صحافی فرحان ملک کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنےکاحکم
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
کراچی: جوڈیشل مجسٹریٹ نے پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار صحافی فرحان ملک کو عدالتی تحویل میں لےکر جیل بھیجنےکا حکم دے دیا۔
ایف آئی اے نے صحافی فرحان ملک اور دیگر کو ریمانڈ ختم ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان غیر قانونی کال سینٹر صحافی فرحان ملک کی ایما پر چلاتے تھے جبکہ ملزم نے جج کے سامنے بیان دیا کہ صحافی فرحان ملک سے نہ کبھی ملا نہ دیکھا، فرحان ملک کو پہلی بار ریمانڈ کے دوران لاک اپ میں دیکھا۔
جبران ناصر ایڈووکیٹ نے پوچھا فرحان ملک کے ریمانڈ کے دوران ایف آئی اے نے کیا برآمد کیا؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا جو آلات برآمد ہوئے وہ فارنزک کے لیے بھیج دیے ہیں۔
وکیل جبران ناصر ایڈووکیٹ نے کہا فرحان ملک کا عدالتی ریمانڈ ہوا تودوسرے مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی، کیا فرحان ملک کی اب تیسرے مقدمے میں گرفتاری ڈالی جائے گی؟
تفتیشی افسر نے عدالت میں بتایا کہ فرحان ملک کے خلاف مزید کوئی مقدمہ درج نہیں ہے۔
عدالت نے فرحان ملک کو عدالتی تحویل میں لیکر جیل بھیجنے کا حکم دیدیا جس کے بعد صحافی فرحان ملک اور دیگر کو لانڈھی جیل منتقل کیا جا رہا ہے۔
وکیل جبران ناصر کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا آج عدالت نے فرحان ملک کا مزید ریمانڈ دینے سے صاف انکار کردیا ، دوسرے ملزم نے بتایا اس کی فرحان ملک سے پہلی ملاقات ایف آئی اے آفس میں ہوئی تھی، فرحان ملک نے جو جرم کیا ہے ایف آئی اے وہ بتانے سے قاصر ہے۔
جبران ناصر کا کہنا تھا فرحان ملک کی پہلے مقدمے پر درخواست ضمانت پر سماعت 3 اپریل کو ہو گی جبکہ دوسرے مقدمے میں درخواست ضمانت پر سماعت 7 اپریل کو ہو گی۔
فرحان ملک پر ایک مقدمہ پیکا آرڈینس کے تحت جبکہ دوسرا مقدمہ منی لانڈرنگ کا ہے۔
صحافی فرحان ملک پر پہلا مقدمہ سوشل میڈیا پر ریاست مخالف پوسٹ کا ہے جبکہ دوسرے مقدمے میں غیر قانونی کال سینٹر میں سہولت کاری اور منی لانڈنگ کی دفعات شامل ہیں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: صحافی فرحان ملک فرحان ملک کو ایف ا ئی اے ایف ا ئی ا
پڑھیں:
سندھ: سول ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹس کی بھرتیوں کا کیس، فیصلہ محفوظ
— فائل فوٹوسندھ ہائی کورٹ نے سول ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی بھرتیوں کی شرائط میں تبدیلی کے کیس کی سماعت کے دوران فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ نوٹیفکیشن میں وکلاء کے لیے 3 سال پریکٹس کی شرائط عائد کی گئی ہیں جبکہ اعلیٰ عدالتوں کے سرکاری ملازمین کے لیے کوئی شرط نہیں ہے، جس سے ہزاروں وکلاء کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
جسٹس آغا فیصل نے کہا کہ ججز کی بھرتیوں کے لیے بنیادی شرائط بھی تو رکھی گئی ہیں، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وکلاء کی 2 سال کی پریکٹس بھی امتیازی سلوک ہے۔
کراچی اعلی عدلیہ نے صوبہ سندھ میں سول ججز اینڈ...
عدالت کا کہنا ہے کہ اگر متعلقہ ادارے بنیادی شرائط طے کسکتے ہیں تو اس میں کیا مسئلہ ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کی عمر 27 برس ہے اور مطلوبہ پریکٹس میں چند ماہ کم ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے بھی خلافِ ضابطہ قانون سازی کو معطل کیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ درختوں کے تحفظ سے متعلق ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ایسے ہی معاملے پر عبوری ریلیف دیتے ہوئے اپلائی کرنے کی اجازت دی تھی۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔