سی ڈی ایس تھنک ٹینک کے پیٹرن اِن چیف اور پاکستان تھنکرز فورم بورڈ آف گورنرز کے رُکن برگیڈئیر آصف ہارون نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اِس ملک کو ایک ساتھ اتنے سارے چیلنجز درپیش ہوئے ہوں۔ اِس وقت سیاسی استحکام، معاشی استحکام، عدالتی استحکام کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا بہت بڑا چیلنج بھی اِس ملک کو درپیش ہے۔ اور یہ چیلنج اِس ملک کے سالمیت کے درپے ہے، لیکن موجودہ حکومت کے بارے میں کوئی جو مرضی کہے، اِس حکومت نے دہشتگردی کی کمر توڑنے کا عزم کر لیا ہے جس میں اِس کو سب سے زیادہ معاونت فوج کی جانب سے مِل رہی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کا وقت ہے اور اگر پاکستان کے بحران میں ایک سیاسی جماعت ملوث ہے تو اُسے بھی احتساب کے کٹہرے میں لانا پڑے گا۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان، تیسری دنیا کا ایک ترقی پذیر ملک ہے جبکہ افغانستان ہم سے زیادہ پسماندہ ہے۔ لیکن دہشتگردی کے اسباب بیرونی ہیں۔ یہ بیرونی قوتیں ہیں جو یہاں کے حالات کا فائدہ اُٹھا کر اپنے اہداف مقرر کرتی ہیں، اپنے بیانیئے اور اپنے مقاصد بناتی ہیں۔

طالبان حکومت کے قیام کے بعد دہشتگردی کیوں بڑھی؟

گزشتہ 2 برس میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے برگیڈئیر آصف ہارون نے کہا کہ نوّے کی دہائی میں گزشتہ طالبان حکومت کے پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ ابھی 2021 میں امریکہ کے انخلا کے بعد ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ اب یہاں سے مقبوضہ قوتیں چلی گئی ہیں، بھارتی خفیہ ایجنسی را کا کردار ختم ہو گیا ہے لیکن اس سب کے مستزاد ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں، بھارتی فوج، افغان فوج کی تربیت کر رہی ہے، اس کے علاوہ امریکا نے جو 7 ارب ڈالر کا اسلحہ افغانستان میں چھوڑا وہ بھی یہاں پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ ہے کیونکہ وہ اسلحہ نہ صرف طالبان بلکہ دیگر دہشتگرد تنظیمیں بھی استعمال کر رہی ہیں اور وہ مارکیٹ میں بھی بِک رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان سے امریکی کردار مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ امریکا افغان طالبان کو اب بھی امداد دے رہا ہے۔

بیرونی قوتوں کے پاکستان کے خلاف اہداف

برگیڈئیر آصف ہارون نے کہا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کے خلاف چار اہداف طے کیے گئے تھے جن میں پہلا یہ کہ پہلے ہم نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے، اِس کے بعد اس ملک کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا ہے، اُس کے بعد اِس کے جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ اور پھر اِس مُلک کی تقسیم۔ ان مقاصد کے تحت یہ 20 سال کی لمبی جنگ لڑی گئی لیکن اُنہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ اِس جنگ میں ہمارے اداروں کو نقصان پہنچا، ہماری اقدار، ہماری معیشت، ہمارے سماج کو نقصان پہنچا لیکن ہمارے تزویراتی اثاثے قائم رہے اور پاکستان بھی قائم رہا۔

سی پیک پاکستان سے دشمنی کی بڑی وجہ

برگیڈئیر آصف ہارون نے کہا کہ ہماری دشمن قوتوں کو پہلے ہمارا جوہری اور میزائل پروگرام کھٹکتا تھا اور اُس کے بعد سی پیک آ گیا، سی پیک جو چین کا منصوبہ ہے لیکن یہ امریکا اسرائیل اور بھارت جیسی سامراجی قوتوں کے خلاف ہے اور نیوکلیئر پاکستان بھی اُن کے خلاف خطرے کی علامت ہے اس لیے اب وہ ڈائریکٹ کے بجائے ان ڈائریکٹ حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔

چین کی وجہ سے امریکا اِس خطے کو نہیں چھوڑ سکتا

افغانستان میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے دورۂ افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے برگیڈئیر آصف ہارون کا کہنا تھا کہ امریکی اِس خطے کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا۔ یہاں اُس کے 2 حریف چین اور روس ہیں اِس لیے امریکا، افغانستان کو نہیں چھوڑ سکتا۔ زلمے خلیل زاد کی واپسی ایک نیا گیم پلان ہے جس کا نشانہ پاکستان ہے اور بیس ایک بار پھر پاکستان ہے۔

امریکا کے بعد چین عالمی قوت بن سکتا ہے؟

چین نے اپنے پُرامن اور مفادات میں شراکت کے ذریعے دنیا کے کم از کم 3 ارب لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے، چین نے تمام اِسلامی دنیا، تمام افریقی ممالک کو جیت لیا ہوا ہے، اور اُس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے ساتھ اُس کی تجارت بھی بڑھ رہی ہے۔

یہ بیانئے، پراکسی اور ہائبرڈ وارفیئر کی جنگ ہے

برگیڈئیر آصف ہارون نے کہا کہ یہ بیانئے، پراکسی اور ہائبرڈ وارفیئر کی جنگ ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں ہو رہی جنگ کے حوالے سے، سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اُٹھایا۔ بھارت نے تو کوئی نقصان نہیں اُٹھایا بلکہ وہ تو دہشتگردی کے خلاف اِس جنگ میں حصے دار ہی نہیں تھا۔ لیکن اُس نے بیانئے کی جنگ کے ذریعے اپنے آپ کو دہشتگردی کا شکار مُلک کے طور پر پیش کیا اور پاکستان کو دہشتگردی کا منبع اور معاون بنا کر پیش کیا جس کے حوالے سے بھارتی خفیہ دستاویزات 2021 میں سامنے بھی آئیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان میں پاکستان کے کے خلاف کے ساتھ ہے اور کے بعد

پڑھیں:

وفاق کا افغانستان کے ساتھ بات چیت کے عمل کا آغاز خوش آئند ہے. بیرسٹر سیف

پشاور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 اپریل ۔2025 )مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے وفاقی حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ بات چیت کے عمل کے آغاز کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ یہ فیصلہ دیر سے کیا گیا لیکن دیر آئے درست آئے کے مصداق یہ اقدام خوش آئند ہے،کے پی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو بات چیت میں شامل کیا جائے، صوبائی حکومت کو نظر انداز کرنا غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہے.

ایک بیان میں بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کئی بار وفاق سے مطالبہ کر چکی تھی کہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ دہشت گردی کے خاتمے اور خطے میں امن کے لیے موثر اقدامات کیے جا سکیں.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا اس وقت دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر ہے اور سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے، اس لیے اس حساس عمل میں صوبے کو نظر انداز کرنا غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہے بیرسٹر سیف نے مطالبہ کیا کہ کے پی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو بات چیت میں شامل کیا جائے، صوبائی حکومت کو نظر انداز کرنا غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہے .

انہوں نے کہاکہ اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر بات چیت سود مند ثابت نہیں ہو سکتی ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے تین ماہ قبل افغانستان سے بات چیت کے لیے ٹرمز آف ریفرنس(ٹی او آرز) وفاقی حکومت کو ارسال کیے تھے جن میں قبائلی عمائدین سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے پر زور دیا گیا تھا، یہ ٹی او آرز مذاکراتی عمل کو بامعنی اور کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں.

انہوں نے واضح کیا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر بات چیت کا عمل سودمند ثابت نہیں ہو سکتا، اگر حکومت واقعی خطے میں پائیدار امن چاہتی ہے تو اسے سنجیدگی کے ساتھ خیبر پختونخوا حکومت اور دیگر متاثرہ فریقین کو مشاورت میں شامل کرنا ہوگا . بیرسٹر سیف نے اس امید کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت اب سنجیدہ رویہ اپناتے ہوئے تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ مل کر جامع حکمت عملی اختیار کرے گی تاکہ افغانستان سے مذاکرات کے ذریعے پائیدار اور دیرپا امن ممکن بنایا جا سکے.

متعلقہ مضامین

  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • علی امین گنڈاپور نے اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان پر ردعمل دے دیا
  • افغان شہریوں کی واپسی، شکایات کے ازالے کیلئے کنٹرول روم قائم
  • افغانستان پولیو ختم کرنے کیلئے پاکستان سے بہتر کوششیں کر رہا ہے، مصطفی کمال  
  • خلیل الرحمٰن قمر کی پاکستان سے مایوسی، بھارت کیلیے کام کرنےکو تیار
  • صنعتی شعبے کی بحالی کیلئے بڑا ریلیف پیکیج لانے کا اعلان
  • خلیل الرحمٰن پاکستان سے مایوس، بھارت کیلئے کام کریں گے؟
  • افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق
  • وفاق کا افغانستان کے ساتھ بات چیت کے عمل کا آغاز خوش آئند ہے. بیرسٹر سیف