ڈونلڈ ٹرامپ کیجانب سے ایران پر بمباری کی دھمکی پر تہران کا ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں اسماعیل بقائی کا کہنا تھا کہ تشدد، تشدد سے آتا ہے جب کہ امن، امن کے ذریعے ہی قائم ہوتا ہے۔ امریکہ اپنے اقدامات کے اثرات اور نتائج دیکھ کر فیصلہ کرے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" نے معاندانہ اور دھمکی آمیز خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایران پر بمباری کی دھمکی دی جس پر اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان "اسماعیل بقائی" نے شدید ردعمل دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی ملک کے سربراہ کی طرف سے ایران پر بمباری کی کھلی دھمکی بین الاقوامی امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی دھمکی اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے تحفظاتی نظام کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ تشدد، تشدد سے آتا ہے جب کہ امن امن کے ذریعے ہی قائم ہوتا ہے۔ امریکہ اپنے اقدامات کے اثرات اور نتائج دیکھ کر فیصلہ کرے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز NBC کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ اگر ایران نے جوہری معاہدہ نہ کیا تو ایران پر بمباری ہو گی اور اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران حکام کے ساتھ بات چیت کا عمل بھی جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تہران میں نماز عید کے دوسرے خطبے میں حضرت آیت الله "سید علی خامنہ ای" نے ایران دشمنوں کی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ اگر کسی نے باہر سے شرارت کرنے کی کوشش کی کہ جس کا یقیناً کوئی امکان نہیں ہےتو وہ یقینی طور پر سخت جوابی حملے کا شکار ہوں گے۔ دوسرا! اگر دشمن گزشتہ سالوں کی طرح داخلی فتنہ پیدا کرنے کا سوچ رہا ہے تو قوم فتنہ پھیلانے والوں کو اسی طرح منہ توڑ جواب دے گی جس طرح ان سالوں میں دیا گیا تھا۔ اسی سلسلے میں القدس مارچ کے دوران ایرانی وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے کہا کہ ایران ہرگز کسی کو دھمکی آمیز زبان استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران پر بمباری نے کہا کہ کی دھمکی
پڑھیں:
ایران امریکا مذاکرات: فریقین کا جوہری معاہدے کے لیے فریم ورک تیار کرنے پر اتفاق
ایران نے امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کی امید ظاہر کی ہے، اور کہا ہے کہ روم میں ہونے والی بات چیت اچھے ماحول میں ہوئی۔ اور دونوں ممالک نے جوہری معاہدے کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنے کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
روم میں ہونے والے ایران امریکا جوہری مذاکرات میں ایران کی جانب سے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے سربراہی کی، جبکہ واشنگٹن کی جانب سے امریکی مندوب برائے مشرقِ وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے اپنی حکومت کی نمائندگی کی۔
یہ بھی پڑھیں ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ختم
ایک ہفتہ قبل عمان کے دارالحکومت مسقط میں دونوں فریقین کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ہوئے تھے۔ امریکا اور ایران کے درمیان 2018 کے بعد یہ اعلیٰ سطح کا رابطہ ہوا ہے۔
امریکا سمیت مغربی ممالک کی جانب سے ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس کی جانب سے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن تہران نے ہمیشہ اس کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ اس کا جوہری پروگرام پرامن اور سول مقاصد کے لیے ہے۔
1979 میں جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا، اس وقت سے لے کر اب تک امریکا اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جب جنوری میں دوسری مدت کے لیے عہدہ صدارت سنبھالا تو انہوں نے ایران کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی دوبارہ نافذ کی اور مارچ میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ایک خط لکھ کر جوہری مذاکرات کی بحالی کی تجویز دی، ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ سفارت کاری ناکام ہونے کی صورت میں فوجی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔
مسقط میں ہونے والے امریکا ایران رابطے کے بعد ایک روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں ایران کے خلاف فوجی آپریشن کا استعمال کرنے میں جلد بازی نہیں کررہا، کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ ایران بات کرنا چاہتا ہے۔
آج کے مذاکرات کے بعد ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ اگر امریکا غیر معقول اور غیر حقیقی مطالبات سے باز رہے تو پھر معاہدہ ہو سکتا ہے۔ آج کے مذاکرات میں فریقین نے ممکنہ جوہری معاہدے کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنے کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ یورینیم افزودگی کے ایران کے حق پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی، جبکہ وٹکوف نے مطالبہ کیا ہے کہ اس عمل کو مکمل طور پر بند کیا جائے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہاکہ ہم متعدد اصولوں اور اہداف پر کچھ پیش رفت کرنے میں کامیاب رہے، اور بالآخر ایک بہتر تفہیم تک پہنچ گئے۔
انہوں نے کہاکہ اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ مذاکرات جاری رہیں گے اور اگلے مرحلے میں جائیں گے، جس میں ماہرین کی سطح کے اجلاس بدھ کو عمان میں شروع ہوں گے۔ ماہرین کو موقع ملے گا کہ وہ معاہدے کے لیے ایک فریم ورک ڈیزائن کرنا شروع کر سکیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ اعلیٰ مذاکرات کار اگلے ہفتے کو عمان میں دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ ماہرین کے کام کا جائزہ لیا جا سکے اور اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ ممکنہ معاہدے کے اصولوں کے ساتھ کس حد تک مطابقت رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں مذاکرات سے قبل امریکا کا مزید ایرانی اداروں کیخلاف پابندیوں کا اعلان
واضح رہے کہ مذاکرات کے بعد امریکا کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اتفاق امریکا امریکی صدر ایران جوہری مذاکرات ڈونلڈ ٹرمپ فریم ورک مذاکرات وی نیوز