بھیڑیئے جتنی غیرت اور عاجزی
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
بھیڑیئے بہت خونخوار اور وحشی درندے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی غیرت، وفا، شرم و حیا، نظم و ضبط، اپنی جنس سے ہمدردی اور کچھ دیگر منفرد اور غیرمعمولی خوبیاں اور عادات و خصائل بہت مشہور ہیں۔ بھیڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے دنیا کا واحد جانور ہے جو جنات کو قتل کرسکتا ہے، بھیڑیئے کی تیز آنکھوں میں جنات کو دیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔ جنات کو دیکھتے ہی بھیڑیا ان پرجھپٹ پڑتاہے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ بھیڑیا دنیا کاایساجانور ہےجو اپنی آزادی پرکبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتااور زندگی بھرکسی کا غلام نہیں بنتا۔ بھیڑیاکبھی مردارکا گوشت نہیں کھاتابلکہ زندہ جانوروں کاشکار کرکے انھیں اپنی خوراک بناتا ہےکیونکہ بھیڑیا مردہ گوشت کھانے کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ برفانی بھیڑیوں کے بارے سنا گیا ہے کہ جب خوراک کی کمی ہوتی ہے تو وہ لاغر ہو جاتے ہیں اور جو بھیڑیا بھوک کی وجہ سے سب سے زیادہ کمزور ہو جائے وہ نڈھال ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور باقی بھیڑیئے بھی اس کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی بھیڑیا اسے کھانے کے لئے حملہ نہیں کرتا ہے حالانکہ اس کے گرد موجود تمام بھیڑیئے خود بھی بھوک سے کمزور ہو چکے ہوتے ہیں۔ البتہ جونہی وہ لاغر بھیڑیا قریب مرگ ہوتا ہے اور مرنے کے لئے آخری بار زمین پر گرتا ہے تو اس کے گرد دائرے میں بیٹھے بھیڑیئے اپنی بھوک مٹانے کے لئے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
اسی طرح دو بھیڑیوں کی لڑائی میں جب ایک بھیڑیایہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسرے بھیڑیئے کے خلاف لڑائی ہاررہا ہے اور یہ جان لیتا ہے کہ جیت کا کوئی امکان نہیں ہے، تو وہ ایک حیران کن اور غیر متوقع فیصلہ کرتا ہے، وہ خود کو پرامن طریقے سے اپنے حریف کے سامنے اس طرح پیش کر دیتا ہے جیسے یہ کہہ رہا ہو کہ، ’’میں ہار گیا ہوں، چلو ہم یہ لڑائی اب ختم کرتے ہیں۔‘‘ لیکن اسی لمحے ایک حیرت انگیز بات یہ واقع ہوتی ہے کہ جو شاید ہی کسی دوسری جاندار مخلوق میں ہوتی ہو۔ واقعہ یہ ہوتا ہے کہ فاتح بھیڑیا اپنی آخری ضرب لگانے کی بجائے خود کو حملہ کرنے سے فوری طور پر روک لیتا ہے۔ عین ممکن ہے اس فاتح بھیڑیئے کو اپنی جنس سے ہمدردی اور اپنی قوت و بہادری اور وقار جیسی کوئی اندرونی قوت روکتی ہے۔ کوئی خاموش فطری قانون بھیڑیئے کے ڈی این اے (DNA) میں پایا جاتا ہے جو اسے حکم دیتا ہےکہ اپنے کمزور دشمن پر حملہ نہیں کرنا ہے کیونکہ یہ حملہ کرنے کی بہادری ظلم کے زمرے میں آتی ہے یا شاید اس سے آگے کی کوئی چیز بھیڑیئے کے دماغ میں آتی ہے کہ اس کے حریف کی بقا اس کو ختم کرنے کے اطمینان سے زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔
بھیڑیا افزائش نسل اور تولید کے معاملات میں ماں اور بہن جیسے رشتوں سے منسلک مادہ بھیڑیوں سے جسمانی تعلق قائم نہیں کرتا ہے۔ بھیڑیوں کی یہ صفت مشہور ہے کہ میاں اور بیوی بھیڑیئے میں محبت اور وفا کا رشتہ آخری دم تک قائم رہتا ہے۔ اگر جوڑے میں سے کسی ایک کی موت بھی واقع ہو جائے تو دوسرا اپنی موت تک کسی بھی نر یا مادہ بھیڑیے سے جسمانی تعلق قائم نہیں کرتا یے۔ اسی طرح شریک حیات کی موت کے بعد بھیڑیا اپنے بچوں کی اکیلے ہی پرورش کرتا ہے اور انہیں پالتا ہے۔ بھیڑیا والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیئے بھی مشہور ہے۔ جب کسی بھیڑیئے کے والدین بوڑھے ہو جائیں اور شکار تو کیا چلنے پھرنے کے بھی قابل نہ رہیں، تو ان کے بچے شکار کر کے اپنے ماں باپ کو کھلاتے ہیں اور ان کا سہارا بنتے ہیں۔ اسی بنا پر بھیڑیے کو عربی اصطلاح میں والدین سے نیک سلوک کرنے والا بھی کہا جاتا ہے۔
بھیڑیا اپنے سونے کے معاملات میں بھی تمام جانوروں سے منفرد ہے، جو سوتے وقت ایک آنکھ کھلی رکھتا ہے اور حیرت انگیز طور پر سوتے ہوئے بھی اس کی آنکھ اردگرد کے مناظر و حالات سے باخبر رہتی ہے۔ بھیڑیئے ایک کاررواں کی صورت میں چلتے ہیں اور ان کا یہ انداز ڈسپلن اور سکیورٹی وغیرہ کے بہترین انتظامات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ کاررواں میں سب سے آگے بوڑھے، ناتواں اور ضعیف بھیڑیئے چلتے ہیں جبکہ ان کے پیچھے چیر پھاڑ کی ماہر ایلیٹ فورس چل رہی ہوتی ہے۔ اس فورس کی ذمہ داری آگے چلنے والے بیمار اور بوڑھے بھیڑیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس فورس کے پیچھے وہ جتھہ چل رہا ہوتا ہے جو انتہائی طاقتور بھیڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو دشمن کے اچانک حملے کی صورت میں دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس جتھے کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہوتا ہے جو چاروں جانب سے پھیل کر اپنے مخالف پر حملہ کرتا ہے۔ اس کے بعد پھر پانچ بھیڑیوں پر مشتمل ایک اعلیٰ فورس ہوتی ہے جو سب سے آخر میں موجود کمانڈر بھیڑیئے کی رہنمائی کر رہی ہوتی ہے۔ عربی اصطلاح میں کمانڈر بھیڑیا اکیلا ہی ہزار کے برابر ہوتا ہے، کیونکہ یہ اپنی پھرتی، طاقت، آس پاس کے حالات سے باخبر رہنے کی صلاحیت اور پورے کاررواں کے معاملات کی نگرانی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منگولوں اور ترک قوم نے بھیڑیئے کو اپنا ’’قومی جانور‘‘ بنا رکھا ہے۔بھیڑیئے جیسے جانور جو بعض دفعہ شیر سے بھی زیادہ ظالم اور خونخوار ثابت ہوتا ہے، اس میں بھی قدرت نے یہ کتنے قابل تحسین فطری اوصاف رکھے ہیں کہ وہ منظم و غیرت مند ہوتے ہیں اور بچوں کو پالنے اور والدین کی خدمت کرنے جیسے اوصاف سے سرشار ہوتے ہیں، ان کے نزدیک ہتھیار ڈالنے والے میں کوئی بزدلی نہیں ہوتی، اور حملہ کرنے سے ہاتھ کھینچ لینے والے میں کوئی تفاخر نہیں ہوتا۔ اگر انسان کی فطرت میں یہی کامل توازن کا جذبہ موجود ہو جہاں کوئی فاتح نہ ہو اور کوئی ہارنے والا نہ ہو تو اسے ’’عاجزی‘‘ کہتے ہیں۔
عاجزی طاقت ہونے کے باوجود انتقام اور بدلہ نہ لینے کا نام ہے جو بھیڑیوں جتنی بھی انسان کے اندر پائی جائے تو محبت اور وفا پر مبنی ایک ایسا احسن انسانی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے، جہاں تمام بنی نوع انسان بہن بھائیوں کی طرح ایک خاندان کی شکل میں رہ سکتے ہیں، جہاں زندگی آسان ہو جائے اور دنیا پر ہی ’’جنت‘‘ کا گمان ہونے لگے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں کرتا کی صلاحیت ہوتے ہیں ہیں اور جاتا ہے کرتا ہے ہوتا ہے ہوتی ہے ہے اور اور ان
پڑھیں:
اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ
پہلی بار نہ سہی مگر اکادمی ادبیات پاکستان نے ادبی ایوارڈ زکی صورت میں جو اندھا یدھ برپاکیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔قومی معاملات میں مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تو ہوہکار کے طوفان تو اٹھتے اور بیٹھ جاتے ہو ئے دیکھے ہیں مگر علم و دانش اور شعر و ادب کے حوالے سے ایسی رستاخیز کبھی برپا نہیں ہوئی تھی۔اس پر مستزاد اہل قلم مداہنت آمیز خاموشی…! اور تو اور جن کا قلم درد و الم کی گنگا بہانے کی’’خیالی نقش گری‘‘ میں کمال مہارت رکھتا ہے ، جن کی زنبیل میں سیاسی بد عنوانیوں اور بداعمالیوں پر ڈالنے کے لئے اطلس و کم خاب کے پارچہ جات کی کمی نہیں ،وہ جو ہر فیصلے اپنی پسند و ناپسندی کی جہت دینے کے وسیع اختیارات رکھتے ہیں ۔جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کے سفید ہونے کی تصدیقی مہریں ہر پل اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں اور طاقت پرواز ایسی کہ کاغذی بیمانوں پر سوار ہوکر جدہ پیلس پناہ جلینے میں ساعت بھر نہیں لگاتے ۔اپنا یہ حسن ظن بھی خیال خام ثابت ہوا کہ اس بار وہ بچ بچا کر ہونے والے امکانات کی روشنی میں فیصلے صادر کروائیں گے کہ اس پیرانہ سالی میں کفاروں کی ادائیگی کا اہتمام صاف و شفاف دکھائی دے گا ۔مگر وائے افسوس وہ دہکتے ہوئے ادبی ماحول کی بابت کچھ کہنے کی بجائے ’’لق و دق صحرا میں بگولے کی طرح رقص کرتے گھمن گھیریاں کھاتے‘‘
پی ٹی آئی کے وجود کا نوحہ لکھنے ہی میں مست رہے ،کیونکہ ان کے حکم اذاں کی تعمیل کے لئے عمرہ جاتی یا جاتی عمرہ کی جانب رخ انور سجائے رکھنا ضروری ہے ۔ اکادمی ادبیات کی نیاز بانٹنے والوں نے جو ’’یدھ‘‘ مچایا اس کی مثال نہیں ملتی اور مجال کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قومی خزانے پر انہیں کا حق ہے جنہیں ان کے اجداد سانپ کی طرح اس کی نگرانی پر مامور کر گئے تھے۔یوں بھی اپنے اپنے خدا گھڑلینے کا رواج اب نہیں پڑا یہ بہت پرانی رسم ہے زمین پر خدا بنالینے والوں کی اپنی احتیاجات اور اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔مورت گری کے فن پر دسترس ہوتو ضمیر آڑے نہیں آتا کہ یہ تو ہنر ہی باد فروشوں ہی کا ہے ۔اب کی بار اکادمی ادبیات کی شہ نشین صنف نازک ہیں نزاکتوں بھرے فیصلے ہی ان کی زبانی سنوائے جانے تھے ،انہیں کیا خبر عدل کیا ہوتا ہے ؟ انصاف کسے کہتے ہیں ؟ کہ ان کے زریں دور میں تو ایسے ہی غیر شفاف فیصلوں کا چلن ہے ،پھر ان پر کیا دوش کہ ان کے گرد بھی تو باد سنجوں کی ایک فوج ظفر موج ہوگی ، جنہیں سچ کہنے اور حق کرنے کا بھلے یارہ ہی کس نے بخشا ہوگا اور وہ بھی لکھے ہوئے فیصلوں پر دستخط کرنے کا اختیار رکھتی ہیں، خط تنسیخ کی اجازت آنہیں کہاں تفویض کی گئی یہ اختیار تو سنا ہے ریاست اور حکومت کے سربراہ کے پاس بھی نہیں ہوتا ،سوائے اس کے کہ فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت اختیار بس اتنا کہ خبر میں رہنا ہے کتنے سخن ساز ہیں ،قلم کار ہیں بھوک رات دن جن کے آنگنوں میں رقص کرتی ہے مگرکسے خبر ہے ہمارے اندر ہر ایک منظر بہ چشم تر ہے کسے خبر ہے (مصدق سانول) ایک نابغہ روزگار نوجوان شاعر تھا عین شباب میں داعی اجل ہوا ۔آج تک کسی کی نظر سے نہیں گزرا ،اس کی نظمیں ،اس کی گائی ہوئی کافیاں ،سرائیکی شعری سرمایہ سب حالات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
سرائیکی وسیب کے منفرد لہجے کے شاعر حبیب فائق کسے یاد ہیں،یاد تو فقیر منش سرائیکی شاعر اسلم جاوید بھی کسی کو نہیں جو ابھی زندہ ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔کس کس کا ذکر کریں کہ یہاں یہ رسم رہی ہے کہ ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ مقبول تنویر سرائیکی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئے ۔مرحوم ڈاکٹر مقصود زاہدی اردو رباعی کے بادشاہ کبھی کسی ایوارڈ کے مستحق نہیں ٹھہرائے گئے اور ممتاز اطہر اردوغزل کو نئی جہت اور جدید رنگ عطا کرنے والے ،غربت و افلاس کے اندھیروں میں بھٹکرہے ہیں کسی نے ان کی انگلی نہیں تھامی کہ بے روزگاری کے اندھے کنویں سے نکل آتے ۔ایسے کئی اور رتن ہوں گے جو آسودہ خاک ہوئے اور وہ ہیں کہ ابھی بے سمتی اور بے حکمتی کے لق و دق صحرا میں رقص کرتی، پی ٹی آئی پر ہی سوئی اڑائے ہوئے ہیں ۔