Express News:
2025-04-22@14:39:38 GMT

کرکٹ آسٹریلیا کی دولت میں مزید اضافہ ہوگا

اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT

کراچی:

کرکٹ آسٹریلیا پھر دولت میں نہانے کو تیار ہے، اگلے بمپر ہوم سیزن کا اعلان کردیا گیا، بھارتی ٹیم وائٹ بال سیریز کیلیے مہمان بنے گی، انگلینڈ سے ایشز سیریز بھی شیڈول ہے۔

تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا اس بار بھی ہوم سیزن میں اپنے خزنے مزید دولت سے بھرے گا۔ نئے بمپر سیزن میں  ڈارون میں انٹرنیشنل کرکٹ واپسی کی تصدیق کردی گئی۔ 

بھارتی ٹیم وائٹ بال ٹور کیلیے آسٹریلیا کی مہمان بنے گی، آسٹریلیا اور بھارت کی مینزٹیموں کے درمیان 8 میچز ہوں گے، ڈارون میں 17 برس بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ہوگی، جنوبی افریقہ سے 2 مینز ٹی 20 انٹرنیشنل میچز اس مقام پر اگست میں ہوں گے۔ 

مزید پڑھیں: کرکٹ آسٹریلیا نے سابق کپتان وسیم اکرم کو ملٹی کلچرل ایمبیسڈر مقرر کردیا

بھارتی ٹیم 21 روزہ ٹور میں 8 وائٹ بال میچز کھیلے گی، جس کے بعد نومبر کے اواخر میں مینز ایشز سیریز شروع ہوگی، کرکٹ آسٹریلیا نے شیڈول جاری کردیا.

رواں برس 10 اگست کو جنوبی افریقہ سے سیریز کا پہلا ٹی 20 ہوگا، دیگر 2 میچز 12 اور 16 اگست کو ہوں گے، ون ڈے میچز 19، 22 اور 24 اگست کو شیڈول ہیں۔ 

بھارت سے 3 ون ڈے بالترتیب 19، 23 اور 25 اکتوبر کو ہوں گے جبکہ 5 میچزکی ٹی 20 سیریز 29 اکتوبر کو شروع ہوگی، 31 اکتوبر کو دوسرا ٹاکرا ہوگا جبکہ دیگر 3 میچز بالترتیب 2، 6 اور 8 نومبر کو ہوں گے، مینز ایشز سیریز کا پہلا ٹیسٹ 21 سے 25 نومبر کو پرتھ میں شیڈول ہے۔

دریں اثنا بھارتی ویمنز کرکٹ ٹیم پرتھ میں ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ کھیلے گی، بھارتی الیون آئندہ برس فروری کے وسط میں ویمنز پریمیئر لیگ کے فوری بعد آسٹریلیا کی مہمان بنے گی۔ 

مزید پڑھیں: فین زون ٹکٹ کی قیمت کیا ہوگی کرکٹ آسٹریلیا کا بڑا اعلان

بھارتی لیگ کو نئی جنوری کی ونڈو میں منتقل کیا جائیگا، پرتھ میں ڈے نائٹ میچ مارچ میں شیڈول کیا گیا ہے، ملٹی فارمیٹ سیریز میں 3 ٹوئنٹی 20 اور 3 ون ڈے بھی شامل ہوں گے، بھارتی ٹیم نے اس سے قبل 2021 میں ڈے نائٹ ٹیسٹ گولڈ کوسٹ میں کھیلا تھا۔

جاری کردہ پروگرام کے مطابق سیریز کی شروعات 15 فروری کو پہلے ٹی 20 سے ہوگی جبکہ اسی فارمیٹ کے دیگر دو میچز 19 اور 21 فروری کو ہوں گے، ون ڈیمیچز 24، 27 اور یکم مارچ کو شیڈول ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرکٹ ا سٹریلیا بھارتی ٹیم کو ہوں گے

پڑھیں:

میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘

’میں نے کچھ غلط نہیں کیا‘ یہ وہ جملہ ہے جو حال ہی میں ریلیز ہونے والی برطانوی منی سیریز Adolescence (ایڈولینس) میں ایک تیرہ سالہ بچہ بارہا دہراتا ہے، جو اپنی ہی کلاس فیلو کو سفاکی سے قتل کر دیتا ہے، یہی جملہ میرے لیے اس تحریر کا نقطہ آغاز بنا، کیونکہ یہ جملہ صرف ایک بچے کے دفاع کا بیان نہیں بلکہ ایک پورے ذہنی، سماجی اور خاندانی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔

ایڈولینس یعنی بلوغت، یہی وہ عمر ہے جہاں شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے، یہ دور کسی بھی انسان کی زندگی کی سب سے نازک، پیچیدہ اور فیصلہ کن منزل ہوتا ہے۔ تربیت میں جو کمی یا زیادتی اس عمر میں ہو، اس کا اثر باقی زندگی پر لازمی طور پر پڑتا ہے، اس عمر میں بچوں کا ذہن ایک خالی کینوس کی مانند ہوتا ہے، جہاں یا تو رنگ بھرے جاتے ہیں یا دھندلا دھواں۔ سیریز کے پہلے سین اور پہلے ہی مکالمے نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا اور پلک جھپکتے میں میں 2000 کے انگلینڈ، کاؤنٹی یارکشائر کے شہر لیڈز پہنچ چکی تھی، جہاں میں اپنی فیملی کے ساتھ کئی برس مقیم رہی ہوں۔

یارکشائر کے اس مخصوص لہجے کو سمجھنے میں مجھے تب کئی ماہ لگے تھے، لیکن یہ سیریز دیکھتے ہوئے ہر لفظ بغیر سب ٹائٹل کے میرے اندر اترتا چلا گیا، یہ سیریز دراصل اداکار اسٹیفن گراہم کا ’برین چائلڈ‘ ہے، جس میں انہوں نے ہدایتکاری، کاسٹنگ اور پیشکش میں کئی تخلیقی تجربات کیے، خاص طور سے تمام کاسٹ غیرمانوس اداکاروں پر مشتمل رکھی گئی جبکہ سیریز میں یارکشائر کے عام گھرانوں کا ماحول، طرز رہائش اور بول چال من وعن دکھائی گئی ہے، فلم کے کئی سین اور مکالمے فی البدیہہ تھے اور ہر قسط ایک سنگل شاٹ میں فلمائی گئی تھی، لیکن یہ تمام فنی کامیابیاں اپنی جگہ مگر میری گفتگو کا محور اس سیریز کی فنی جہتیں نہیں بلکہ اس کا وہ سماجی و نفسیاتی پس منظر ہے جسے یہ سیریز بے مثال انداز میں پیش کرتی ہے۔

جیسا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا کے بے لگام استعمال، نامناسب تبصروں اور توہین آمیز ایموجیز کو نئی نسل کی بگاڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے تو کسی حد تک یہ بات درست ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے پوری دنیا کے معاشروں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں۔

مگر آئیے، میں آپ کو 2002 کے انگلستان کا منظر دکھاتی ہوں، ایک ایسا وقت جب انسٹاگرام، فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ تو دور کی بات، اسمارٹ فونز کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔

اس زمانے میں جب میں پہلی بار سٹی آف لیڈز اسکول گئی جو ساتویں سے دسویں جماعت تک کا ایک وسیع و عریض تعلیمی ادارہ تھا، جدید سہولیات سے آراستہ، جہاں اساتذہ و طلبہ کے لیے ہر ممکن آسائش موجود تھی، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے وہاں کے طلبہ کا جو طرزِ عمل دیکھا، وہ ایڈولینس کی دوسری قسط میں اسکول کے مناظر میں دکھائی گئی ’طوفانِ بدتمیزی‘ کا عشر عشیر بھی نہیں تھا۔

جب سیریز میں پولیس کے دونوں اہلکار اسکول کے باہر کھڑے ہو کر دل گرفتہ لہجے میں گفتگو کرتے ہیں، تو ان کا ہر جملہ کڑوی سچائی کو آشکار کرتا ہے، ان مناظر کو دیکھ کر مجھے وہاں پیش آنے والے اپنے تجربات اور اس معاشرے کی تہہ در تہہ پیچیدگیاں شدت سے یاد آئیں۔

سیریز کا ایک اہم پہلو والدین اور اولاد کے درمیان فاصلہ اور خالی پن ہے، مغربی معاشروں میں بچوں پر ہونے والے پرانے تشدد کے خلاف قوانین تو ضرور بنائے گئے، لیکن ان قوانین کے نفاذ نے بچوں کی خودمختاری کو اس حد تک بڑھا دیا کہ اب والدین بے بس اور بےاثر ہو چکے ہیں، برطانیہ میں وقت کے ساتھ ’چائلڈ پروٹیکشن‘ کے قوانین اتنے سخت ہوگئے ہیں کہ معمولی ڈانٹ ڈپٹ بھی ’ابیوز‘ کے زمرے میں شمار کی جانے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں میں ضبط، ہمدردی اور خوداحتسابی جیسی صلاحیتیں ناپید ہوتی چلی گئیں۔ میں نے یہ خالی پن اپنی آنکھوں سے برطانیہ کے اسکولوں میں محسوس کیا تھا، جہاں سہولتیں تو جدید تھیں، مگر طلبہ کا رویہ بدتمیزی اور تشدد کی حد تک بے قابو تھا۔

سیریز میں کئی مناظر ایسے ہیں جو نہ صرف ایک تیرہ سالہ بچے کی نفسیاتی الجھنوں کو بے نقاب کرتے ہیں بلکہ مردانگی کے طاقتور مگر زہریلے اظہار کو بھی نہایت خوبی سے دکھاتے ہیں۔ خاص طور پر جیمی اور اس کی سائیکاٹرسٹ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے مناظر نہایت متاثر کن ہیں، جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ بچے میں سوسیوپیتھ جیسے رجحانات موجود ہیں۔

اکثر لوگ سوسیوپیتھ اور سائیکوپیتھ کو ایک ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ دونوں کا تعلق اگرچہ Antisocial Personality Disorder (ASPD) سے ہوتا ہے، لیکن ان کی علامات، وجوہات اور طرزِ عمل میں نمایاں فرق ہے۔ سوسیوپیتھ اکثر اپنے ماحولیاتی پس منظر جیسے گھریلو تشدد، والدین کی عدم موجودگی یا مسلسل تنقید کے نتیجے میں ایسے رویے اپناتے ہیں، جبکہ سائیکوپیتھ عموماً پیدائشی طور پر جذباتی طور پر سرد اور بے حس ہوتے ہیں۔ جیمی کی شخصیت میں ماحولیاتی عنصر کی جھلک نمایاں ہے، ایک مصروف گھریلو نظام، والدین کی عدم توجہی اور ایک بےبس معاشرہ۔

سیریز میں سماج کا سب سے خطرناک پہلو ’مردانگی کا پاور شو اور مردانہ مائنڈ سیٹ‘ کو بھی بڑی خوبی سے اجاگر کیا گیا ہے جو ہمارے جیسے معاشروں میں تو معمول کی بات سمجھا جاتا ہے لیکن اب یہ صرف جنوبی ایشیا یا مشرقی دنیا کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ رویہ اب مغربی معاشروں میں بھی واضح طور پر نظر آنے لگا ہے۔ ہم پاکستان یا انڈیا میں عورتوں پر ہونے والے تشدد یا اجتماعی ریپ جیسے واقعات پر ماتم کناں ہیں، مگر برطانیہ جیسے آزاد خیال معاشرے کے نوعمر لڑکوں کے ذہنی سانچے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔

سیریز میں جیمی اپنی کلاس فیلو کیٹی کو اس لیے قتل کرتا ہے کیونکہ وہ اس سے تعلق قائم نہیں کرتی، جبکہ وہ اپنی تصاویر کسی اور کو بھیج دیتی ہے، یہ مائنڈ سیٹ دراصل وہی ہے جو نور مقدم کے بہیمانہ قتل کے پیچھے کارفرما تھا، عورت کا انکار، مرد کی انا کو چیلنج دیتا ہے اور پھر اس انا کی تسکین کے لیے طاقت کا اظہار کیا جاتا ہے، جس میں ریپ اور قتل جیسے جرائم بھی شامل ہوتے ہیں۔

اسکول میں پولیس اہلکاروں کی کیٹی کی قریبی دوست جیڈ سے بات چیت کا سین بھی قابل توجہ ہے جس میں بظاہر مرد پولیس اہلکار کیٹی کی لڑکوں سے دوستی کے بارے میں سوال کرتا ہے جس پر جیڈ غصے سے پوچھتی ہے کہ کیا اس برتے پر قتل کیا جاسکتا ہے؟ نور مقدم کے لیے ایسے نامناسب جملے یقیناً سب کو ہی یاد ہوں گے جو اس کے بہیمانہ قتل کو جواز مہیا کرتے تھے، مائنڈ سیٹ اسی کو کہتے ہیں۔

سیریز میں Incel کی ایک جدید اصطلاح بھی استعمال کی گئی، جو انٹرنیٹ کلچر سے ابھری ہے یعنی Involuntarily Celibate وہ شخص جو نہ چاہتے ہوئے بھی جنسی یا رومانوی تعلق سے محروم رہتا ہے، ایسے افراد اکثر عورتوں، معاشرے یا کامیاب مردوں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اصطلاح 1990 کی دہائی میں ایک خاتون نے ہمدردانہ فورم کے طور پر متعارف کروائی تھی، لیکن آج یہ عورت دشمن اور مخالف کمیونٹیز میں تبدیل ہو چکی ہے۔

اسی ذہنیت کو مزید ہوا دی سوشل میڈیا انفلوئنسر اینڈریو ٹیٹ نے، جس نے عورت کو مرد کی ملکیت قرار دینے جیسے کئی متنازع بیانات دیے اور 20/80 جیسے تصورات کو فروغ دیا، یعنی 80 فیصد عورتیں صرف 20 فیصد مردوں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ایسے نظریات اب مغرب میں کئی پوڈ کاسٹ میزبانوں اور انفلوئنسرز کے ذریعے عام ہو رہے ہیں، اور نوعمر لڑکے ان خیالات سے متاثر ہورہے ہیں، یہ زہر محض سوشل میڈیا تک محدود نہیں بلکہ کلاس رومز، گھروں اور عدالتوں تک سرایت کر چکا ہے۔

سیریز ایڈولینس میں جیمی کا یہ جملہ ’میں نے کچھ غلط نہیں کیا‘ ایک فرد کی نہیں، ایک نظام کی گواہی ہے، یہ صرف ایک بچہ نہیں کہہ رہا یہ دراصل ایک پورے سماجی اور ذہنی ڈھانچے کی سوچ ہے۔ ایک ایسا نظام جو بچے، مرد اور عورت تینوں کو اذیت میں رکھتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ یہ ذہنیت، یہ مردانگی کا زہر، یہ احساسِ محرومی اور برتری کا ملاپ کب، کہاں اور کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اور اسے روکنے کے لیے ہمیں تربیت، مکالمہ، خاندانی نظام اور نظامِ انصاف میں کن گہرائیوں تک اتر کر تبدیلی لانی ہوگی؟

اس سیریز کو محض ایک کرائم ڈرامہ نہ سمجھیے، یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کے چہرے نظر آ رہے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

wenews ایشیا خاندانی نظام سیریز ایڈولینس صنوبر ناظر ظاہر جعفر عورت مرد معاشرہ مغرب نقطہ نظر نور مقدم قتل وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ ٹیم کا نیا ہیڈکوچ کون ہوگا، نام سامنے آگیا؟
  • جارحانہ انداز اپنانا کرکٹ کی ایک خوبصورتی ہوتی تھی، بیٹر کو ذہنی طور پر تنگ کرنا پڑتا ہے: محمد عامر
  • واجبات کی عدم ادائیگی؛ گلیسپی نے آئی سی سی کا در کھٹکھٹا دیا
  • لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جارحیت، شہریوں کی تشویش میں اضافہ
  • بھارتی کرکٹ بورڈ نے سینٹرل کانٹریکٹ کا اعلان کردیا، سب سے زیادہ پیسے کون لے رہا ہے؟
  • اسٹیڈیم سے نام ہٹانے کا معاملہ؛ سابق کپتان بھڑک اُٹھے، عدالت جانے کا اعلان
  • “سابق کپتان کا نام اسٹیڈیم کے اسٹینڈ سے ہٹایا جائے” درخواست موصول ہوگئی
  • سابق کپتان کا نام اسٹیڈیم کے اسٹینڈ سے ہٹایا جائے درخواست موصول ہوگئی
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ: کیا قومی ٹیم اپنے میچز کھیلنے کے لیے بھارت جائےگی؟