پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
٭خاص طور پر جب سے چینی شہریوں پر حملے ہوئے ہیں۔ چین جیسے اتحادی بھی ہم پر اعتماد کھو رہے ہیں جس سے ریاست بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہو رہی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر ہارڈ اسٹیٹ پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب ریاست ہارڈ اسٹیٹ پالیسی کی طرف بڑھ رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور انہیں طاقت کے ذریعے ختم کیا جائے۔ تاہم، بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عسکریت پسندی کے مسئلے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے صرف طاقت کا استعمال کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی مسائل کا حل بھی تلاش کرنا ہوگا۔ تاہم، بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ پہلے سافٹ انٹروینشن یعنی عوام کا اعتماد بحال کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔
بلوچستان میں زیادہ تر لوگ ریاست کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، لیکن کچھ گروہ بداعتمادی کی وجہ سے ریاست مخالف جذبات رکھتے ہیں لیکن ان کی تعداد مٹھی بھر ہے اور مضبوط شواہد سے ثابت ہے کہ ان مٹھی بھر شر پسندوں کو بھارت، اسرائیل اور امریکا (ٹرائیکا)کی پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ ٹرائیکا ہر صورت میں سی پیک کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بلوچستان جیسے علاقوں میں عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے، روزگار کے مواقع، اور مذاکراتی عمل کو بھی اہمیت دینی ہوگی۔
بلوچستان میں امن کے قیام اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں نظر انداز کیے جانے والے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک متوازن پالیسی ترتیب دینا ہوگی، جس میں سیاسی مذاکرات، ترقیاتی منصوبے، اور عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے خلاف سخت کارروائی شامل ہو۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک کمیشن بنانا چاہیے تاکہ جو بھی مسائل ہیں، ان کا حل نکالا جا سکے اور اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ریاست کو ان عناصر سے مذاکرات کرنے چاہئیں جو قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں، جبکہ ریاست مخالف گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔۔ سیاسی قیادت کو اپنی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ دہشت گردی کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی برادری پاکستان سے اس توقع کا اظہار کرتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر شدت پسند گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔ چین جیسے قریبی اتحادی بھی پاکستان میں چینی شہریوں کی سکیورٹی پر تحفظات رکھتے ہیں، جس کے باعث معاشی اور سفارتی تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت کو داخلی استحکام کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے فوری طور پر نہ صرف موثر پالیسیوں پر عملدرآمد کرنابلکہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد ان شرپسندوں کی مکمل سرکوبی کیلئے پوری طاقت کے ساتھ اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
مستقبل کی راہ اور تجاویز کے ساتھ ایک یقینی حل کی طرف پیش قدمی کیلئے ملکی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کئی مطالبات سامنے آئے ہیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نیشنل ایکشن پلان ٹو کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر 2014ء میں جب سانحہ اے پی ایس کے بعد نواز شریف کی حکومت نے تمام جماعتوں کو اکٹھا کر کے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا تھا، تو آج جب دہشت گردی کے خطرات مزید بڑھ چکے ہیں، تو وزیراعظم شہباز شریف کو بھی نیشنل ایکشن پلان ٹو ترتیب دے کر ایسے ہی اقدام کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق پاکستان اس وقت ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک دور سے گزر رہا ہے، جس کا تقاضہ ہے کہ حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرے اور ایک نئی حکمت عملی وضع کرے۔ اگر اس وقت قومی اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا تھا، تو اب بھی ایسا ممکن ہے، اور یہ وقت کی اہم ضرورت ہے
٭بلوچستان کے لیے ایک حقائق کی تلاش کمیشن کے قیام کی تجویز پر بھی غور کیا گیا جہاں تمام فریق اپنے شکایات پیش کر سکیں۔
٭ماہرین کے مطابق فوجی آپریشن سے پہلے سافٹ انٹروینشن، سافٹ اقدامات (تعلیم، روزگار، انصاف) ضروری ہیں جس پر فوری عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔
٭بین الاقوامی تعاون کو مزید متحرک کرنے کیلئے افغانستان کے ساتھ سرحدی تعاون اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جیسے فورمزپاکستان کی سفارت کاری کو فعال بنانے پر فوری عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان دہشت گردی کے اس خطرناک بحران پر قابو پاسکےگا؟یقینا پاکستان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کے خلاف مستقل حکمتِ عملی ترتیب دینا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکے ہیں، جن کے تدارک کے لیے سخت اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عمل درآمد، سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام، عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اقدامات اور ایک نئی جامع حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔
حکومت، فوج، انٹیلی جنس اداروں اور عوام کو مل کر ایک متحدہ بیانیہ اپنانا ہوگا تاکہ ملک میں پائیدار امن قائم کیاجاسکے۔ فوجی آپریشنز عارضی حل ہیں، جبکہ سیاسی وحدت، معاشی انصاف ، اور عوامی اعتماد ہی اصل کلید ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اختلافات بھلا کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ پاکستان کو دوبارہ پرامن ملک بنایا جا سکے۔ آخر میں یہ کہنا انتہائی ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی بحالی اور اجلاس میں طے کردہ فیصلوں کا بھرپور نفاذ اس سلسلے میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے ، بشرطیکہ حکومت اور حزبِ اختلاف ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد پر توجہ دیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نیشنل ایکشن پلان دہشت گردی کے بحال کرنے کے پاکستان میں کے خلاف سخت کرنے کے لیے کی ضرورت ضرورت ہے کے ساتھ کیا جا
پڑھیں:
امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت
امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :اپریل 2025 میں ، ٹرمپ انتظامیہ نے ” مساوی محصولات” کے نام پر چین اور یورپی یونین سمیت دنیا کے بڑے تجارتی شراکت داروں پر بڑے پیمانے پر محصولات کا اعلان کیا ، جس میں سے امریکہ کو برآمد کی جانے والی چینی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو مزید بڑھا کر 125فیصد کردیا گیا اور یہاں تک کہ 245فیصد تک کے اسکائی ہائی ٹیرف کی بھی تجویز دی گئی۔ امریکہ کی نئی ٹیرف پالیسی کی اصلیت ” مساوات ” کی آڑ میں ، معاشی اور تجارتی شعبوں میں تسلط پسندانہ سیاست اور یکطرفہ غنڈہ گردی کو فروغ دینا ہے ، جو نہ صرف عالمی تجارتی نظام میں افراتفری پیدا کرتی ہے، اور عالمی معاشی کساد بازاری کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھاتی ہے، بلکہ عالمی معاشی نظام پر یکطرفہ غنڈہ گردی کے انتہائی تباہ کن اثرات کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔
امریکہ نے ” امریکہ فرسٹ ” کا نعرہ لگاتے ہوئے ، یکطرفہ طور پر ڈبلیو ٹی او کے قوانین کو ترک کیا ہے،اور من مانے طریقے سے ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دوسرے ممالک کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے جوابی اقدامات کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، جیسے یورپی یونین کی جانب سے امریکی درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائد کرکے جوابی اقدامات کیے گئے، کینیڈا امریکی اسٹیل اور آٹوموبائل کی درآمدات پر 25 فیصد جوابی ٹیرف عائد کرے گا، چین نے بھی جوابی اقدامات کا ایک سلسلہ متعارف کرایا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی “طاقت ہی سچائی ہے” کی منطق کے تحت ویتنام، کمبوڈیا اور دیگر ممالک استثنیٰ کے بدلے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، بعض چھوٹے اور درمیانے درجے کے ممالک امریکہ کے اس کھیل کا شکار ہو چکے ہیں اور عالمی کثیر الجہتی تجارتی نظام افراتفری کا شکار ہو چکا ہے۔ عالمی بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر ٹیرف کی جنگ جاری رہی تو 2025 میں عالمی تجارت 12 فیصد تک سکڑ سکتی ہے، جو جرمن معیشت کے کل حجم کے برابر ہے۔ امریکہ خود بھی زیادہ ٹیرف سے متاثر ہو رہا ہے ۔ امریکی میڈیا نے نشاندہی کی کہ حکومت کی ٹیرف پالیسی عام امریکی گھرانوں کو متاثر کر رہی ہے، قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اور عوام کے پیسے جلدی سے ختم ہو رہے ہیں. یہی بات انٹرپرائزز کے لیے بھی درست ہے، فورڈ، جنرل موٹرز اور دیگر کار کمپنیاں پرزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہو رہی ہیں، سیمی کنڈکٹر آلات بنانے والوں کو سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، اور چین کے جوابی اقدامات کی وجہ سے ہالی ووڈ فلم انڈسٹری کے حصص کی قیمت گر گئی، اور امریکی صنعت کی بحالی کی امید دور ہوتی جارہی ہے۔ عالمی مالیاتی منڈیوں نے “بلیک اپریل” کا آغاز کیا۔
تین بڑے امریکی سٹاک انڈیکس میں مسلسل گراوٹ آئی، ڈاؤ جونز انڈیکس 40 ہزار پوائنٹس کی حد سے نیچے گر گیا، ایس اینڈ پی 500 میں پانچ سال میں سب سے بڑی ایک روزہ گراوٹ ریکارڈ کی گئی، اور سونے اور خام تیل جیسے محفوظ اثاثوں کی قیمتوں میں تیزی سے اتار چڑھاؤ ریکارڈ کیا گیا۔امریکی حکومت کی جانب سے دوسروں اور خود کو نقصان پہنچانے کے اس اقدام پر امریکہ کے تمام حلقوں اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی ہے۔ معاشیات کے دو نوبل انعام یافتہ افراد سمیت تقریباً 900 ماہرین اقتصادیات، ماہرین تعلیم اور صنعت کے رہنماؤں نے اینٹی ٹیرف اعلامیے پر دستخط کیے، جس میں نشاندہی کی گئی کہ ٹرمپ کی تجارتی تحفظ پسندی ایک “گمراہ کن پالیسی” ہے جو امریکی معیشت کو “خود ساختہ کساد بازاری” کی کھائی میں دھکیل سکتی ہے۔
دنیا بھر سے مخالفت کی لہریں یکے بعد دیگرے آ رہی ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے تنقید کی کہ “امریکہ اب قابل اعتماد شراکت دار نہیں ہے” اور اس پر انحصار کم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یورپی یونین نے صنعتی چین کی خود مختاری کو تیز کرنے اور عالمی معیشت میں امریکہ کی غالب پوزیشن کو کمزور کرنے کے لئے” انسداد اقتصادی جبر ایکٹ ” کا آغاز کیا۔ 10 آسیان ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں دوٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ امریکی اقدام “بہت سے ممالک کے مفادات کو قربان کر رہا ہے”۔ چین نے امریکہ کے خلاف باضابطہ طور پر ڈبلیو ٹی او میں یکطرفہ محصولات کی شکایت درج کرائی ہے اور 23 تاریخ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر رسمی اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں تمام 193 رکن ممالک کو امریکہ کے محصولات کی وجہ سے عالمی تجارتی نظام کو پہنچنے والے سنگین نقصان پر بحث میں حصہ لینے کی دعوت دی گئی ہے۔محصولات کی بالادستی اور یکطرفہ تسلط کے ذریعے اپنی معیشت کو بچانے کا امریکہ کا ارادہ واقعی گمراہ کن ہے۔
یہ “ایک چمچ کے ذریعے سمندر کے پانی کو نکال کر خشک کرنے ” کی طرح ہے۔ بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کی ایک تحقیق کے مطابق، اگر امریکہ تمام محصولات کو بڑھا کر 25 فیصد کر دیتا ہے، تو اس سے مینوفیکچرنگ کے صرف 1.2 فیصد روزگار کے مواقع واپس آئیں گے، لیکن صارفین کو لاگت کا 90 فیصد برداشت کرنا ہے . اگر امریکہ موجودہ مخمصے کو حل کرنا چاہتا ہے تو اسے “زیرو سم گیم” کی ذہنیت کو ترک کرنا ہوگا اور کثیر الجہتی تعاون کی راہ پر واپس آنا ہوگا۔ ٹرمپ 1930 کے” سموٹ ہولی ٹیرف ایکٹ ” کی وجہ سے شروع ہونے والی عالمی تجارتی جنگ کے بارے میں سوچیں، جس نے بالآخر امریکی جی ڈی پی کو 30 فیصد تک کم کر دیا تھا اور بے روزگاری کی شرح 25 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
سب کہتے ہیں کہ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے، اور یہ کہ امریکہ کی ٹیکسوں میں اضافے کی موجودہ حکمت عملی تاریخ سے بہت ملتی جلتی ہے۔ اگر امریکہ عالمی برادری کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اسی راستے پر چلنے پر اصرار کرتا رہا تو اسے بالآخر اپنی غلطیوں کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایرانی وزیر خارجہ چین کا دورہ کریں گے ، چینی وزارت خارجہ چین نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور پر عمل کیا ہے، وزارت خارجہ ٹیرف جنگ کے تناظر میں اتحادیوں کا امریکہ پر اعتماد انتہائی کم ہو چکا ہے، چینی میڈیا آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کا خسارہ 7222ہزار ارب روپے رہنے کا امکان چائنا میڈیا گروپ کے ایونٹ “گلیمرس چائینیز 2025 ” کا کامیاب انعقاد چین، دنیا کی پہلی ہیومنائیڈ روبوٹ ہاف میراتھن کا انعقاد چین اور گبون نے سیاسی باہمی اعتماد کو گہرا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، چینی صدرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم