ہمارے پاس وفاقی حکومت گرانے کی طاقت ہے، وزیراعلی سندھ کا کینال معاملے پر وفاق کو پیغام
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
ہمارے پاس وفاقی حکومت گرانے کی طاقت ہے، وزیراعلی سندھ کا کینال معاملے پر وفاق کو پیغام WhatsAppFacebookTwitter 0 29 March, 2025 سب نیوز
کراچی (سب نیوز)وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کالاباغ ڈیم کا بھی لوگ کہتے تھے بن رہا ہے، اب یہی صورتحال چولستان کینال پر کی جارہی ہے، ہمارے پاس وفاقی حکومت گرانے کی طاقت ہے۔
کراچی کے سینیر صحافیوں سے ملاقات کے دوران غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں سب سے اہم پانی کا معاملہ ہے، انڈس ریور سسٹم میں پانی کی کمی کا مکمل ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے، نگران حکومت میں واپڈا اسٹڈی کرتی ہے اور وہ عجیب قسم کی اسٹڈی ہے، دیامیر باشا ڈیم بننے کا بعد 6 ملین ایکڑ پانی ملے گا، نگران حکومت نے بھی اس بات پر اعتراض کیا۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ کچھ دن بعد پنجاب حکومت ایک کینال نکالنے کی تجویز دیتی ہے، چناب دریا سے پانی لینگے، چولستان کینال بنانے کا کہا جس پر ہمیں اعتراض ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے مطابق 27 ایم ایف پانی ڈیلٹا میں جارہا ہے تو ہمارا ڈیلٹا سرسبز ہونا چاہئے،ایکنک میں 6کینال کا پروجیکٹ لایا گیا جس میں بھی ہم نے اعتراض کیا، ارسا کے اس منصوبے پر ہم سی سی آئی میں بھی مخالفت کریں گے۔ وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری سے کہا گیا کہ اضافی زمین آباد کرنا چاہتے ہیں اور صدر زرداری نے کہا اگر صوبوں کو اعتراض نہیں تو کریں، اس اجلاس کے منٹس بھی غلط بنائے گئے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک اجلاس کے آپ کینال بنا سکتے ہیں، ارسا نے پانی کا سرٹیفکیٹ ہی غلط دیا ہے، ایک تو پانی دریا میں ہے ہی نہیں، پنجاب حکومت کے مطابق اپنا حصہ کا پانی چولستان کینال میں شامل کیا جائے گا، کیا پنجاب کے ان کسانوں اور چیف انجینئر سے پوچھا گیا ہے۔
مراد شاہ نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کا بھی لوگ کہتے تھے بن رہا ہے، اب یہی صورتحال چولستان کینال پر کی جارہی ہے، گرین پاکستان انیشیٹو کو پنجاب حکومت نے زمین دی، جولائی اگست میں وہاں سولر سسٹم اور ٹیوب ویل کے ذریعے کارپوریٹ فارمنگ کی، میں یہ کہتا ہوں کینال نہیں بن رہے، پنجاب کا ضرور ارادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کی مہم ایک آمر نے شروع کی اور محترمہ بینظیر بھٹو نے اس کے خلاف مہم چلائی، ابھی بھی اس کینالز معاملہ کو سی سی آئی میں آنا ہے، پروپیگنڈہ کے ذریعے لوگون کو بتا گیا کہ سندھ حکومت ملوث ہے۔ وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ ہم نے سندھ اسمبلی سے ان کینالز کے خلاف قرار داد منظور کی، یہ معاملہ ایکنک میں موجود ہے ہم اس کی وہاں بھی سخت مذمت اور مخالفت کریں گے، یہ معاملہ ہمارے کنٹرول میں ہے ہم نہیں بنانے دینگے، ہمارے پاس پاکستان پیپلز پارٹی ایک طاقت ہے اور اہم اس کا استعمال بھی کریں گے، پروپیگنڈہ کے ذریعے لوگون کو بتایا گیا کہ سندھ حکومت ملوث ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سندھ اسمبلی سے ان کینالز کے خلاف قرار داد منظور کی، یہ معاملہ ایکنک میں موجود ہے ہم اس کی وہاں بھی سخت مذمت اور مخالفت کریں گے، یہ معاملہ ہمارے کنٹرول میں ہے ہم نہیں بنانے دینگے، ہمارے پاس پاکستان پیپلز پارٹی ایک طاقت ہے اور اہم اس کا استعمال بھی کریں گے، پاکستان پیپلز پارٹی کے بغیر یہ وفاقی حکومت چل نہیں سکتی۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ہم سندھ کے حق کے لئے بات کرتے رہیں گے بلکہ یہ پاکستان کی بات ہے، وفاقی حکومت کو معلوم نہیں کیا مسئلہ ہے سی سی آئی اجلاس نہیں بھلانے کا، کنال منصوبے ابسٹریم سے شروع ہوتے ہیں، ہم نے فروری میں ٹیم بھیجی تھی وہاں کوئی کام نہیں ہورہاہے، میں نے ٹیم کو کہا کہ آپ انڈین بارڈر کے ساتھ ایک کینال ہے وہاں جائیں، ٹیم وہاں گئی اور کہا کہ وہاں کوئی کام نہیں ہورہا ہے، پھر اچانک ایک دن ہمیں پتہ چلا کہ جی یہ تو کنال بن رہا ہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ کینال پر بہت تیزی سے کام چل رہا ہے، ہم نے دوبارہ ٹیم کو مارچ میں بھیجا تو انھوں نے دیکھا کہ کینال بن رہے ہیں، جو کینال بن رہے ہیں وہ میں نے اسمبلی میں بھی دکھائے ہیں، کام ہوا کیا ہے، اب ادھر ہو کیا رہا ہے، سب کو معلوم ہونا چاہئے، گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت حکومت پنجاب نے نگران حکومت میں 1.
ان کا کہنا تھا کہ گرین پاکستانی انیشیٹو پر سب سوائل واٹر سے سولر ٹیوب ویلز لگاکر کام ہوا، 50 سے اوپر سولر ٹیوب بناکر ادھر کلٹیویشن شروع کی زمین کو لیول کیا، اس کے علاوہ انہوں نے ادھر ایگری مال ایک کانسپٹ بنایا ہے، وہاں فارمرز آئے ہیں انکو فرٹیلائزر بھی ایک جگہ اویلیبل کی گئی ہے، انہوں نے جو بنایا ہے اس سارے پروجیکٹ کی پی سی ون موجود ہے۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ کیلئے یہ زمین دیں گے، مطلب کوئی بڑا انویسٹر ہے وہ ائے وہ پانچ ہزار ایکڑ زمین لے اب کوئی بھی انویسٹر ائے گا پانچ ہزار ایکڑ زمین لے گا وہ ضرور اپنی ڈیو ڈیلنگ کرے گا، جہاں تک میری اطلاح کسی نے کچھ نہیں لیا وہ ضرور ڈیلنگ کرے گا، اس کے لیے انہوں نے کام شروع کیا یہ سارا پتہ ہے بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے جو یہ کنال جہاں کے ختم ہو جہاں ختم ہونا ہے ادھر انہوں نے کوئی چار پانچ سو فٹ کا وہ بھی کمپلیٹڈ نہیں ہے، اپ نے سب نے دیکھا ہے اور یہ کام کب ہوا ہے سارا جولائی اور اگست کے مہینے میں ہوا ہے، آپ جاننا چاہتے ہیں تو سیٹلائٹ امیجری جا کے پرانی امیجز دیکھ لیں، جولائی اگست میں یہ کام اس وقت ہوا تھا۔مراد علی شاہ نے کہا کہ کوئی چار پانچ سو فٹ کا ایک وہ جو دو مشینیں کھڑی ہیں، ایک واٹر کورس نکل رہا ہے جو سب سوائل واٹر سے ٹیوب ویلز کے ذریعے کر رہے ہیں، ہم نے کہا کہ پیسے کہاں سے آئیں گے اس کے، میں یہ پہلے بھی بتا چکا ہوں یہ اس وقت 218 ارب روپے کا پراجیکٹ تھا، انہوں نے اب تو شاید 225 ارب ہوچکے ہیں، جب اس کے اور ڈیٹیل میں دیکھیں گے تو یہ اور زیادہ ہوگا اوریجنل پراجیکٹ کے مطابق تو یہاں چنیوٹ پر ایک ڈیم بنانا تھا۔انہوں نے کہا کہ تقریبا ایک ٹریلین ڈالر کا پراجیکٹ ہے، حکومت پنجاب نے 218 ارب کا جو پی سی ون ہے اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہم پہلے سال میں 45 ارب روپے خرچ کریں گے، گرین پاکستان انیشیٹو کے لئے عمرکوٹ اور دادو میں زمین دی ہے، سندھ حکومت نے 54 ایکڑ اراضی دی ہے۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ عمرکوٹ میں کچھ سرمایہ کاری ہوئی ہے جو وہاں موجود پانی سے کی گئی یے، ہم گرین انیشیٹو کے سندھ کی عوام کے مفاد میں بہت منصوبوں کے حق میں ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ سکھر حیدرآباد مور وے کو مکمل کیا جائے، ہمیں یہ پنجاب میں روڈ بننے پر اعتراض نہیں ہم چاہتے ہیں کہ سندھ میں بھی وفاقی حکومت وہی عوام کی بہتری کے کام کریں، ہماری یہ کوتاہی ہے کہ کینالز معاملہ پر ہم اپنے لوگوں کو اعتماد نہیں دلا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم پی سی ون میں موجود تھا پھر بھی ہم نے بننے نہیں دیا، صدر آصف علی زرداری نے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں واضح طور پر کینالز کی مخالفت کی، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی کہا ہے 4 اپریل کو اس پر واضح موقف پیش کریں گے، یہ ہمارے ڈی این اے میں نہیں کہ ہم سندھ کے خلاف جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کالاباغ ڈیم پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے بھرپور مہم چلائی اور بننے نہیں دیا، وزیر اعلی سندھ کینالز معاملہ صرف سندھ کا معاملہ نہیں یہ صوبوں کی ہم آہنگی کا معاملہ ہے، وزیراعظم پاکستان اس معاملہ کو ختم کرنے کے لئے اعلان کرے کہ وفاق اس منصوبے کی حمایت نہیں کرے گی۔ اگر وزیراعظم اعلان نہیں بھی کرتے تو ہم سندھ کی عوام کے ساتھ ہیں، فیصلہ صدر پاکستان نہیں کر سکتے یہ منٹس میں غلط لکھا گیا ہے۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ گرین پاکستان انیشیٹو کے مثبت کاموں سے اختلاف نہیں، سندھ سمیت پاکستان بھر کے لیے جو بہتر ہو ہم اس کے حق میں ہیں، صدر مملکت نے کینالز بننے کی منظوری نہیں دی وہ دے ہی نہیں سکتے، شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی ان کینالز کے بننے کے خلاف ہیں، دریائے سندھ ہماری زندگی ہے، وفاق کو ہماری بات ماننی پڑے گی، اپوزیشن والے چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت ختم ہو جائے۔ان کا کہنا تھا کہ مگر ہم اپنے انداز میں بات کر رہے ہیں اور ہم کینالز کسی صورت بننے نہیں دینگے، ہمیں اپنے ملک کا بھی سوچنا ہے اور یہ بات واضح ہے ہم کینالز بننے نہیں دینگے، آئین اور قانون کی مدد سے ہم کینالز بننے نہیں دینگے، عوام ہمارے ساتھ ہے اور ہم اپنے لوگوں کے حق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ دریائے سندھ ہمالیہ سے شروع ہوتا ہے، پنجاب نے 1945 کے بعد دریا پر پانی کے منصوبے بنائے انہیں 1992 کے معاہدے میں قانونی بنا دیا، ہم 1992 کے پانی معاہدے کے خلاف ہیں مگر اس کے تحت بھی ہمیں حق نہیں ملتا، میں چاہتا ہوں سی سی آئی اجلاس بھلایا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وفاقی حکومت گھرانے کی طاقت ہے، ہم اپوزیشن کے کہنے پر نہیں کریں گے،سندھ کے لوگ پی ٹی آئی کو کبھی قبول نہیں کرینگے، چولستان کینال کا 35 فیصد کام ہونے کی غلط خبر ہے، ہمیں اس سال تقریبن 55 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے، سندھ کے لوگ پی ٹی آئی کو کبھی قبول نہیں کرینگے۔ان کا کہنا تھا کہ چولستان کینال کا 35 فیصد کام ہونے کی غلط خبر ہے، ہمیں اس سال تقریبن 55 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے، چولستان کینال کی مخالفت کرنے والوں نے تھل کینال کی حمایت کی تھی، ہم تھل کینال کے بھی مختلف ہیں اور چولستان کے بھی مخالفت ہیں، گرین انیشیٹو کے ساتھ سندھ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کام کر رہی ہے، اگر حکومت گرتی ہے تو اس کے بہت سارے سائیڈ افیکتس ہوتے ہیں۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ہر فورم پر کینالز معاملہ پر آواز اٹھائیں گے، سیمینار اور کانفرنسز بھی کروائیں گے، دریائے سندھ پر کینالز بنانے کے معاملہ پر سندھ حکومت اور عوام ایک ساتھ ہے، میں نے کسی جماعت پر الزام نہیں لگایا، کینالز کی مخالفت کرنے والی جماعت کے ہم ساتھ ہیں، میڈیا سے گزارش ہے کہ درست خبریں پہنچائیں تاکہ مثبت ماحول پیدا ہو سکے، اگر مجھ سے کوئی کوتاہی ہو تو مجھے آگاہ کریں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے عظیم رہنما شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ڈکٹیٹر نے قتل کیا، ہم 4 اپریل کو برسوں سے شہید عوام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ہم نے آگے بڑھنا ہے اور کینالز معاملہ پر ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ صدر آصف علی زرداری جانتے ہیں کہ ان کے پاورز کیا ہیں، انہوں نے ملک کے اعلی ادارے میں دریائے سندھ پر کینالز کی تعمیر کی واضح طور پر مخالفت کی، کراچی کے لئے کے فور کا منصوبہ وفاق نے شروع کیا تھا، فنڈنگ 80 ارب روپے کی حاصلات ہم نے ورلڈ بینک کے تعاون سے کر کر ہے ہیں، کراچی کو حب ڈیم کی تعمیر کر رہے ہیں پہلے 60 ایم جی ڈی پانی آتا تھا اب اس میں کافی حد تک اضافہ ہو گا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ہمارے پاس وفاقی حکومت وزیراعلی سندھ کی طاقت ہے
پڑھیں:
بجلی
ہمارے پاس کوئی ایسا قومی رہنما موجود نہیں ہے جو پہلے قوم کو بتا سکتا کہ ہماری اصل بدحالی کتنی گھمبیر ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران‘ اس کا حد درجہ مہنگا علاج اور آئی پی پیز وہ استعارے ہیں جس کی آڑ میںبجلی کا بحران پیدا کیا گیا۔ آج بھی حکومتی پالیسی کی وجہ سے گردشی قرضے ادا کرنا مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔
Ember‘ لندن میں موجود ایک ایسا تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں دنیا کے ہر ملک کی بجلی بنانے کے ذرائع اور حکمت عملی پر غیر متعصب تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ادارہ کی رپورٹ کے مطابق‘ پوری دنیا میں کلین انرجی’’Clean Energy‘‘کا تناسب 41فیصد ہے۔ 2024ء میں سولرانرجی میں 29فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں (Wind energy) تقریباً آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے کم ترین اضافہ‘ کوئلے اور ڈیزل (Fossil) سے حاصل کرنے والی توانائی کے ذرائع میں ہوا ہے۔ جو تقریباً 1.4 فیصد کے قریب ہے۔ یعنی پوری دنیا ‘ فوسل توانائی سے دور بھاگ رہی ہے اور کلین انرجی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
مگر ہمارے ملک کی داستان الگ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نام پر وہ کرپشن ہوئی ہے، جو ایک منفی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ کمال عیاری سے ڈیم بنانے کے کام کی رفتار کو حد درجہ شکستہ کردیا گیا ہے۔ پھر لوڈشیڈنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیاگیا، اس کی آڑمیں نجی بجلی گھر بنانے کے معاہدے شروع ہو گئے۔ جن سے ہمارے ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔
کمال دیکھئے کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی ڈیزل یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے‘ ایسے استعمال شدہ بجلی گھر درآمد کیے گئے جو متعلقہ ممالک میں متروک کیے جارہے تھے۔ یہ ملک سے انتقام لینے کی مونہہ بولتی تصاویر ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ باخبر حلقے حقائق جانتے ہیں ۔ مگر ہمارے نیرو تو دہائیوں سے چین کی بانسری مسلسل بجاتے آرہے ہیں۔
ایک سابقہ بجلی اور پانی کے وزیر ملے، فرمانے لگے کہ جب میں وزیر بنا تو پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اگر نجی شعبے کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کریں تو … وزیر موصوف کاریگر آدمی تھے، ہر چیز کو بھانپ گئے ، پھر سیاست میں آ گئے۔ اور آج بھی خیر سے میڈیا پرمیرٹ اور شفافیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال جانے دیجیے۔
اس طرح کے سرفروش کردار ‘ ہر سیاسی جماعت میں اور ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی بھی بڑے آبی ڈیم کو مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ واپڈا کو تو ویسے ہی کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو چیئرمین بنائے جاتے ہیں اور ان کی ’’کہانیاں‘‘ آپ واپڈا ملازمین سے پوچھ سکتے ہیں۔ شاید انھیں بتا دیاجاتا ہے کہ برخوردار کسی ڈیم کو بروقت مکمل نہیں کرنا ۔ ہاں‘ ان کی طرف‘ ایک مصنوعی توجہ ضرور رکھنی ہے۔
پاکستان کا نجی شعبہ ’’کلین انرجی‘‘ نہیں پیدا کر رہا۔ ہمارے ہاں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری ایک حکومت میں تعینات ہونے والے مشیر نے اچھی خاصی کمائی کی ، ذرا سی بازپرس ہوئی تو بوریا بستر گول کر کے باہر چلے گئے۔ یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے ‘ جو صرف ساڑھے تین سال حکومت کر پائی۔ جناب ‘ ہمارے تمام اکابرین ایک جیسے رویے کے حامل ہیں۔ شفاف حکومت‘ تبدیلی حکومت اور عوامی حکومت کے طرز عمل میں رتی برابر کا کوئی فرق نہیںہے۔
ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ بجلی کی چار گنا اور انواسنگ بھی ہوتی ہے۔ اور ہمارے سرکاری بابوؤں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔کسی سرکاری بابو نے یہ معائنہ نہیں کیا‘ کہ اصل پیداواری صلاحیت کتنی ہے۔ آپ خود مجھے سمجھائیے کہ کیا ہماری معیشت کو ہندوستان نے تباہ کیا ہے؟ نہیں جناب! یہ کام ہم نے خود کیا ہے۔ اقتدار بھی اشرافیہ کا‘ میڈیا بھی ان کا‘ ریاستی ادارے بھی ان کے ۔Amber کی رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں سولر انرجی کو لوگوں نے مجبوراً استعما ل کرنا شروع کیا ہے کیونکہ سرکاری بجلی ناقابل برداشت حد تک مہنگی کردی گئی ۔
لوگوں نے پیٹ کاٹ کر سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ پر توجہ دی ہے۔ 2024 میں ہمارے ملک میں سترہ گیگا واٹ کے پینل امپورٹ کیے گئے ہیں۔ World Economic Forumنے بتایا ہے کہ چین نے سولر پینلزکی پیداوار حد سے زیادہ کر دی ہے۔ اور انھوں نے پاکستان کے عوام کی نفسیات سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چین نے ڈبل منافع کمایا۔ ایک طرف تو چین نے بجلی گھر فراہم کیے ‘ دوسری طرف‘ ہمیں سولر پینل مہیا کرنے شروع کر د یئے۔
بہرحال لوگوں میں سولر پینل کے بڑھتے ہوئے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری بجلی کا استعمال کم ہونا شروع ہوا ، سرکاری بجلی کی فروخت میں کمی آنی شروع ہو گئی۔ اس پر حکومت نے وہ بجلی جو لوگ سولر پینل سے اپنے گھروں میں پیدا کر رہے تھے، اس کی قیمت خرید مبینہ طور پر صرف دس روپے کر دی۔ عوامی رد عمل کا خوف محسوس ہوا تو بجلی کی قیمت میں سات روپے کی کمی فرما دی۔ اس کی تشہیر ایسے کی گئی جیسے کہ ملک پر ایک ایسا احسان فرما دیا گیا ہے یا عوام کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھوں۔ بلکہ کیوں لکھوں۔ہر ایک کو بجلی کے معاملات کی اصلیت معلوم ہے۔ لوگوں میں شعور کی سطح حد درجہ بلند ہے۔ وہ اپنے غم خواروں اوررقیبوں کو خوب پہچانتے ہیں۔