ڈونلڈ ٹرمپ روسی صدر پر برہم، روسی تیل پر بھاری ٹیرف لگانے کی دھمکی دیدی
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ روسی صدر پر برہم، روسی تیل پر بھاری ٹیرف لگانے کی دھمکی دیدی WhatsAppFacebookTwitter 0 30 March, 2025 سب نیوز
واشنگٹن(آئی پی ایس )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت ناراض اور سخت نالاں ہیں۔ ان کا یہ بیان پیوٹن کی جانب سے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی قیادت پر سوالات اٹھانے کے بعد سامنے آیا۔روسی صدر پیوٹن نے گزشتہ دنوں یوکرین کو عارضی انتظامیہ کے تحت لانے کی تجویز دی تھی تاکہ وہاں نئے انتخابات ہوں اور اہم معاہدوں پر دستخط کیے جا سکیں۔
امریکی نشریاتی ادارے این بی سی کے مطابق ٹرمپ نے اتوار کے روز دھمکی دی کہ اگر روس نے یوکرین میں جنگ ختم کرنے کی ان کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی تو وہ روسی تیل پر 25 سے 50 فیصد تک اضافی ٹیرف عائد کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو یہ ٹیرف ایک ماہ کے اندر نافذ کر دیے جائیں گے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر امریکا اور روس کے مابین یوکرین میں خونریزی روکنے کا معاہدہ طے نہ ہوسکا اور اگر انہیں لگا کہ اس میں روس کی غلطی ہے تو وہ روسی تیل پر اضافی ٹیرف عائد کر دیں گے۔امریکی صدر نے واضح کیا کہ اگر کوئی روس سے تیل خریدے گا تو وہ امریکا میں کاروبار نہیں کر سکے گا۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ رواں ہفتے روسی صدر پیوٹن سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پیوٹن جانتے ہیں کہ وہ ان سے سخت ناراض ہیں، لیکن ساتھ ہی کہا کہ ان کا روسی صدر کے ساتھ بہت اچھا تعلق ہے اور اگر پیوٹن درست فیصلہ کریں گے تو میرا غصہ جلد ختم ہو جائے گا۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا یوکرین جنگ کو بیوقوفانہ قرار دیتے ہوئے اسے جلد ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ٹرمپ نے خود یوکرین میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا تھا اور یوکرینی صدر زیلنسکی کو ایک آمر قرار دیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: روسی تیل پر
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔
سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔
ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔
اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔
یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔