Express News:
2025-04-22@07:15:35 GMT

ایوارڈ اور ادھورا انصاف

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

ایوارڈ دینا ایک علامتی عمل ہوتا ہے، جو تاریخ میں کسی شخصیت کی خدمات کا اعتراف کرتا ہے مگرکیا یہ عمل حقیقی انصاف کا متبادل ہو سکتا ہے؟ ذوالفقارعلی بھٹوکو اس سال 23 مارچ کو بعد از مرگ ’’ نشانِ پاکستان‘‘ سے نوازا جانا، ان کے سیاسی سفرکا ایک باضابطہ اعتراف ضرور ہے لیکن اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے ان کے دورِ حکومت اور اس کے اثرات سے کچھ سیکھا ہے؟ کیا ہم نے اس تاریخ سے کچھ سبق حاصل کیا ہے یا ہم صرف ماضی کی شخصیات کو ایوارڈ دے کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں؟

بھٹو صاحب پاکستانی سیاست کی ایک نمایاں شخصیت تھے جنھوں نے عوامی سیاست کو فروغ دیا اور کچھ ایسے اقدامات کیے جنھوں نے ملک کے سیاسی اور اقتصادی منظر نامے پرگہرا اثر چھوڑا۔ ان کے حامی انھیں عوامی حقوق کے علمبردارکے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ ناقدین ان کی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔

وہ ایک متحرک سیاسی رہنما تھے لیکن ان کے طرزِ سیاست پر اختلافِ رائے موجود ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ تاہم ان کی حکومت کے اختتام اور بعد میں پیش آنے والے واقعات نے پاکستانی تاریخ میں ایک اہم باب رقم کیا جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں کئی رہنماؤں کو پہلے متنازع بنایا گیا، پھر دہائیوں بعد ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انھیں ایک مقدمے کے نتیجے میں سزائے موت دی گئی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس فیصلے پر کئی حلقوں میں سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

آج جب انھیں بعد از مرگ سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا گیا ہے تو یہ ایک اہم موقع ضرور ہے مگر اس سے ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کے اعترافات ماضی کی غلطیوں کا حقیقی ازالہ کر سکتے ہیں؟ کیا صرف ایک سرکاری اعزاز دینے سے انصاف کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں یا حقیقی انصاف کا مطلب کچھ اور ہے؟

پاکستان میں کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام عوامی مسائل اور جمہوری جدوجہد جاری رہی ہے۔ مختلف حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن عام آدمی کے مسائل آج بھی کم و بیش وہی ہیں۔

سندھ میں پانی کے مسائل بلوچستان میں لاپتہ افراد کی گمشدگی خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں محرومی کے احساس جیسے معاملات آج بھی جوں کے توں ہیں۔ جب لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو انھیں بعض اوقات ریاست مخالف عناصر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں بھی ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے محض رسمی ایوارڈز کے ذریعے اعترافِ جرم کیا جاتا رہے گا؟

جمہوری حقوق کی بات کرنے والے صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے اور ریاستی جبر پر سوال اٹھانے والے آج بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے یا ہم اب بھی وہی طرزِ عمل دہرا رہے ہیں جس پر کئی بار تاریخ میں نظرثانی کی جا چکی ہے؟ بھٹو صاحب کو ’’ نشانِ پاکستان‘‘ دینا ایک اہم قدم ضرور ہے لیکن کیا اس سے عام شہریوں کو کوئی عملی فائدہ پہنچے گا؟ کیا اس سے بلوچستان میں برسوں سے اپنے لاپتہ پیاروں کا انتظار کرنے والی ماؤں کے آنسو خشک ہوں گے؟ کیا اس سے وہ مزدور خوشحال ہو جائے گا جو دن رات محنت کے باوجود دو وقت کی روٹی کے لیے ترستا ہے؟

اگر ہم پاکستانی سیاست کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اقتدار ہمیشہ مخصوص حلقوں تک محدود رہا ہے۔ وہی جاگیردار، سرمایہ دار اور بااثر خاندان آج بھی سیاست پر غالب ہیں جن کے خلاف مختلف ادوار میں آواز اٹھائی جاتی رہی ہے، اگر ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنا ہے تو ضروری ہے کہ جمہوری اقدار کو مضبوط کیا جائے عوامی مسائل کو عملی طور پر حل کیا جائے اور انصاف کے نظام کو مضبوط بنایا جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ خود کو دہراتی رہے گی اور ایک دن وہی لوگ جو آج دبائے جا رہے ہیں مستقبل میں ایوارڈز کے حقدار قرار دیے جائیں گے، لیکن تب شاید وہ خود یا ان کے پیارے اس دنیا میں نہ ہوں۔

ایوارڈ دینا اور تقاریب منعقد کرنا ایک علامتی قدم ہو سکتا ہے لیکن اگر عملی اقدامات نہ کیے جائیں تو یہ صرف ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائے گا، اگر ماضی کی قربانیوں کو حقیقی معنوں میں تسلیم کرنا ہے تو ضروری ہے کہ عوام کے حقوق کو اولین ترجیح دی جائے قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اور اختلافِ رائے کو دبانے کے بجائے اسے جمہوری عمل کا حصہ سمجھا جائے۔ ورنہ یہ سوال ہمیشہ کے لیے قائم رہے گا کہ آیا ہماری ریاست کو حقیقی انصاف کی فکر ہے یا صرف وقت گزرنے کے بعد رسمی اعترافات کرنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم صرف ماضی کے رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کر کے اپنی ذمے داری پوری سمجھتے ہیں یا ہم حقیقی معنوں میں ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہوں؟ اگر اس سمت میں عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ایوارڈز اور اعترافات محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائیں گے جب کہ عوام کے حقیقی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں یا صرف وقت کے ساتھ اپنے رہنماؤں کو یاد کر کے رسمی ذمے داری پوری کرنا چاہتے ہیں؟

یہ بحث صرف بھٹو تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے رہنما گزرے ہیں جنھیں ان کے وقت میں پذیرائی نہ ملی لیکن بعد میں ان کے افکار اور نظریات کو تسلیم کیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم ہمیشہ یہی رویہ اپناتے رہیں گے؟ پہلے کسی کو اختلافِ رائے کی بنیاد پر دبائیں گے اور پھر کئی دہائیوں بعد انھیں اعزاز دے کر اپنی غلطیوں کو ماضی کا قصہ بنا دیں گے؟ کیا ہم نے واقعی ایک بہتر نظام کے قیام کے لیے کچھ سیکھا ہے یا ہم اب بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں؟

اگر واقعی ہم اپنی تاریخ سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ایوارڈ دینے کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہوگا، عدلیہ اور قانون کے نظام کو آزاد اور غیرجانبدار بنانا ہوگا اختلافِ رائے کو دبانے کے بجائے اسے سیاسی و سماجی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ جب تک ہم یہ بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتے تب تک نہ تو ماضی کے رہنماؤں کی قربانیوں کا حقیقی معنوں میں اعتراف ممکن ہوگا اور نہ ہی مستقبل میں انصاف کا کوئی واضح راستہ نکل سکے گا۔

ہمیں اب ایوارڈز سے آگے سوچنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جو لوگ آج ظلم جبر اور ناانصافی کے خلاف لڑ رہے ہیں وہی کل کے ہیرو ہیں۔ اور ہمیں ان کی قدر آج کرنی ہوگی نہ کہ کئی دہائیوں بعد جب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ تاریخ کے ماتھے پر تمغے سجانے کے بجائے آج کے ہیروز کے ہاتھ میں انصاف تھمانا ہوگا۔ یہی حقیقی خراج تحسین ہوگا اور یہی ایک بہتر اور منصفانہ پاکستان کی طرف پہلا قدم بھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرنا ہوگا تاریخ میں کہ کیا ہم ہے کہ کیا کیا ہم نے کے بجائے نے والے ماضی کی رہے ہیں ا ج بھی کیا اس کے لیے

پڑھیں:

عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ

روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اعلان کردہ ایسٹرکی ایک روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ فریقین نے کہا کہ اس دوران سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے۔

 روس، یوکرین جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی لیکن امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے امریکا کے ساتھ بڑے تجارتی مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘ تاہم انھوں نے ان امن مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں جنھیں امریکا جنوری میں ان کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کے بعد یورپی طاقتیں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی امن کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے،کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مکمل جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کردیا ہے۔ دراصل ٹرمپ یوکرین کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہ روس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ یوکرین جیسا ’چھوٹا مسئلہ‘ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، روس، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ، آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اورگیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔

یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں، زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبرد آزما ہے۔

اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجرز اور سویلینز اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن یوکرین کو نیٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچا چکا ہے ، یعنی چوٹ برابرکی ہے۔ جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی۔جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے، لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔

اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں چھے برسوں میں جو تباہی مچی، اس کو امریکا نے دو تین برسوں ہی میں ختم کردیا تھا، لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہوگئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔

صدر ٹرمپ کے اقدامات، بیانیے اور مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جوکبھی قومی ذمے داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکا اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہوچکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیزکر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک نئے دورکا آغاز دیکھ رہے ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔ اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکا کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ،کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔

اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکا کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔ اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔

ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکا میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔ ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ جو فی الحال ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی ہے، وہاں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟

دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کرسکیں گے، البتہ صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے، وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔

یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔ امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ ، جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہوگی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی بین الاقوامی تنازعات کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • شہباز شریف کا نمایاں کارکردگی پر تارکین وطن کو سول ایوارڈ دینے کا اعلان
  • برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب رضوی کیلیے عالمی ایوارڈ
  • وزیراعظم کا ملک میں سرمایہ کاری کرنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو سول ایوارڈ دینے کا اعلان
  • سونے کی قیمت میں آج بھی بڑا اضافہ، نرخ نئی تاریخ ساز سطح پر پہنچ گئے
  • تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہیں ہوگا، جے یو آئی
  • گلیسپی کا واجبات کی عدم ادائیگی کا الزام غیر حقیقی ہے، پی سی بی
  • سینئر صحافی وقار بھٹی کو ہیلتھ جرنلزم ایوارڈ سے نوازا گیا
  • کنول عالیجا، مصنوعی ذہانت کے بل پر عالمی کاروباری اداروں تک رسائی پانے والی باہمت خاتون
  • معاشی استحکام حقیقی لیکن یہ عالمی منڈی کا مرہون منت ہے: مفتاح اسماعیل