Express News:
2025-04-22@01:22:43 GMT

تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا (آخری حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

آپ ﷺ کو حضرت فاطمہؓ سے خصوصی لگاؤ تھا، حضرت فاطمہؓ کو اپنی تمام اولاد سے بڑھ کر چاہتے تھے، حضرت فاطمہؓ کو اپنے جگر کا ٹکڑا کہا اور پھر جب فرض کی ادائیگی اللہ کی رضا اور انتخاب سے قرار پائی تو پھر نہ صرف یہ کہ شہزادی کونین حضرت فاطمہؓ کے نکاح کا فریضہ انجام دیتے ہوئے انبساط و شادمانی کا احساس اپنے عروج پر پہنچنے لگا۔ 

آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ابھی حضرت جبرائیل ؑ میرے پاس آئے اور یہ خبر سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور کے پاس میری بیٹی فاطمہؓ کا نکاح علیؓ سے کر دیا ہے، فرشتوں نے گواہی دی ہے اور مجھے بھی حکم فرمایا ہے کہ میں زمین پر ان کا نکاح کر دوں۔ 

میں تم سب کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت علیؓ سے کر دیا ہے۔ایک ماہ بعد بی بی فاطمہ کی رخصتی حضرت علیؓ کی خواہش پر کی گئی، رخصتی سے قبل آنحضرت ﷺ نے گھر گرہستی کا سامان خریدنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق کو مٹھی بھر درہم دے کر فرمایا کہ فاطمہؓ کے لیے ضرورت کی اشیا خرید لاؤ۔ 

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روئی کا موٹے کپڑے کا بستر، کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا چمڑے کا تکیہ اور چمڑے کا ہی دسترخوان، پانی کے لیے ایک مشکیزہ، مٹی کا آب خورہ اور اون کا ایک پردہ خریدا۔

نبی اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کو کچھ درہم دیے اور فرمایا ان سے کھجوریں، گھی اور پنیر خرید لو، چنانچہ جب یہ تینوں چیزیں آگئیں تب آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے دسترخوان بچھایا اور کھجوروں کو گھی میں مسل کر پنیر میں ملا کر حلوہ تیار کیا اور مسجد نبوی میں تشریف فرما صحابہ کرام کو دعوت دی۔ 

حضرت علیؓ نے فرمایا: یا رسول اللہؐ! مسجد میں لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے، آپؐ نے فرمایا دسترخوان کو رومال سے ڈھانپ دو اور دس دس لوگوں کو داخل کرتے جاؤ، حضرت علیؓ نے حکم کی تعمیل کی، سب نے کھایا، لیکن کھانے میں ذرہ برابر کمی نہ آئی، اس دعوت طعام میں سات سو افراد نے شرکت کی۔ 

رسول پاکؐ کے بہت سے معجزات ہیں جن میں یہ معجزہ آپ ؐ کی بیٹی فاطمہؓ کی رخصتی کے موقع پر رونما ہوا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ بی بی فاطمہؓ اپنی عفت، سخاوت، شرم و حیا، صبر و قناعت کی وجہ سے سب سے اعلیٰ اور افضل ہیں، جن کا نکاح اللہ خود کراتا ہے تو بھلا ان کا مرتبہ کیوں کر نہ ارفع و اعلیٰ ہوگا، وہ جنت میں عورتوں کی سردار اور دنیا میں عفت و عظمت کے درجے پر بلند نظر آتی ہیں۔

رسول اللہؐ کو حضرت فاطمہؓ سے خصوصی لگاؤ تھا، وہ اپنے والد محترم کو دیکھتے ہی احتراماً کھڑی ہو جاتی تھیں، اسی طرح حضرت فاطمہؓ سے ملاقات کے وقت اللہ کے رسول اپنی صاحبزادی کی تعظیم اور محبت میں کھڑے ہو کر اظہار شفقت فرماتے، ان کی پیشانی پر بوسہ ثبت کرتے۔ 

اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، تمام اولادوں میں حضرت فاطمہؓ سے آپؐ کو خصوصی محبت تھی۔ آپؐ نے فرمایا، جس بات سے فاطمہؓ کو اذیت پہنچتی ہے، اسی سے مجھے اذیت ہوتی ہے اور جو بات فاطمہؓ کو پریشان کرے، اس سے مجھے بھی پریشانی ہوتی ہے۔

حضرت جمیع بن عمیرؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس گیا تو ان سے میں نے دریافت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سب سے زیادہ محبت کس سے کرتے تھے؟ آپؓ نے فرمایا کہ فاطمہؓ۔ پھر دوبارہ عرض کی کہ مردوں میں رسول پاکؐ کو زیادہ عزیز کون تھا؟ ارشاد ہوا، ان کے شوہر یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔

سیدہ، طیبہ، طاہرہ، فاطمۃ الزاہرہ بے شمار اوصاف اور فضائل کی حامل تھیں، جنت میں تمام جنتی خواتین عالم کی سردار، آپ اپنی فقر و درویشی، استغنا اور سخاوت میں بے مثال تھیں، آپ رسول اکرمؐ کی صفات حسنہ کا پیکر تھیں، آپؓ کی گفتار و عادات، چلنے کا انداز اور اخلاق رسول اللہؐ سے مشابہ تھیں۔

آپؓ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی تربیت خاص اور رسول پاکؐ کی مکمل توجہ اور محبت کا مرکز تھیں، فاطمۃ الزاہرہ اپنے ابا جان کے کردار کی روشن مثال تھیں۔حضرت فاطمہؓ شہنشاہ دو جہاں کی صاحبزادی ہوتے ہوئے گھر کے سارے کام خود انجام دیتیں، چکی پیستیں، مشکیزے میں پانی لاتیں، تمام کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض سے کبھی غافل نہ ہوئیں۔ 

تین تین دن فاقے میں گزر جاتے مگر کبھی زبان پر حرف شکایت نہیں آیا۔عبادت کا یہ عالم تھا کہ پوری رات عبادت میں گزار دیتیں، صبح کی اذان سنتے ہی اپنے رب سے محو گفتگو ہوتے ہوئے عرض کرتیں ’’خدایا! تیری بندی عبادت کا حق ادا نہ کر پائی، کیونکہ تیری رات ہی مختصر ہے۔‘‘

غزوہ احد کے موقع پر جب نبی پاکؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے اور آپؐ زخمی ہوگئے اور خون بہنے لگا تو حضرت فاطمہؓ بے حد پریشان ہوئیں، روتی جاتیں اور خون صاف کرتی جاتی تھیں، جب خون نہیں رکا تو حضرت فاطمہؓ نے ایک چٹائی کا ٹکڑا جلا کر اس کی راکھ سے زخموں کو بھرا۔ اس عمل سے خون رک گیا۔ 

اسی روز پیارے نبیﷺ کا دندان مبارک شہید ہوا تھا اور آپؐ کا نورانی و تقدس سے دمکتا ہوا چہرہ زخمی ہو گیا تھا۔ حضرت فاطمہؓ کا اخلاق اور سخاوت بے مثال تھی، آپؓ کی خانگی زندگی گھر کے کام اور ذمے داریوں کے بوجھ سے تھکا دینے والی تھی وہ گھر کے سب کام خود انجام دیتیں، پانی کی مشک ڈھوتے ڈھوتے ان کی گردن پر نشان پڑ گئے تھے اور چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں چھالے ابھر آئے تھے۔

آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ غلام آئے تو حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ ’’کیا ہی اچھا ہو، جو تم اپنے بابا سے جا کر ایک خادم کا سوال کرو‘‘ حضرت فاطمہؓ نے اپنے شوہر کے مشورے پر عمل کیا اور دربار رسالت میں پہنچ گئیں۔

وہاں بہت سے لوگ گفتگو کر رہے تھے، لہٰذا دوسرے دن آ کر حضور ﷺ نے پوچھا کہ کیا کام ہے فاطمہ؟ فاطمہؓ نے جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار کر لی تو پھر حضرت علیؓ نے کہا کہ میں نے ہی فاطمہ کو رائے دی کہ وہ ایک خادم کا سوال کریں تاکہ یہ اس مشقت سے بچ جائیں جو انھیں گھر کے کام نمٹاتے ہوئے پیش آتی ہے۔ 

یہ سن کر آقائے جود و سخا محمد ﷺ نے فرمایا فاطمہ! تقویٰ اختیار کرو، اپنے رب کا فرض ادا کرو اور اپنے گھر والوں کے کام انجام دو۔ اور رات سوتے وقت 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمدللہ اور 34 بار تکبیر (اللہ اکبر) پڑھ لیا کرو، یہ ورد تمہارے لیے ایک خادم سے زیادہ بہتر ہوگا۔

حضرت فاطمہؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں۔آنحضرت ﷺ اپنی بیٹی بی بی فاطمہؓ سے بہت محبت کیا کرتے تھے، جب کبھی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے حضرت سیدہ فاطمۃ الزاہرہ کے پاس جاتے اور واپسی میں بھی اپنی نور نظر فاطمہؓ سے ملاقات کرتے۔ 

بعض جگہ پر روایت ملتی ہے کہ آپؐ سفر پر جاتے وقت حضرت فاطمہؓ کے گھر آخر میں تشریف لاتے اور واپسی پر حضرت فاطمۃالزاہرہ سے پہلے ملاقات کرتے بعد میں دوسرے لوگوں سے۔رسول پاکؐ نے اپنی چہیتی بیٹی کو اپنے وصال کی خبر سنائی جسے سن کر آپؓ آبدیدہ ہوگئیں، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد دوسری خبر اپنے بابا سے سننے کو ملی جسے سن کر وہ خوش ہوگئیں۔ 

حضرت عائشہؓ نے معلوم کرنے کی کوشش کی تو حضرت فاطمہؓ نے نفی میں جواب دیا کہ میں اپنے بابا کا راز فاش نہیں کروں گی، لیکن اللہ کے محبوب احمد مجتبیٰ ﷺ جب اس دنیائے فانی سے پردہ کر گئے تب حضرت عائشہؓ کے شوق تجسس نے پوچھنے کی طرف مائل کیا۔ 

حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا کہ جب پہلی بار بابا جان نے یہ بتایا کہ وہ عنقریب مجھ سے بچھڑنے والے ہیں اور میرے ہنسنے اور خوش ہونے کا سبب یہ تھا کہ اہل بیت میں سب سے پہلے میں ان سے ملوں گی۔

رسول پاکؐ کے وصال کے 6 ماہ بعد آپؓ انتقال فرما گئیں۔ حضرت فاطمہؓ کی وفات 3 رمضان 11ھ میں ہوئی، حضرت عباسؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت علیؓ نے اور حضرت عباسؓ نے قبر مبارک میں اتارا۔

حضرت ام سلمہ کہتی ہیں جس وقت حضرت فاطمہؓ کی وفات ہوئی اس وقت حضرت علی شیر خدا گھر میں موجود نہیں تھے، حضرت فاطمہؓ نے مجھے بلایا اور فرمایا پانی کا انتظام کرو، میں غسل کروں گی اور میرے پہننے کے لیے عمدہ کپڑے نکال دو۔ 

غسل کے بعد فرمایا، میرا بستر کردو، میں لیٹوں گی، پھر مجھ سے فرمایا اب مفارقت کا وقت قریب ہے، میں غسل کر چکی ہوں اب دوبارہ غسل کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اب میرا بدن کھولا جائے، اس کے بعد ہی آپؓ اللہ کے حضور پہنچ گئیں، اپنے بابا سے خاتون جنت ملاقات کے لیے رخصت ہوئیں۔

آپؓ نے 28 سال کی عمر پائی، حضرت فاطمہؓ کے تین بیٹے حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت محسنؓ جن کا انتقال بہت جلد ہو گیا اور بیٹیاں حضرت زینبؓ اور حضرت ام کلثومؓ۔ حضرت فاطمہؓ کا رات میں ہی انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق اسی شب ان کی تدفین ہوئی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حضرت فاطمہ نے فرمایا اپنے بابا فرمایا کہ حضرت علی رسول پاک کا نکاح تو حضرت اللہ کے کہ میں کے لیے کے پاس گھر کے

پڑھیں:

باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی

گزشتہ ایک صدی میں انسانیت ایک خاموش تبدیلی سے گزری ہے۔ سچا روحانی علم، جو کبھی اخلاص والے دلوں میں چھپا ہوتا تھا، اب مادی حرص و ہوس کے نیچے دفن ہو گیا ہے۔ دین اور روحانیت کے علمبردار علما، مشائخ اور مبلغین اکثر اس علم کو دولت، شہرت اور اقتدار کے لیے استعمال کرنے لگے۔
تزکیہ نفس، ذکر، اور باطنی سچائی کی دعوت اب سیاسی و مالی مفادات کی نذر ہو چکی ہے۔
حدیث ‘ ’’ایسا وقت آئے گا جب لوگ صرف اپنے پیٹ کی فکر کریں گے، دین ان کے لیے مال کا ذریعہ ہوگا، ان کا قبلہ ان کی خواہشات ہوں گی، اور وہ قرآن پڑھیں گے مگر اس پر عمل نہیں کریں گے۔
جب سچے ذکر اور باطنی بیداری کا چراغ بجھنے لگا، تب آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت (AI) جیسے نئے علوم نے دنیا میں جگہ لی شاید ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے کہ ہم نے کیا کھو دیا، اور دوبارہ نظام، ترتیب، اور ربانی حکمت کی طرف لوٹنے کا وقت ہے۔
روحانی علم کی آلودگی۔ اخلاص، جو کبھی دین و تصوف کی روح تھی، اب لالچ، شہرت اور طاقت کے ہاتھوں ماند پڑ گئی ہے۔ اکثر مبلغین اور اداروں نے دین کو تجارت بنا دیا ہے۔
حقیقی تصوف، جو کبھی صرف اہلِ دل کے سینوں میں چھپا ہوتا تھا، اب رسموں اور نعروں فتوئوں میں بدل گیا ہے۔علم بغیر عمل کے دیوانگی ہے، اور عمل بغیر علم کے بیکار ہے۔
امام غزالی، احیاء العلوم۔ روح کی کھوئی ہوئی حقیقت ‘ لطائف کا علم‘ جو انسان کے اندر موجود روحانی مراکز کی نشاندہی کرتا ہے صدیوں تک خفیہ طور پر استاد سے شاگرد تک منتقل ہوتا رہا۔
ذکر، مجاہدہ، اور سچائی کے ذریعے یہ لطائف بیدار ہوتے ہیں اور اللہ کی قربت کی راہیں کھولتے ہیں۔مگر آج یہ علم یا تو چھپا لیا گیا ہے یا بیچا جا رہا ہے۔
جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔
حدیث ‘اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘ نور پر نور۔ اللہ جسے چاہے اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (سورۃ النور، 24:35)
آئی ٹی اور AI ‘ واپسی کی ایک نشانی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے پیچھے جو نظریہ ہے، وہ مسلمان سائنسدانوں کی تحقیق پر مبنی ہے۔
الگوردم ‘ کا تصور محمد بن موسی الخوارزمی سے آیا، جو ایک مومن مسلمان ریاضی دان تھے۔ہمیں سچائی کو جہاں سے بھی ملے، قبول کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
الکندی‘یاد رکھیں: ٹیکنالوجی بذاتِ خود نہ حرام ہے نہ حلال اصل چیز نیت اور استعمال ہے۔
کچھ علماء AI اور IT کو کفر یا بدعت کہتے ہیں، مگر خود سوشل میڈیا، آئی فون، اور لیپ ٹاپ پر دن رات سرگرم ہوتے ہیں۔یہ ریاکاری ہے، دین نہیں۔
جبکہ سچے طالبانِ حق جدید علم کو اخلاص اور حکمت سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ علم علمِ نافع ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا:علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک۔
حدیث‘ تم میں سے بہترین وہ ہے جو علم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (صحیح بخاری)
اللہ والے مخلصین ایسے لوگ پوری حکمت اور فراست سے لیس ، کمپاس، GPS اور روحانی WiFi رکھتے ہیں جو انہیں رب سے جوڑ دیتا ہے۔
لطائف دل کی روشنی‘ تصوف کے مطابق، انسان کے اندر کئی لطائف ہیں جو روحانی ترقی کی منزلیں طے کرواتے ہیں۔ لطیفہ قلب‘ ذکر کا مقام۔ لطیفہ روح ‘الہام و وحی کا مرکز۔ لطیفہ سر ‘ دل کی گہرائیوں کا راز۔ لطیفہ خفی و اخفی ‘ باطنی اسرار کی انتہا۔
مولانا روم فرماتے ہیں:تم کمرے کمرے پھر رہے ہو اس ہار کو تلاش کرنے کے لیے جو تمہارے گلے میں پہلے ہی ہے۔
تمہارا کام محبت کی تلاش نہیں، بلکہ ان رکاوٹوں کو ختم کرنا ہے جو تم نے اس کے خلاف کھڑی کی ہیں۔
طالبِ حق کے نام پیغام۔ اے سچے طالب!یہ راہ تیرے لیے ہے۔ نہ ان کے لیے جو دنیا چاہتے ہیں، بلکہ ان کے لیے جو قربِ الہی کے خواہاں ہیں۔
دل کی طرف لوٹ،باطن کو بیدار کر،اس نور کو جگا،جو اللہ نے تیرے اندر رکھا ہے۔خبردار! دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔ (سور ۃالرعد، 13:28؟)
آئو، ذکر کو اپنا ساتھی بنائو،لطائف کو روشن کرو،اور رب کی طرف بڑھو۔
اللہ ھو ۔ ھو کا ورد کرو پھر دیکھو دل میں اللہ کی محبت ا نور افضل الذکر لاا لہ ا لا اللہ۔

متعلقہ مضامین

  • آغا راحت نے پورے گلگت بلتستان کے عوام کی ترجمانی کی ہے، عطاء اللہ
  • ویمنز ورلڈ کپ تک رسائی، پاکستان ٹیم کی کپتان فاطمہ ثنا کیلیے بڑا اعزاز
  • حیا
  • کوفہ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف: کامران ٹیسوری کی روضہ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ پر حاضری
  • یہودیوں کا انجام
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • شہید محمد باقر الصدر کی چھیالیسوں برسی کی مناسبت سے سیمینار کا انعقاد
  • عالمی شہرت یافتہ فلسطینی فوٹوجرنلسٹ اسرائیلی حملے خاندان سمیت شہید