ہے پرچم انساں

ہوئے ہیں ان کے سب افکار امن اب عریاں

اگر ہیں صاحب کردار تو زباں کھولیں

اگر ہیں صاحب ایماں تو پھر وہ سچ بولیں

ہیں مقتدر تو بس اب روک لیں حسام جور

یہ بہتی خون کی ندیاں مصیبتوں کا دور

پہ ان سے کوئی امید وفا کرے کیسے

جو بد دعا ہو مجسم دعا کرے کیسے

جہاں میں چار طرف چیخ ہے کراہے ہیں

ستم رسیدہ دلوں سے نکلتی آہیں ہیں

ہے شور نالہ و آہ و بکا چہار طرف

کہاں کی عید ہے ماتم بپا چہار طرف

منائے کیسے کوئی عید ہر طرف غم ہے

منائے کیسے کوئی عید آنکھ پر نم ہے

سنائے کیسے کوئی گیت ساز ٹوٹ گئے

جگائے کیسے کوئی آس اپنے چھوٹ گئے

مگر یہ عید کا دن بھی تو اک حقیقت ہے

کہ وجہ عید سمجھنا بھی اک عبادت ہے

چلو کہ روتے ہوؤں کو ہنسا کے عید منائیں

کسی کے درد کو اپنا بنا کے عید منائیں

دلوں سے اپنے عداوت مٹا کے عید منائیں

کسی کے لب پہ تبسم سجا کے عید منائیں

…… ٭ ……

یہاں ایک اہم بات عرض کرنا ضروری ہے۔ گزشتہ مضمون کے آخر میں محترم غلام محمد وامق کا ذکرہوا کہ اُنھوں نے (زباں فہمی نمبر 241 کی تحریر کے دوران میں) خاکسار کی نظم ’چڑیوں سے خطاب‘ کا ہریانوی میں ترجمہ کیا تو مترجمہ نظم بھی شامل کردی تھی ، مگر تکنیکی خرابی کے سبب وہ اشاعت سے محروم رہی۔اب ملاحظہ فرمائیں:

نظم(آزاد) ''چڑیوں سے خطاب''

شاعر: سہیل احمد صدیقی

(کراچی،پاکستان)

ہریانوی زبان میں ترجمہ:  چڑیاں گلّے بات

مترجم غلام محمد وامِق

(محراب پور، پاکستان)

چِڑیو بِلکل ناں ڈریو۔۔۔

کاگ سارے بی آجا وَیں۔۔۔

کبوتر کٹّھے بی آجا وَیں۔۔۔

پاچھے ناں ھٹیو۔۔۔

آپنا دانا چُگ دی رھیو۔۔

ڈر کَ ناں اُڈیو۔۔۔

ڈٹ کَ اُن تئیں سمجھائیو۔۔۔

ھام بی اُورَ اے کے باسی ساں۔۔۔

ھام بی تھارَ اے جِسے ساں۔۔۔

رب کا شُکَر کر کَ نَیں۔۔۔

آپنی روجی اَر بچّاں کا۔۔۔

دانا پانی چُگن واسطَ ۔۔۔

ھام تو روج اے پُھر پُھر کر کَ۔

آپنا حِصّہ لے جا واں ساں۔۔۔

آپنا دانا اے کھاواں ساں۔۔۔

چڑیو بلکل ناں ڈریو۔۔۔

٭٭٭٭٭٭

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہ جشن کا دن ہے کے عید منائیں عید کا چاند کے موقع پر کیسے کوئی زباں فہمی ہیں اور سے کوئی ہوتی ہے عید ہے کے بعد کی طرح ہیں کہ ہے اور عید کی عید کے کے لیے

پڑھیں:

فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری

غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’   علی الاقرب فالاقرب‘‘  ،   ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • سائرہ یوسف نے بیٹی نورے کے ساتھ منائی سالگرہ : خوشیوں بھری تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • زباں فہمی نمبر245؛کشمیر اور اُردو (حصہ اوّل)
  • بجلی
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • Forwarded As Received
  • ایف آئی آر کی کہانی
  • اور ماں چلی گئی
  • پنجاب میں کہیں بارش، کہیں گرد آلود ہوائیں، گرمی میں مزید اضافے کا امکان