Express News:
2025-12-14@09:26:36 GMT

بھارتی مسلمان اور پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

بھارتی مسلمانوں کی ہمت اور جرأت کو سلام پیش نہ کریں تو کیا کریں۔ انھوں آر ایس ایس اور درجنوں انتہاپسند تنظیموں کا جس طرح مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ بی جے پی کے کارکن اپنے پاس اور اپنے گھروں میں اسلحہ جمع کر سکتے ہیں۔

پولیس بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی، اکثر مسلمان تھانوں میں رپورٹ درجکرانے جائیں ، تو پولیس انھیں ہی پکڑ لیتی ہے اور پھر ٹارچر کرنے کے بعد آیندہ شکایت نہ کرنے کی بنیاد پر رہائی نصیب ہوتی ہے۔

بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں کے کتنے ہی گھر بلڈوزوروں سے مسمار کر دیے گئے ہیں یہ مسلمانوں کے بی جے پی کے خلاف بولنے کی سزا کے طور پر کیا جاتا ہے اور وہاں کی ضلعی حکومت گھروں کی مسماری کو جائز قرار دے دیتی ہے کہ وہ اس کے مطابق ناجائز زمین پر بنے تھے۔

چند سال قبل دہلی کے نواح میں واقع ایک مسلم بستی پر بلواؤں نے یلغار کردی تھی، کئی افرادکو قتل کردیا گیا اور مکانوں کو آگ لگا دی مگر افسوس کہ کسی پر مقدمہ نہیں چلا البتہ کئی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمے چلائے گئے اور پھر جیل بھیج دیا گیا۔

ستم بالائے ستم تو یہ کہ خود پولیس اہلکار مسلمانوں کے قتل اورگھروں میں آگ لگانے میں شامل تھی، مگر اس کا کچھ بھی نہیں بگڑا۔ ویسے تو بھارت میں مسلمانوں کے خلاف فسادات تقسیم ہند سے پہلے ہی شروع ہوگئے تھے مگر بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان فسادات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

گجرات کے شہر احمد آباد میں 2002 میں ہونے والا مسلمانوں کا قتل عام نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کا مسلمانوں سے نفرت کا یادگار خونی شاہکار تھا۔ اس قتل عام میں جو کئی دن تک جاری رہا تھا، سیکڑوں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا مگر مودی جو اس کا اصل محرک تھا اس کے خلاف ایک ایف آئی آر تک درج نہیں ہو سکی۔

اس وقت بی جے پی حکومت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی وارداتوں میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر مسلمانوں کے پاس اس کا کوئی حل ہی نہیں ہے، اس لیے کہ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور وہ پاکستان کے قیام کے حق میں تھے حالانکہ پاکستان ان کی کوئی خدمت نہیں کر رہا مگر اس کے باوجود وہ پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔

اس کے ثبوت اکثر نظر آتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی بھارت سے کسی کھیل میں جیت کے موقع پر وہاں کے مسلم نوجوان خوشی سے سرشار ہو کر پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کر دیتے ہیں اور یہی چیز ہندو مسلم فساد کی وجہ بن جاتی ہے ۔

ابھی حال ہی میں بریلی کے ایک مسلمان نوجوان تبریز عالم نے سوشل میڈیا میں لکھا ’’آئی لو یو پاکستان‘‘، اس پوسٹ پر آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں حرکت میں آ گئیں اور پولیس کو اس کی اطلاع کی گئی۔ پولیس نے اس پوسٹ کو بھارت کی قومی سلامتی کے خلاف قرار دیا اور بھارتی آئین کی دفعہ 152 کے تحت تبریز کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

اب خبر یہ ہے کہ بریلی پولیس نے تبریز کے خلاف ایک ہندو لڑکی کو زبردستی مسلمان بنانے کا مقدمہ قائم کر دیا ہے۔ اس خبر نے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے ، مسلمانوں پر الٹا لَو جہاد کا الزام لگا کر انھیں مصیبت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ بھارت میں مسلمان انتہائی مشکل زندگی بسر کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود وہ انتہاپسندوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ابھی کسی مسلمان کے ذہن میں پاکستان بنانے کا خیال بھی نہیں آیا تھا کہ بعض صوبوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ وہ غیر ملکی ہیں وہ ہندوستان کو چھوڑ دیں، ورنہ انھیں سوکھی لکڑی کی طرح جلا کر راکھ بنا دیا جائے گا۔

بہار، بنگال اور یوپی کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام اور انھیں شدھی بنانے کا عمل شروع کر دیا گیا تھا۔ حالانکہ اس وقت ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی چنانچہ ہندو اکثریت کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ان ظالمانہ اقدامات نے مسلمانوں کو اپنا علیحدہ وطن بنانے کے لیے مجبورکردیا۔

مسلمانوں نے یہ سوچا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستانی حکومت کی باگ ڈور یقینا ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہوگی کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں چنانچہ مسلمانوں کو ان کا غلام بن کر ہی رہنا ہوگا اور پھر بعد میں وہ اپنا آزاد وطن حاصل نہیں کر سکیں گے، اس کی مثال اب سکھوں اورکشمیریوں کی آزادی کی تحاریک کی پامالی سے دی جا سکتی ہے۔

پاکستان بنانے میں مسلمانوں نے ہندوؤں کی حق تلفی نہیں کی، انھوں نے انھی صوبوں میں پاکستان بنانے کا مطالبہ کیا جہاں ان کی اکثریت تھی۔ یہ فارمولا اگرچہ گاندھی اور نہرو کی سمجھ میں نہیں آیا مگر انگریزوں کی سمجھ میں آ گیا ۔

تو اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا ہندو مسلم کش تنظیمیں مسلمانوں کے قتل عام سے رک جاتیں؟ ہرگز نہیں۔ وہ تو ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود سے ہی نفرت کرتی ہیں اور اس کا مظاہرہ اس وقت بھی ہو رہا ہے، وہی انتہا پسند ہندو تنظیمیں یہ پروپیگنڈا کر رہی ہیں کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں ہندوؤں پر بے انتہا ظلم کیا اور ان کے مندروں کو مسمار کیا، البتہ اپنی مساجد کی تعداد کو بے تحاشا بڑھایا۔

ایک بھارتی مسلمان نے اس کا جواب سوشل میڈیا پر دیا ہے وہ لکھتا ہے ’’ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اگر مسلم بادشاہوں نے ہندوؤں پر بے انتہا ظلم کیا تو وہ 800 سال تک حکومت کیسے کرتے رہے، اگر انھوں نے جبراً مذہب تبدیل کرایا تو بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی میں صرف 25 کروڑ مسلمان کیوں ہیں؟ اگر انھوں نے سارے مندر توڑ دیے تو بھارت میں اتنے پرانے مندر کہاں سے آئے۔ 

جب مغلوں کی حکومت ختم ہوئی تو مندروں کے مقابلے میں صرف 5 فی صد مساجد تھیں، جس طرح مسلمانوں کی تاریخ کو ظلم و ستم سے بھرپور بتایا جاتا ہے تو اس لحاظ سے مساجد کے مقابلے میں مندر ایک فی صد ہونے چاہیے تھے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی بادشاہ یا حکومت نے اپنے ملک کی آبادی پر ظلم کیا تو وہ بادشاہ یا حکومت چند سال سے زیادہ حکومت نہیں کر پائی تو مسلمانوں نے 8 سو سال تک کیسے حکومت کی؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں مسلمانوں کے مسلمانوں کو بنانے کا بی جے پی کے خلاف دیا گیا قتل عام نہیں کر

پڑھیں:

حکومت اگر ویکسین نہ خریدے تو مریض فٹ پاتھوں پر آجائیں گے: مصطفیٰ کمال

وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کہا ہےکہ حکومت اگر ویکسین نہیں خریدے گی تو صورتحال تشویشناک ہوگی اور مریض فٹ پاتھوں پر آجائیں گے۔ کراچی کی نجی یونیورسٹی میں کیمپس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں مصطفیٰ کمال نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ویکسین کی لوکل پروڈکشن نہیں ہو رہی اور ہر سال گزرنے کے ساتھ ساتھ فارن فنڈنگ کم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو ٹیکے لگانے جاتے ہیں تو دماغ میں آتا ہے پتا نہیں یہ انگریزوں کی سازش ہے اور دماغ میں یہ آتاہے کہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں گے وہ نسل نہیں بڑھا سکیں گے۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ ہیلتھ کیئر انسان کو مریض بننے سے بچانے کا نام ہے اور ہیلتھ کیئر کا آغازبچوں کی پیدائش سے ہوتا ہے مگر پاکستان میں تمام بیماریوں کا علاج ہیلتھ کیئر نہیں ہے، پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور 2030 میں ہم انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے، ہم ہر سال نیوزی لینڈ سے بڑی آبادی ملک میں پیدا کر رہے ہیں، دنیا میں ہر سال 62 لاکھ بچے پیدا ہو رہے ہیں، پاکستان میں 10 ہزار کیسز ایسے ہیں جن میں 400 حاملہ خواتین کا انتقال ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ مجھے دن میں اتنے فون آتے ہیں ہمیں فون کر کے پرائیویٹ اسپتال میں بیڈ دلوا دیں، 30 سے 35 مریض دیکھنے والا ایک ڈاکٹر ہمارے ہاں 350 مریض دیکھتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان اور دہشت گردی
  • پاکستان مخالف بھارتی فلم دھرندر کا جواب، سندھ حکومت کا ’میرا لیاری‘ فلم ریلیز کرنے کا اعلان
  • حکومت اگر ویکسین نہ خریدے تو مریض فٹ پاتھوں پر آجائیں گے: مصطفیٰ کمال
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسلی تطہیر میں مصروف ہے، حریت کانفرنس
  • حیدرآباد: ہندو برادری کی جانب سے بھارتی وزیر داخلہ کے بیان کے خلاف احتجاج کیاجارہاہے
  • اب وقف املاک مسلمانوں پرنئی ضرب ہے،محبوبہ مفتی
  • ایس آئی ایف سی مراعات تجویز نہیں کریگی، آئی ایم ایف نے حکومت کو نئے اسپیشل اکنامک زون بنانے سے بھی روک دیا
  • افغان علما اور طالبان حکومت کا بیرون ملک کارروائی کرنے والوں کو سخت پیغام، مضمحل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا
  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • بھارتی گلوکارہ کو نازیبا ڈیپ فیک تصویر کیساتھ بچوں سمیت جان سے مارنے کی دھمکی موصول