پرائیویٹ اسکولوں کی امتحانی ہال سرکاری اسکولوں میں منتقلی روکنے کی استدعا مسترد
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
پشاور:
پرائیویٹ اسکولوں کی امتحانی ہال سرکاری اسکولوں میں منتقلی روکنے کی استدعا عدالت نے مسترد کردی۔
ہائی کورٹ نے گزشتہ سماعت کا 2 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا، جس میں عدالت نے پرائیویٹ اسکولوں کی امتحانی ہال سرکاری اسکولوں میں منتقلی روکنے کی استدعا مسترد کردی۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ چیئرمین کوہاٹ بورڈ نے بتایا کہ میٹرک امتحان کے لیے تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ میٹرک امتحان کے لیے ہال نوٹیفائی کردیے گئے ہیں۔ امتحانی ہال میں فرائض انجام دینے والے اساتذہ کی ڈیوٹیاں بھی لگائی گئی ہیں۔
حکم نامے کے مطابق ڈائریکٹر ایجوکیشن نے اسکولوں کے پرنسپلز اور ہیڈماسٹرز کو سکیورٹی ایڈوائزری بھی جاری کی ہے۔ میٹرک کے امتحانات 7 مئی سے شروع ہوں گے۔ امتحانی ہال منتقلی سے درخواست گزار کو کوئی ناقابل تلافی نقصان بھی نہیں ہے۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ درخواست گزار کی جانب سے امتحانی ہال منتقلی روکنے کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اور کوہاٹ بورڈ آئندہ سماعت پر جواب جمع کریں۔ فریقین 14 دن کے اندر اپنا جواب جمع کرائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: منتقلی روکنے کی استدعا امتحانی ہال عدالت نے
پڑھیں:
اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
ایک اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اتوار کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے چار ناقابل قبول اسرائیلی شرائط کا انکشاف کیا۔ اسلام ٹائمز۔ آج بروز اتوار، ایک اسرائیلی میڈیا چینل نے غزہ میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی چار ناقابلِ قبول شرائط کو بے نقاب کیا۔ فارس نیوز مطابق، اسرائیلی چینل i24NEWS نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کا خاتمہ اسرائیل کی درج ذیل چار شرائط کی تکمیل پر منحصر ہے، تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حماس کا مکمل طور پر اقتدار سے دستبردار ہونا، غزہ پٹی کا مکمل غیر مسلح ہونا اور حماس کے درجنوں رہنماؤں کو ملک بدر کرنا۔ یہ شرائط ایسے وقت میں پیش کی جا رہی ہیں جب حماس کئی بار واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی جنگ کے خاتمے سے مشروط ہے، اور وہ مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے یا اپنے رہنماؤں کو وطن سے نکالنے کی شرائط کو قبول نہیں کرے گی۔
اس سے قبل، حماس کے ایک رہنما نے المیادین ٹی وی کو بتایا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور اس کی غزہ میں واپسی کو روکنا اسرائیل کے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے کا مرکزی نکتہ ہے، جبکہ اس میں مستقل جنگ بندی یا اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی جیسے بنیادی مطالبات شامل نہیں ہیں۔ اسرائیل صرف حماس سے قیدیوں کا کارڈ چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ ایک جامع قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ جنگ مکمل طور پر بند کی جائے، اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے، باریکے کی تعمیر نو کا آغاز ہو، اور محاصرہ ختم کیا جائے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم نے گزشتہ شب مظاہروں اور طوماروں کے باوجود جن پر عام شہریوں، ریزرو فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں نے دستخط کیے تھے تاکہ قیدیوں کی واپسی کے لیے جنگ بندی کی جائے کہا کہ ہمارے پاس فتح تک جنگ جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ایک نازک مرحلے میں ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حماس نے زندہ قیدیوں میں سے نصف اور کئی ہلاک شدگان کی لاشوں کی رہائی کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہ دعویٰ ایسی حالت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے جمعرات کی شب اعلان کیا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ فوری طور پر ایک جامع پیکیج مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
اس پیکیج میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، متفقہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مکمل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی انخلاء، تعمیر نو کی بحالی اور محاصرہ ختم کرنا شامل ہیں۔ خلیل الحیہ، جو مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ غزہ سے متعلق جزوی معاہدے دراصل نیتن یاہو کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں، جو جنگ، نسل کشی اور بھوک کے تسلسل پر مبنی ہے۔