امریکی جج نے وائس آف امریکا کی بندش اور عملے کی برطرفی روک دی
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
امریکی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کی کوششوں کو روک دیا، جو امریکی مالی امداد سے چلنے والی بین الاقوامی نیوز سروس ہے۔ عدالت نے اس اقدام کو من مانے اور بے بنیاد فیصلوں کی کلاسک مثال قرار دیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق اپنے حکم میں جج جیمز پال اوٹکن نے براڈکاسٹس کی بحالی کا حکم نہیں دیا۔ تاہم، اس نے واضح طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو 1,200 سے زیادہ صحافیوں، انجینئرز اور دیگر عملے کو برطرف کرنے سے روک دیا جنہیں اس مہینے کے شروع میں اچانک چھٹیوں پر بھیج دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
اوٹکن کے حکم میں امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا جو VOAریڈیو فری یورپ اور دیگر حکومت کی مالی امداد سے چلنے والے میڈیا کی نگرانی کرتی ہے کو کسی بھی ایسی کوشش کرنے سے روک دیا ہے کہ وہ ملازمین یا کنٹریکٹرز کو برطرف کرے، کم کرے، چھٹیوں پر بھیجے یا معطل کرے۔
ایجنسی کو کسی بھی دفتر کو بند کرنے یا غیر ملکی ملازمین کو امریکا واپس بھیجنے کا حکم دینے سے بھی روکا گیا ہے۔ یہ کیس VOA کے ملازمین، ان کے یونینز اور رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (RSF) نے دائر کیا تھا، جنہوں نے الزام لگایا کہ بندش عملے کے آئینی پہلے ترمیم کے حقوق کی خلاف ورزی ہے جو آزادی اظہار پر زور دیتا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
مدعی وکیل اینڈریو جی سیلی جونیئر نے کہا کہ یہ صحافت کی آزادی اور پہلی ترمیم کے لیے ایک فیصلہ کن فتح ہے بلکہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ہمارے جمہوریت کو تشکیل دینے والے اصولوں کی مکمل بے حرمتی کا ایک شدید ردعمل ہے۔ ہم بہت خوش ہیں کہ جج نے حکومت کے کسی بھی مزید اقدام کو روکنے سے اتفاق کیا تاکہ وائس آف امریکا کو تحلیل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ٹرمپ انتظامیہ سے فوری طور پر VOA کے لیے فنڈنگ بحال کرنے اور اس کے ملازمین کو بغیر کسی تاخیر کے دوبارہ بحال کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA ڈونلڈ ٹرمپ وائس آف امریکا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ وائس آف امریکا وائس آف امریکا
پڑھیں:
ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے فنڈز روکنے کے اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا
امریکہ کی سب سے باوقار اور ممتاز سمجھی جانے والی ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کو باضابطہ طور پر عدالت میں چیلنج کیا ہے جس کے تحت پچھلے دنوں ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے 2.2 ارب ڈالر کی گرانٹ روکنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ ہارورڈ یونیورسٹی میں غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آوازں پر سخت ناراض ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس سلسلسے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے گرانٹس کو روکنے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے ساتھ کیے گئے فیڈرل گورنمنٹ کے کیے گئے معاہدے ختم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے اور ہارورڈ یونیورسٹی کی غیر ملکی طلبہ کو داخلے دینے کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کو غیر ملکیوں کو داخلے دینے سے روک سکتی ہے۔
تاہم ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر الان گاربر نے کہا ہے کہ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے ان مطالبات کے سامنے نہیں جھکے گی۔
یونیورسٹی صدر کے اس اعلان کے سامنے آنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی کے لیے اربوں ڈالرز کے فنڈز منجمد کر دیے۔
امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکیوں کی زندگیاں بچانے اور امریکی سلامتی کے لیے کیا گیا ہے۔ مگر ہارورڈ یونیورسٹی اس امریکی دعوے کو مسترد کرتی ہے۔
صدر جامعہ نے عدالت کے سامنے پیش کردہ اپنی درخواست میں لکھا ہے ‘ حکومت نے ایسا کیا ہے نہ ایسا کر سکتی ہے کہ وہ ان الزامات کے حق میں کوئی منطقی تعلق پیدا کر کے ظاہر کر سکے۔ جو یونیورسٹی پر عائد کیے گئے ہوں کہ یونیورسٹی میں یہود مخالف سرگرمیاں جاری ہیں۔ حکومتی لازما بےبنیاد ہے۔ جبکہ حکومت نے یونیورسٹی میں ہونے والی میڈیکل سے متعلق تحقیقات کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں کی جانے والی تحقیقات کو فنڈز معطل کر کے روکنے کی کوشش کی ہے۔’
‘حتیٰ کہ حکومت اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ اربوں ڈالر کی روکی گئی اس رقم سے یونیورسٹی کے تحقیقی پروگراموں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور جن لوگوں کو یونیورسٹی کے ان تحقیقی منصوبوں سے فائدہ ہوتا ہے ان پر کیا اثرات آئیں گے۔ قومی مفادات کس طرح نقصان میں جائیں گے اور امریکہ میں ایجادات کی ترقی کا سفر کس قدر متاثر ہوگا۔ ‘
امریکی ٹرمپ انتظامیہ نے 11 اپریل کو لکھے گئے خط میں کہا تھا ‘ہارورڈ یونیورسٹی کو اپنے ہاں شدت پسندانہ نظم و ضبط نافذ کرنا چاہیے۔ تاکہ ان احتجاجی طلبہ کو نکال باہر کیا جائے جو باہر کے ملکوں سے آئے ہیں اور امریکی اقدار کے دشمن ہیں۔ ‘
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ یونیورسٹی میں اس ماحول کو تبدیل کرنے کے لیے قیادت کی سطح پر زیادہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ داخلہ پالیسی کو بدلنے کی ضرورت ہے اور مختلف فیکیلٹیز میں آڈٹ کے ساتھ ساتھ سٹوڈنٹس کی باڈیز کو کھنگالنے کی ضرورت ہے۔ نیز یونیورسٹی کو چاہیے کہ وہ کئی متوقع اقدامات کرے۔
تاہم پیر کے روز یونیورسٹی انتظامیہ نے کھلے لفظوں میں انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ حکومت کے اس حکم کی بجا آوری نہیں کریں گے۔ کیونکہ آئین کی پہلی ترمیم ان کی سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اسی کے تحت یونیورسٹی کو ٹیکسوں سے استثناء بھی حاصل ہے۔
یاد رہے ٹرمپ انتظامیہ کے اہم ذمہ داروں کے علاوہ خود صدر ٹرمپ بھی ہارورڈ یونیورسٹی کے بارے میں سخت تبصرے کرتے ہوئے انتباہ کا انداز اختیار کر چکے ہیں۔ جبکہ ہارورڈ کے ساتھ ساتھ باقی امریکی یونیورسٹیوں کے بارے میں بھی ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ مخاصمانہ سمجھا جا رہا ہے۔ جس سے یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔
ہارورڈ کے صدر گاربر نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں لکھا ‘ہم ان اقدار کے ساتھ کھڑے ہیں جو امریکہ کو اعلیٰ تعلیم کی طرف لے کر جانے والی ہیں اور دنیا کے لیے ایک مشعل کا کام کرتی ہیں۔ ہم اس سچائی کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ملک کے کالج اور یونیورسٹیاں معاشرے کے لیے اپنا ضروری کردار ادا کریں ۔ جبکہ حکومت ان میں مداخلت کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں اعلیٰ تعلیمی معیار اور ‘ایکسیلنس’ کیونکر حاصل کی جا سکتی ہے۔ ‘
Post Views: 1