Express News:
2025-04-22@06:15:01 GMT

ریاستی بحران اور سیاسی حکمت عملیاں

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

پاکستان کا بحران غیر معمولی ہے۔اس غیرمعمولی صورتحال کا نہ صرف ہمیں گہرائی سے ادراک ہونا درکار ہے بلکہ جو بھی حکمت عملی اختیار کی جائے اس میں بھی طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کو بھی ہر صورت برتری حاصل ہونی چاہیے۔جو بھی بحران ہے وہ محض آج کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اس بحران تک پہنچنے میں ہمیں کئی دہائیاں لگی ہیں اور اس میں تمام ہی حکومتوں سمیت دیگر فریقین بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔

موجودہ حالات پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز سے ایک ذمے دار کردار کی توقع رکھتے ہیں۔کیونکہ اگر ہم نے اپنے معاملات میں درست سمت میں درستگی نہ کی تو اس سے معاملات اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہو سکتے۔ ہیں۔طاقت کا استعمال یقینی طور پر ایک حکمت عملی کے طور پر موجود ہوتا ہے۔لیکن یہ آخری حربے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے اور اس سے قبل سیاسی راستہ ہی اختیار کرنا ہماری ترجیح ہونا چاہیے تاکہ مفاہمت کا راستہ بھی سامنے آسکے ۔سیاسی راستے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ واپسی کا راستہ دیتا ہے اور تمام مفاہمتی راستوں کے دروازوں کو بند کرنے کے بجائے کھولنے کا سبب بنتا ہے۔

اس وقت پاکستان کے دو صوبے بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خواہ واقعی دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی سازشوں کا شکار ہیں۔ ان صوبوں کے حالات کی درستگی اور وہاں امن کا قائم ہونا لازم ہے۔پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے کئی طرح کے آپریشن کیے اور اس میں سیاسی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔یہاں تک کہ نیشنل ایکشن پلان جو 20 نکات پر مشتمل تھا وہ بھی سامنے آیا۔اس نیشنل ایکشن پلان میں سیاسی اور عسکری قیادت نے دیگر فریقین کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ بندی بھی تیارکی مگر اس کے نتائج وہ نہیں نکل سکے جو بطور ریاست ہمیں درکار تھے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کسی بھی طرح کے آپریشن وقتی طور پر یقینی طور پر کچھ بہتر نتائج دیتے ہیں لیکن یہ مستقل حل نہیں ہوتے۔مستقل حل ریاستی اور حکومتی سطح پر سیاسی بنیادوں پر تلاش کیے جاتے ہیں ۔بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں سرکاری ملازمین اور انتظامی افسران کو وارننگ دی ہے کہ وہ حالات کو کنٹرول کریں یا گھر چلے جائیں۔ اس سے لگتا ہے کہ سرکاری مشینری میں بھی مسائل ہیں۔

خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کا پہلو نمایاں ہے اور اس میں جہاں داخلی مسائل ہیں وہیں ہمیں علاقائی مسائل بھی درپیش ہیں۔ پچھلے دنوں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف نے گورننس کے معاملات سے جڑے مسائل پر کھل کر بات کی اور ان کے بقول ہمیں اپنا گورننس کا ماڈل تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ حالات کی درستگی گورننس کے تناظر میں کیسے ہوگی اور کون کرے گا۔کیونکہ پاکستان کی مجموعی گورننس پر کئی طرح کے سنجیدہ سوالات ہیں ۔

پاکستان اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک بڑے قومی بیانیہ کی تلاش میں ہے۔وہ بیانیہ جس میں ایک بڑا قومی اتفاق رائے ہر سطح پرنظر آنا چاہیے اور اس اتفاق رائے میں کسی بھی سطح پر کوئی بڑی سیاسی اور مذہبی تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ہمارے موجودہ حالات میں سیاسی تقسیم کا پہلو بہت گہرا ہے اور یہ مسئلہ خود ایک بڑے اتفاق رائے کو پیدا کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

کیونکہ ہم قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں سیاسی مسائل کو حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے اور سیاسی مسائل کی موجودگی خود ایک بڑے سیاسی بحران کا سبب بن رہی ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے ہمیں زیادہ بحران کا سامنا ہے اور وہاں جو بیانیہ دہشت گردی کے تناظر میں بنایا جا رہا ہے وہ ریاستی مفاد کے برعکس ہے۔لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات کی ہے کہ قومی میڈیا میں بھی بگاڑ ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے عملا ہمیں ایک مضبوط میڈیا درکار ہے جو قومی بیانیے کی تشکیل میں ایک مثبت کردار ادا کرسکے۔

اسی طرح ہمیں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنا کسی حکومت یا ادارے کے بس کی بات نہیں ،اس کا علاج تمام فریقین کی باہمی مشاورت اور باہمی عمل درآمد کے نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم حالات کی نزاکت کا احساس کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر ہم نے درست حکمت عملیاں اختیار نہ کیں تو معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارا درست سیاسی حکمت عملیوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہی پاکستان کی ریاست اور عوام کے مفاد میں ہے۔ہمیں ریاستی نظام میں لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ریاست خود لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اتفاق رائے میں سیاسی کے ساتھ اور اس ہے اور

پڑھیں:

بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج

کراچی:

دہشت گرد تنظیم بی ایل اے کی ملک دشمن کارروائیوں کے خلاف شہر قائد میں خواتین نے پرامن احتجاج کیا ، جس میں بلوچستان کے عوام سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔

صوبہ بلوچستان میں جاری دہشتگردی کے خلاف کراچی کی خواتین نے بھرپور اور پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاج کا مقصد بلوچستان میں شہید کیے جانے والے معصوم پاکستانیوں سے اظہار یکجہتی اور کالعدم دہشتگرد تنظیم بی ایل اے و بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔

احتجاجی ریلی مزار قائد سے شروع ہوئی اور کراچی پریس کلب پر اختتام پذیر ہوئی، جس میں طالبات، مذہبی اسکالرز، ڈاکٹرز، وکلا اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

شرکا نے ریلی کے موقع پر کہا کہ کراچی کثیر القومیتی شہر ہے جہاں ہر صوبے سے تعلق رکھنے والے افراد مل جل کر رہتے ہیں۔ کراچی میں بلوچوں کی بڑی تعداد محنت مزدوری، نوکریاں اور کاروبار کرکے عزت سے زندگی گزار رہی ہے۔

شرکا نے کہا کہ بلوچستان میں را کے ایجنٹوں، جن میں بی ایل اے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی شامل ہیں نے گھناؤنی سازش کے تحت شناختی کارڈ دیکھ کر صوبوں کے لوگوں کو بربریت کا نشانہ بنایا تاکہ دوسرے صوبوں میں نفرت اور صوبائی تعصب پیدا ہو۔

شرکا نے واضح کیا کہ ان (دہشت گردوں اور را کے ایجنٹوں) کی یہ کوششیں  رائیگاں گئیں  اور پورے ملک کے عوام بلوچ عوام کے ساتھ ان دہشتگردوں کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ ایک بہادر، غیرت مند اور محب وطن قوم ہے جب کہ ان دہشتگردوں کی نہ کوئی قومیت ہے نہ مذہب۔ یہ دہشتگرد تو حیوان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔  بلوچستان میں ہوتی ترقی دشمن ملک کو ہضم نہیں ہو رہی۔

شرکا نے الزام لگایا کہ ماہ رنگ بلوچ ایک منظم سازش کے تحت معصوم بلوچ خواتین کو ڈھال بنا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ مسنگ پرسنز کا ڈراما رچا کر نوجوانوں کی ذہن سازی کرتی ہے اور انہیں دہشتگردی کی ٹریننگ کے کیمپوں میں بھیجتی ہے، جہاں سے بعض افراد فرار ہوکر میڈیا پر آچکے ہیں۔

شرکا کے مطابق سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کئی دہشتگردوں کی ہلاکت کے بعد ان کی شناخت مسنگ پرسنز کے طور پر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ بی ایل اے اور ماہ رنگ بلوچ کو بلوچستان کی ترقی روکنے کا ہدف دیا گیا ہے۔

ریلی میں شریک خواتین نے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر پیغامات درج تھے کہ پاکستان کے تمام صوبوں کے دل بلوچستان کیساتھ دھڑکتے ہیں۔ دہشتگردوں کے خلاف پوری قوم بلوچستان اور سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے: وفاقی وزیر
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے، وفاقی وزیر
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
  • اسد عمر کی 3 مقدمات میں عبوری ضمانت 13 مئی تک منظور