اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) رواں مالی سال 2024-25ء کے پہلے نو ماہ (جولائی تا مارچ) میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ریونیو شارٹ فال725 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایف بی آر کے ریونیو شارٹ فال میں مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔ آئی ا یم ایف کی مشاورت سے ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں636 ارب روپے کی کمی کے باوجود بھی ریونیو شارٹ فال قابو میں نہیں آپا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق صرف مارچ2025ء میں ایف بی آر کو ایک سو ارب روپے سے زائد کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا ہے۔ مارچ میں ریونیو خسارہ 100 ارب روپے سے زیادہ مارچ میں1220 ارب ہدف کے مقابلے تقریبا 1100 ارب روپے عبوری ٹیکس جمع ہو سکا ہے، مارچ میں 34ارب جبکہ 9 ماہ میں 384 ارب کے ریفنڈز ادا کئے گئے۔ رواں مالی سال 2024-25ء کے پہلے نو ماہ (جولائی تا مارچ) میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مجموعی طور پر آٹھ ہزار چار سو 44 ارب روپے کی عبوری ٹیکس وصولیاں کی ہیں جبکہ ٹیکس ہدف 9 ہزار 167 ارب روپے مقرر تھا۔ اس لحاظ سے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران حاصل ہونے والی ٹیکس وصولیاں مقررہ ہدف سے 725 ارب روپے کم ہیں۔ علاوہ ازیں روا ں مالی سال کا نظرثانی شدہ سالانہ ہدف 12 ہزار 334 ارب روپے مقرر ہے، جبکہ اصل ٹیکس ہدف 12 ہزار 970 ارب روپے تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا دباؤ اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوششیں کارآمد ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ اب ایف بی آر کو نظرثانی شدہ سالانہ ہدف پورا کرنے کیلئے اگلے تین ماہ میں کوششیں تیز کرنا ہوں گی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ریونیو شارٹ فال ایف بی ا ر مالی سال ارب روپے

پڑھیں:

ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز اور نجی طبی اداروں کے خلاف ایف بی آر کا سخت کریک ڈاؤن

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس چوری میں مبینہ طور پر ملوث نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز، میڈیکل کلینکس اور نجی اسپتالوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ حالیہ ڈیٹا اینالسز کے دوران سامنے آنے والے چونکا دینے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا گیا ہے، جن سے ملک میں ڈاکٹروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ٹیکس عدم تعمیل کا انکشاف ہوا ہے۔
ایف بی آر کے مطابق ملک بھر میں مجموعی طور پر 1 لاکھ 30 ہزار 243 ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں، تاہم رواں سال صرف 56 ہزار 287 ڈاکٹرز نے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروائے، جبکہ 73 ہزار سے زائد ڈاکٹرز قابلِ ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود گوشوارے جمع کرانے میں ناکام رہے۔
اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ شعبہ، جو ملک کے سب سے زیادہ آمدنی والے پیشوں میں شمار ہوتا ہے، اپنی اصل آمدنی اور ظاہر کردہ آمدنی کے درمیان واضح تضاد رکھتا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق 2025 میں 31 ہزار 870 ڈاکٹرز نے نجی پریکٹس سے صفر آمدنی ظاہر کی جبکہ 307 ڈاکٹرز نے نقصان ظاہر کیا، حالانکہ بڑے شہروں میں ان کے کلینکس روزانہ مریضوں سے بھرے رہتے ہیں۔
صرف 24 ہزار 137 ڈاکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے کسی حد تک کاروباری آمدنی ظاہر کی، لیکن ان کی جانب سے ادا کیا گیا ٹیکس بھی ممکنہ آمدنی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ مثال کے طور پر:
17 ہزار 442 ڈاکٹرز جن کی سالانہ آمدنی 10 لاکھ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً صرف 1,894 روپے ٹیکس ادا کیا۔
10 ہزار 922 ڈاکٹرز جن کی آمدنی 10 سے 50 لاکھ روپے سالانہ کے درمیان تھی، ان کا یومیہ ٹیکس محض 1,094 روپے رہا۔
3 ہزار 312 ڈاکٹرز جن کی آمدنی 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تھی، انہوں نے یومیہ صرف 1,594 روپے ٹیکس دیا۔
سب سے زیادہ آمدنی والے 3,327 ڈاکٹرز جن کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً صرف 5,500 روپے ٹیکس ادا کیا۔
حیران کن طور پر 38 ہزار 761 ڈاکٹرز نے 10 لاکھ روپے سے کم آمدنی ظاہر کی، جن کا یومیہ ٹیکس صرف 791 روپے رہا، جبکہ ایسے بہت سے ڈاکٹرز فی مریض 2 ہزار سے 10 ہزار روپے تک فیس وصول کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ 31 ہزار 524 ڈاکٹرز نے صفر آمدنی ظاہر کرنے کے باوجود مجموعی طور پر 1.3 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز کے دعوے بھی دائر کر رکھے ہیں، جو اس صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیتا ہے۔
یہ تمام اعداد و شمار زمینی حقائق سے شدید متصادم ہیں، کیونکہ ملک بھر میں نجی کلینکس ہر شام مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اگر موازنہ کیا جائے تو گریڈ 17 اور 18 کے سرکاری افسران ماہانہ اس سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جتنا کئی ڈاکٹر پورے سہ ماہی میں بھی ادا نہیں کرتے، حالانکہ سرکاری ملازمین کے پاس آمدنی چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
یہ صورتحال ایک بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے:کیا ایک ملک صرف اُن طبقات کے ٹیکس پر چل سکتا ہے جن کی آمدنی چھپ نہیں سکتی، جبکہ زیادہ آمدنی والے شعبے یا تو آمدنی کم ظاہر کریں یا بالکل ظاہر ہی نہ کریں؟
زیادہ آمدنی رکھنے والے طبقات کی جانب سے کم یا صفر آمدنی ظاہر کرنا نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ٹیکس نظام میں انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ بڑھتا ہوا یہ کمپلائنس گیپ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ٹیکس نظام میں شفافیت اور انصاف کی بحالی کے لیے مؤثر اور بلا امتیاز انفورسمنٹ ناگزیر ہو چکی ہے۔
اب زیادہ آمدنی والے پیشوں میں ٹیکس کمپلائنس کوئی اختیاری معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ قومی معیشت کے استحکام اور ریاستی بقا کے لیے ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • منی بجٹ نہیں لا رہے، شارٹ فال گڈ گورننس سے کور کرینگے: وزیر خزانہ
  • آئی ایم ایف، بجلی سبسڈی میں 143 ارب روپے کی کٹوتی
  • ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز اور نجی طبی اداروں کے خلاف ایف بی آر کا سخت کریک ڈاؤن
  • کراچی یلو لائن منصوبے کی لاگت 190 فیصد بڑھ کر 178 ارب روپے تک پہنچ گئی
  •  غربت بڑھی، وفاق، پنجاب، بلوچستان میں صحت و تعلیم کے بجٹ اہداف حاصل، سندھ، خیبر پی کے پیچھے: آئی ایم ایف
  • پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی
  • آئی ایم ایف کی نئی شرائط، کھاد، زرعی ادویہ، شوگر اور سرجری آئٹمز پر ٹیکس لگے گا
  • شارٹ فال: ریونیو اقدامات کئے‘ اخراجات روک دینگے‘ آئی ایم ایف کو یقین دہانی
  • حکومتی معاونت کے بغیر ٹیکس خسارہ 560 ارب تک بڑھنے کا امکان
  • روہت اور کوہلی کی تنزلی کا امکان، بھاری مالی نقصان کا اندیشہ