WE News:
2025-04-22@01:26:17 GMT

ٹیلی سے موبائل فون تک

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

ٹیلی سے موبائل فون تک

میرے پیا، او میرے پیا گئے رنگون

کیا ہے وہاں سے ٹیلی فون

تمہاری یاد ستاتی ہے، تمہاری یاد ستاتی ہے

1949 کی فلم ’پتنگا‘ کے اس گیت کا سہرا یقیناً شاعر، موسیقار اور گلوکاروں کو جاتا ہے، مگر گراہم بیل کو بھی اگر آپ کریڈٹ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، اگر وہ فون نہ ایجاد کرتے تو شاید یہ گیت نہ بنتا

یوں تو ٹیلی فون کی ایجاد کے حوالے سے مختلف افراد کا دعویٰ موجود ہے۔

تاہم فون کا موجد اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے گراہم بیل کو ہی مانا جاتا ہے۔ 10 مارچ 1876 وہ تاریخ ساز دن جب پہلی ٹیلی فون کال کی گئی۔

اس ایجاد نے آنے والے وقتوں میں مواصلات کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ اس کے بعد کبھی آہستہ تو کبھی تیزی کے ساتھ فون ترقی کی منازل طے کرتا گیا، 1878 میں امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے شہر نیو  ہیون میں پہلا ٹیلی فون ایکسچینج قائم کیا گیا۔

اس کی مدد سے لوگوں کے لیے ایک دوسرے کو فون کرنا ممکن ہوا تو اس سسٹم سے ٹیلی گراف وائرز کی ضرورت بھی ختم ہوئی۔

1891 کا سال بھی ٹیلی فون کی تاریخ کا یادگار سال ہے، اس برس پہلا ڈائل ٹیلی فون وجود میں آیا۔ اس کی مدد سے آپریٹر پر انحصار ختم ہوا اور کالر کو خود فون نمبر ڈائل کرنے کی سہولت ملی۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون سسٹم کی کارکردگی میں بھی بہتری آئی۔

1927 میں مواصلات کی دنیا میں ایک اور اہم کامیابی ملی، ٹیلی فون کے ذریعے طویل فاصلے تک گفتگو کی گئی، دنیا کی پہلی ٹرانس ایٹلانٹک کال نیویارک اور لندن کے درمیان کی گئی۔

اس مقصد کے لیے سمندر کے نیچے خصوصی کیبلز بچھائی گئی تھیں، یہ اس وقت ایک بہت بڑی تکنیکی کامیابی سمجھی گئی، اس سے پہلے فون کالز صرف قریبی علاقوں تک ہی ممکن تھیں اور طویل فاصلے کے لیے خط یا ٹیلی گراف کے ذریعے بات کرنی پڑتی تھی، ٹرانس اٹلانٹک فون کال کی بدولت دنیا بھر میں رابطہ کرنا بہت آسان ہو گیا اور مواصلات کا نظام تیز اور مؤثر ہو گیا۔

1947 میں امریکی کمپنی بیل لیبز نے موبائل فون کا ایک ابتدائی تصور پیش کیا، اسے موبائل فون کی ابتدا بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس تصور کو حقیقت بننے میں 26 برس لگے۔

موٹورولا کمپنی نے 1973 میں پہلا پورٹ ایبل سیل فون ایجاد کیا۔ اس ایجاد نے فون کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا۔ تاہم، عام لوگوں تک اس فون کی رسائی نہیں تھی۔ اس کا وزن تقریباً ڈھائی کلوگرام  اور اس کی بیٹری کا دورانیہ بھی بہت کم تھا، یہ فون صرف 20 منٹ تک چلتا تھا اور اسے تقریباً 10 گھنٹے چارج کرنا پڑتا تھا، اس فون کی قیمت تقریباً 3,500 امریکی ڈالر تھی، جو آج کے حساب سے تقریباً 10 ہزار امریکی ڈالر یا 28 لاکھ پاکستانی روپے بنتی ہے۔

موبائل فون تک عام لوگوں کی رسائی 1990 کی دہائی کے آخر اور 2000 کی دہائی کے شروع میں ہوئی۔ اس سے پہلے موبائل فونز بہت مہنگے تھے اور صرف امیر لوگوں تک  ہی محدود تھے۔

90 کی دہائی کے وسط میں موبائل فونز کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوئیں، نیٹ ورک کی رسائی بڑھی اور یہ فون عام افراد تک پہنچنے لگے۔

1990 کے دہائی کے آخر میں نوکیا، سونی ایرکسن، اور موٹورولا جیسے برانڈز نے سادہ اور نسبتاً سستے موبائل فونز مارکیٹ میں متعارف کرائے، ان فون کے ذریعے کالنگ اور میسجنگ کے علاوہ بھی کچھ اور فیچرز بھی ہوتے تھے۔

2000 کی دہائی کے آغاز تک موبائل فونز کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا اور یہ دنیا کے بیشتر حصوں میں تقریباً ہر فرد کی پہنچ میں آ گئے۔ اس کے بعد موبائل فونز نے چیتے کی سی رفتار سے ترقی کی اسپیڈ پکڑی۔

کیمرہ موبائل کا لازمی حصہ بنا، پھر اسمارٹ فون نے تو ایک ایسی نئی دنیا کی بنیاد رکھی، جس میں ہر روز ہی نئے شہر بستے ہیں۔

1991 میں 2G  نیٹ ورک شروع ہوا، آواز، ٹیکسٹ اور ملٹی میڈیا پیغامات کا سلسلہ شروع ہوا، 2001 میں 3G  نیٹ ورک نے اینٹری دی، ویڈیو اسٹریمنگ اور ویب سرفنگ کا آغاز ہوا۔ 2009 میں 4G  نیٹ ورک وجود میں آیا، 10 برس بعد موبائل صارفین کو 5G  نیٹ ورک کا ساتھ ملا۔

ابتدا میں ’کی پیڈ‘ والے موبائل فون استعمال ہوتے تھے، وقت بدلا تو ان کی جگہ ٹچ اسکرین موبائل نے لے لیے، موجودہ دور میں ہر کسی کے ہاتھ میں ایسے ہی فون ہوتے ہیں، آج کل آپ کے ہاتھ میں فون نہیں، ایک پوری دنیا ہوتی ہے۔

نئے اور جدید موبائل فونز نے صارفین کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں پیدا کر دیں۔ کوئی معلومات چاہیے،  گوگل ہے نا ۔۔۔ کوئی کتاب پڑھنی ہو، لائبریری جانے کی ضرورت نہیں، آرام سے گھر بیٹھے سب کچھ صرف ایک کلک کی دوری پر۔

بجلی  یا گیس کے بل جمع کرانا ہوں تو نہ بینک جانے کی ضرورت نہ لمبی لائن میں کھڑا ہونے کا جھنجھٹ، سب کچھ موبائل کے ذریعے ممکن ہے۔

کسی چیز کی انسٹالمینٹ یا پھر انشورنس جمع کروانی ہو، کوئی مسئلہ نہیں۔ اب تو گھر بیٹھے آن لائن چیزیں منگوانا بھی بہت آسان ہو گیا ہے۔ انتہائی کم قمیت پر گاڑی، بائیک یا لوڈنگ گاڑی کی سہولت بھی آپ کے ہاتھ میں موجود ہے ۔

موبائل اور انٹرنیٹ نے کئی اشیا کو ماضی کا حصہ بھی بنایا ہے۔ گھروں میں لینڈ لائن فون تقریباً ختم ہو چکے ہیں، اس جادوئی چیز نے عید کارڈز کو بھی تقریباً ماضی کا حصہ بنا دیا ہے۔

واٹس ایپ نے بھی انقلاب برپا کر دیا۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کال کرنی ہو، وہ بھی آڈیو یا ویڈیو، مرضی آپ کی، کال نہ ہو رہی تو پیغام بھیجیے، انٹرنیٹ سے سب کچھ ممکن ہے۔

اس جادوئی دنیا نے خطوط اور ڈاکیا کو آج کے دور کے بچوں کے لیے اجنبی بنا دیا ہے۔ لیٹر باکس بھی کسی تنہا مسافر کی طرح اپنے مہمان کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔

خط کا انتظار اور اس کے ملنے کی خوشی آج کے بچے بھلا کیا جانیں۔  عید کارڈز بھیجنے کی روایت بھی اب نہ رہی۔ نقشے بھی ماضی کا حصہ بن گئے، اب کہیں بھی جانا ہو، منزل کا نہیں پتہ، کوئی مسئلہ نہیں، گوگل میپ آپ کو آپ کی منزل تک پہنچائے گا۔

ڈائری میں فون نمبرز محفوظ کرنے کی جھنجھٹ کا بھی خاتمہ ہوا۔ CLI  کس چڑیا کا نام ہے، نئے دور کے بچے شاید ہی اس سے واقف ہوں۔

موبائل نے الارم گھڑیوں کا بھی خاتمہ کر دیا ہے، کلائی پر بھی اب گھڑیاں کم کم ہی سجتی ہیں۔ کلینڈرز اور ٹارچ بھی اب ہماری زندگی کا حصہ کم ہی ہیں۔ انٹرنیٹ تک رسائی آسان ہوئی تو  انٹرنیٹ کیفے کا  بھی خاتمہ ہوا۔

کسی زمانے میں خوبصورت یادوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کیمرے خریدے جاتے تھے، اب موبائل میں سب کچھ موجود ہے، تصویریں کھینچیں یا پھر ویڈیوز بنائیں، کوئی مسئلہ نہیں۔

واک مین یا پھر MP3 پلیئر کو بھی وقت کی تیز دھار نے نہ بخشا۔ ٹیپ ریکارڈز، وی سی آر یا پھر آڈیو اور ویڈیو کیسٹ، سب کچھ اب صرف یادوں میں رہ گیا ہے۔ اب موبائل میں گیمز کا بھی خزانہ موجود ہوتا ہے، جو گیم چاہیے انسٹال کریں اور کھیلیں۔

انٹرنیٹ کے ذریعے آپ آپ کا موبائل اب آپ کا ٹی وی بھی ہے، آئی پی ٹی وی کے ذریعے آپ کے موبائل فون پر چینلز کی اک نئی دنیا آپ کا استقبال کرتی ہے، یوٹیوب کی مدد سے اپنی پسند کا جو بھی ڈرامہ دیکھنا چاہیں، کوئی مسئلہ نہیں، موبائل کی اس نئی دنیا میں گھر بیٹھے کئی افراد لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔

یہ ٹیکنالوجی طبی دنیا میں بھی انقلاب لائی ہے، اگر ڈاکٹر کے پاس جانا مشکل ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، ڈاکٹر میلوں دور کسی حد تک معائنہ بھی  کر سکتا ہے۔

ایک دلچسپ بات ’موبائل فون بہت کچھ کھانے کے بعد بھی سمارٹ فون کہلاتا ہے‘۔

موبائل کی جادوئی دنیا کے فائدے تو کئی ہیں مگر نقصانات بھی ہیں، ان کا بہت زیادہ استعمال کئی مسائل بھی پیدا کرتا ہے، خاص طور  پر بچوں پر ان کے سنگین اثرات ہو سکتے ہیں، کئی افراد کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس نے سماجی رابطے   بھی کم کر دیئے ہیں، ایک ہی جگہ پر قریب رہتے ہوتے بھی دور دور ہوتے ہیں۔

موبائل فون کے فائدے زیادہ ہیں یا نقصانات۔ یہ تو آپ کے استعمال پر منحصر ہے مگر موجودہ دور میں اس کے بغیر گزارا بھی ممکن نہیں۔

ایک ٹچ پہ دنیا اور دوریاں سب سمٹ گئیں

مگر اک جدائی کی دیوار بھی کھچ گئی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کوئی مسئلہ نہیں موبائل فونز کی دہائی کے موبائل فون ٹیلی فون کے ذریعے دنیا میں نیٹ ورک فون کی کا حصہ کے لیے فون کا سب کچھ

پڑھیں:

سوشل میڈیا کی ڈگڈگی

تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔

دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔

البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔

تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،

 Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,

Generation Z

یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔

چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔

زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔

دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔

زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔

سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔

حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔

انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔

چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • کشمور، ڈاکوؤں کا پولیس موبائل پر حملہ، ایس ایچ او سمیت چار اہلکار زخمی
  • ران ثناء کا شرجیل میمن سے ٹیلی فونک رابط : وفاق ‘ سندھ حکومت کا نہروں کا مسئلہ مذکرات سے حل کرنے پرا تفاق
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا ایران اور افغانستان کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ
  • رانا ثنااللہ اور شرجیل میمن میں ٹیلی فونک رابطہ، کینال مسئلہ بات چیت سے حل کرنے پراتفاق
  • کینالز کا معاملہ: رانا ثناء اللّٰہ کا شرجیل میمن سے ٹیلی فونک رابطہ
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر انڈوں،ٹماٹروں کی بارش، وزیر اعظم نے نو ٹس لے لیا، کوہستانی کو ٹیلی فون
  • حج انتظامات، عازمین کو حاجی کیمپ سے ٹکٹ، ویزہ، شناختی لاکٹ، اسٹیکرز اور موبائل سم فراہم کی جائے گی