رمضان المبارک کا برکتوں اور رحمتوں والا مہینا ایک عظیم مہمان تھا جس نے روزہ داروں کا بھی اکرام کیا اور انہیں مختلف قسم کی خوشیوں سے سرفراز فرمایا، اب یہ رونقیں سال بعد کسی کی زندگی ہوئی تو نظر آئیں گی، رمضان المبارک کے ختم ہوتے ہی عید کی رات شروع ہوجاتی ہے، جسے عرف عام میں چاند رات کہا جاتا ہے ہم مسلمانوں کو یہ رات عبادات میں گزارنی چاہیے لیکن مختلف قسم کی خرافات اس چاند رات میں کی جاتی ہیں۔
حضوراکرمﷺ نے فرمایا: جو عیدین کی راتوں میں شب بیداری کرکے قیام کرے اس کا دل نہیں مرے گا جس دن کے سب لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ (ابن ماجہ)
ہمیں اس رات کو اللّہ کے آگے گڑگڑانا چاہیے اور اپنی مزدوری مانگنے کے لیے بے قرار ہونا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ استغفار و نوافل پڑھنے چاہییں تاکہ اللّہ تعالٰی ہمارے روزوں اور عبادات کو قبول فرمائے، لیکن چاند رات کو ایک خرابی یہ بھی کی جاتی ہے کہ ماہ مبارک کے وہ تمام انوار و برکات جو مسلمانوں نے حاصل کی ہوتی ہیں اس رات میں لہوولعب میں مشغول ہوکر ضائع کردی جاتی ہیں۔ وہ تمام خرافات جن سے عام مسلمان بچے رہتے تھے اس رات میں وہ سب خرابیاں پھر سے نمودار ہوجاتی ہیں۔
حدیث شریف میں اس کی رات کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابوامامہ ؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص عید کی رات میں ثواب کی نیت سے جاگ کر عبادت کرے، اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ فضیلت کے اعتبار سے فطر کی رات رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کی طرح ہے۔ اس رات کو لیل الجائز یعنی انعام کی رات بھی کہا جاتا ہے۔ (قیام رمضان محمد بن نصر المروزی، ص: 262)
عیدالفطر کے معنی
یکم شوال مسلمانوں کی عید کا دن ہوتا ہے۔ اس دن روزہ داروں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ عید کا لفظ عود سے بنا ہے، جس کا معنی ہے: لَوٹنا، عید ہر سال لوٹتی ہے اور اس کے لوٹ کر آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ فطر کا معنی ہے: روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔ عیدالفطر کے روز روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللّہ تعالٰی بندوں کو روزے اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، لہٰذا اس دن کو عیدالفطر قرار دیا گیا ہے۔
عید انبیاء ماسبق (علیہم السلام) کی مستقل روایت
اگر تاریخ امم سابقہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ اسلام سے قبل ہر قوم اور ہر مذہب میں عید منانے کا تصور موجود تھا۔ ان میں سے بعض کا ذکر یوں ملتا ہے:
ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ کو جس دن اللّہ رب العزت نے قبول فرمایا، بعد میں آنے والے اس دن عید منایا کرتے تھے۔
جدالانبیاء حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی امت اس دن عید مناتی تھی جس دن حضرت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کی آگ سے نجات ملی تھی۔
اسی طرح حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی امت اس دن عید مناتی تھی جس دن انہیں فرعون کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی۔
حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی امت اس روز عید مناتی تھی جس روز آسمان سے ان کے لیے مائدہ نازل ہوا تھا۔
الغرض عید کا تصور ہر قوم، ملت اور مذہب میں ہر دور میں موجود رہا ہے لیکن عید سعید کا جتنا عمدہ اور پاکیزہ تصور ہمارے دین اسلام میں موجود ہے ایسا کسی اور دین میں نہیں۔
حضوراکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو ملائکہ راستے کے کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں اور آواز دیتے ہیں، اے مسلمانو! اس رب کریم کی طرف چلو جو بہت خیر کی توفیق دیتا ہے اور اس پر بہت زیادہ ثواب دیتا ہے۔ اے بندو! تمھیں قیام اللیل کا حکم دیا گیا، لہٰذا تم نے اسے بجا لایا، تمھیں دن میں روزے کا حکم دیا گیا، تم نے روزے رکھے اور تم نے اپنے رب کی اطاعت کی؛ لہذا آج تم اپنے انعامات لے لو۔ پھر جب لوگ نماز سے فارغ ہوجاتے ہیں تو ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے ۔
تمھارے رب نے تمھاری مغفرت کردی۔ اپنے گھروں کی طرف ہدایت لے کر لوٹ جاؤ۔ یہ یوم جائزہ (انعام کا دن) ہے۔ (الترغیب والترھیب، حدیث نمبر: 1659)
عید کے دن کی سنتیں اور مستحبات
عید کے دن مندرجہ ذیل اعمال مستحب ہیں۔ غسل کرنا۔ مسواک کرنا۔ مباح عمدہ کپڑے پہننا۔ خوشبو لگانا۔ شریعت کے مطابق اپنی آرائش کرنا۔ صبح سویرے بیدار ہونا تاکہ ضروریات سے فارغ ہوکر جلدی عید گاہ پہنچ سکے۔ نماز عیدالفطر کے لیے جانے سے پہلے کچھ میٹھی چیز کھانا (جیسے طاق عدد کھجور وغیرہ) عید کی نماز کے لیے جانے سے قبل صدقہ فطر ادا کرنا۔ فجر کی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا۔ پیدل عید گاہ جانا۔ عید کی نماز کے لیے عید گاہ ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ عیدالاضحٰی میں بھی عیدالفطر کی طرح ان اعمال کو کیا جائے مگر عیدالاضحٰی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے۔
راستے میں آہستہ عیدالفطر میں اور عیدالاضحٰی میں بلندآواز سے تکبیر اللّہ اکبر اللّہ اکبر لا الہ الا اللّہ واللّہ اکبر اللّہ اکبر وللّہ الحمد پڑھتے جانا۔
صدقۂ فطر
جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ ضروریات سے زائد اس کے پاس اتنی قیمت کا مال و اسباب موجود ہے جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ فطر واجب ہے، چاہے وہ مال و اسباب تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو، چاہے اس پر سال گزرے یا نہیں۔ غرض یہ کہ صدقۂ فطر کے وجوب کے لیے زکوٰۃ کے فرض
ہونے کی تمام شرائط پائی جانی ضروری نہیں ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک صدقہ فطر کے وجوب کے لیے نصاب زکوٰۃ کا مالک ہونا بھی شرط نہیں ہے، یعنی جس کے پاس ایک دن اور ایک رات سے زائد کی خوراک اپنے اور زیرکفالت لوگوں کے لیے ہو تو وہ اپنی طرف سے اور اپنے اہل و اعیال کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے۔
صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا وقت
عیدالفطر کے دن صبح صادق ہوتے ہی یہ صدقہ واجب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جو شخص صبح صادق ہونے سے پہلے ہی انتقال کر گیا تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے اور جو بچہ صبح صادق سے پہلے پیدا ہوا ہے اس کی طرف سے ادا کیا جائے گا۔
صدقۂ فطر کی ادائی کا وقت
صدقہ فطر کی ادائی کا اصل وقت عیدالفطر کے دن نمازعید سے پہلے ہے، البتہ رمضان کے آخر میں کسی بھی وقت ادا کیا جا سکتا ہے۔
حضرت عبداللّہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز کے لیے جانے سے قبل ادا کردیا جائے۔ (بخاری، مسلم )
حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللّہ بن عمر رضی اللہ عنہ گھر کے چھوٹے بڑے تمام افراد کی طرف سے صدقہ فطر دیتے تھے حتٰی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی دیتے تھے اور ابن عمر ان لوگوں کو دیتے تھے جو قبول کرتے اور عیدالفطر سے ایک یا دو دن پہلے ہی ادا کرتے تھے، (بخاری )
نماز عیدالفطر کی ادائی تک صدقہ فطر ادا نہ کرنے کی صورت میں نمازعید کے بعد بھی قضا کے طور پر دے سکتے ہیں، لیکن زیادہ تاخیر کرنا بالکل مناسب نہیں کیوںکہ اس سے صدقہ فطر کا مقصود اور مطلوب ہی فوت ہو جاتا ہے۔ حضرت عبد اللّہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کر دیا تو یہ قابل قبول زکوٰۃ ہو گی اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ صرف صدقات میں سے ایک صدقہ ہی ہے، (ابو داؤد)
صدقۂ فطر کی مقدار
کھجور اور کشمش کو صدقہ فطر میں دینے کی صورت میں علماء امت کا اتفاق ہے کہ اس میں ایک صاع جو نبی اکرم ﷺ کے زمانے کا ایک پیمانہ ہے صدقہ فطر ادا کرنا ہے، البتہ گیہوں کو صدقہ فطر میں دینے کی صورت میں اس کی مقدار کے متعلق علماء امت میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔
ایک رائے یہ ہے کہ گیہوں میں بھی ایک صاع صدقہ فطر ادا کرنا ہوگا جب کہ علماء امت کی دوسری رائے ہے کہ گیہوں میں آدھا صاع صدقہ فطر میں ادا کیا جائے۔ حضرت عثمان، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر، حضرت عبداللّہ بن عباس، حضرت عبداللّہ بن زبیر، اور اسماء رضی اللّہ عنہم سے صحیح سندوں کے ساتھ گیہوں میں آدھا صاع مروی ہے۔ ہندوستان و پاکستان کے بیشتر علما بھی احادیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر میں گیہوں آدھا صاع ہے، یہی رائے مشہور و معروف تابعی حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللّہ کی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللّہ نے بھی تحریر کیا ہے کہ صدقہ فطر میں آدھا صاع گیہوں نکالنا کافی ہے (الاختیارات الفقیہ)
عیدالفطر کی نماز کا طریقہ
نماز عیدالفطر کی نیت کے عربی الفاظ یہ ہیں:
نویت ان اصلِی رکعتیِ الواجِبِ صلو ۃ عِیدِالفِطرِ مع سِت تکبِیرات واجِبۃ
اردو میں یوں کہے:
’’میں نے نیت کی کہ دو رکعت واجب نماز عیدالفطر چھے واجب تکبیروں کے ساتھ پڑھنے کی۔‘‘
عیدالاضحیٰ کی نیت میں صلٰوۃ عیدالفطر کی بجائے صلٰوۃ عیدالاضحی کہے باقی الفاظ دوسری نیتوں کی طرح کہے واجب کا لفظ کہنا شرط نہیں لیکن بہتر ہے، امام اور مقتدی یہ نیت کر کے تکبیر تحریمہ کہہ کر بدستور ہاتھ باندھ لیں اور ثنا (سبحانک اللھم) پڑھیں پھر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہوئے اللّہ اکبر کہیں اور ہاتھ لٹکتے ہوئے چھوڑ دیں اسی طرح تین مرتبہ کہیں لیکن تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائیں بلکہ حسب دستور باندھ لیں، امام ان تینوں تکبیروں میں تین مرتبہ سبحان اللّہ کہنے کی مقدار یا حسب ضرورت زیادہ وقفہ کرے پھر امام تعوذوتسمیہ آہستہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور کوئی سورۃ جہر سے پڑھے مستحب یہ ہے کہ سورت الاعلٰی پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں پھر رکوع و سجود کریں اور جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوجائیں تو امام پہلے سورۃ فاتحہ اور ساتھ کوئی سورۃ کی قرآت جہر سے کرے۔
بہتر یہ ہے کہ سورۃالغاشیہ پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں۔ قرأت ختم کرنے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین مرتبہ زائد تکبیریں پہلی رکعت کی طرح کہے، اب تیسری تکبیر پر بھی ہاتھ چھوڑ دیں پھر بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائیں اور دستور کے موافق نماز پوری کرلیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ عیدین کی نماز میں چھے تکبیریں کہنا واجب ہے۔ تین تکبیریں پہلی رکعت میں تحریمہ و ثنا کے بعد تعوذ و بسم اللّہ و الحمد سے پہلے اور تین تکبیریں دوسری رکعت میں الحمد و قرأت سورۃ کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے کہے یہی افضل و اولیٰ ہے۔
واضح رہے کہ عید الاضحیٰ کی نماز بھی دو رکعتیں ہیں جو اسی طریقے سے ادا کی جاتی ہے۔ ان دونوں نمازوں کے بعد خطبہ واجب ہے؛ لہٰذا امام دو خطبے پڑھے گا اور مقتدی کو خاموشی کے ساتھ ان خطبوں کو سننا چاہیے۔
یہاں مختصراً عیدین کے مسائل ذکر کر دیے گئے ہیں۔ اللّہ پاک ہمیں عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے اور خوشیوں کے یہ لمحات بار بار نصیب فرمائے (آمین یارب العالمین)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حضرت عبدالل ہ بن علیہ السلام کی نماز عیدالفطر رضی اللہ عنہ عیدالفطر کے عیدالفطر کی فرماتے ہیں الل ہ اکبر اور مقتدی کی طرف سے کیا جائے آدھا صاع الل ہ بن یہ ہے کہ ادا کیا سے پہلے کی نماز نماز کے رات میں جاتا ہے کی جاتی جاتی ہے رضی الل کہ صدقہ ادا کی فطر کی ہیں کہ کی طرح عید کا ہے اور کے لیے فطر کے کی رات اس رات کے بعد
پڑھیں:
بھارت پر امریکی شہری کے قتل کیلئے انعام مقرر کرنے کا الزام، سکھ تنظیموں کی امریکہ سے مداخلت کی اپیل
امریکہ میں قائم سکھوں کی تنظیم ”سکھس فار جسٹس“ (SFJ) نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے ایک سینئر رہنما نے ایک امریکی شہری کے قتل پر 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر کا انعام مقرر کیا ہے۔ یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس 21 اپریل کو بھارت کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔
ایس ایف جے کا کہنا ہے کہ یہ مبینہ انعام ان کے مرکزی رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو نشانہ بنانے کے لیے رکھا گیا ہے، جسے تنظیم نے ٹرانس نیشنل ریپریشن یعنی سرحد پار جبر کا کھلا مظہر قرار دیا ہے۔
ایس ایف جے کے جنرل کونسل اور انسانی حقوق کے معروف وکیل گرپتونت سنگھ پنوں کی جانب سے نائب صدر وینس کو ارسال کردہ خط میں اس اقدام کو امریکی خودمختاری اور قومی سلامتی کے خلاف براہ راست مجرمانہ اقدام قرار دیا گیا ہے۔
خط میں نائب صدر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس مبینہ انعامی اعلان کو ریاستی سرپرستی میں ہونے والی بین الاقوامی دہشت گردی کے زمرے میں شامل کرتے ہوئے بھارت کو کھلے الفاظ میں ممکنہ نتائج سے آگاہ کریں۔ ان نتائج میں امریکی وفاقی قوانین کے تحت قانونی چارہ جوئی، اقتصادی پابندیاں، اور ملوث عناصر کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینا شامل ہیں۔
ایس ایف جے نے اپنے خط میں زور دیا ہے کہ امریکی حکومت کو صرف سفارتی یا معاشی مفادات نہیں بلکہ جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کے تحفظ کو بھی ترجیح دینی چاہیے، خصوصاً اُن افراد کی سلامتی کے لیے جو خالصتان ریفرنڈم کے لیے سرگرم ہیں۔
Post Views: 3