نوزائیدہ بچے کی ہچکی دماغی نشوونما کا بنیادی ذریعہ ہو سکتی ہے، مطالعہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مارچ 2025ء) یہ تحقیق نوزائیدہ بچوں کے دماغی اسکین پر مبنی تھی۔ اس مطالعے کے سرکردہ مصنف اوریو سی ایل کے نیورو سائنس، فزیالوجی اینڈ فارماکولوجی شعبے کے ریسرچ ایسوسی ایٹ کمبرلے وائٹ ہیڈ کے بقول، ''ہم ہچکی کیوں لیتے ہیں، اس کی وجوہات پوری طرح سے واضح نہیں ہیں، لیکن نشوونما ایک وجہ ہو سکتی ہے، کیونکہ جنین اور نوزائیدہ بچے کثرت سے ہچکی لیتے ہیں۔
‘‘ہر بار جب کوئی نوزائیدہ بچہ ہچکی لیتا ہے، تو یہ دماغی سگنلز کی ایک بڑی لہر کو متحرک کرتا ہے جس سے بچے کو یہ سیکھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ وہ اپنی سانسوں کو کس طرح منظم کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر والدین کے لیے بچوں کی ہچکی پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ محققین کو تاہم اپنی تحقیق سے یہ پتا چلا کہ یہ ہچکی بچوں کے دماغ کی نشوونما کے لیے بہت اہم ہے۔
(جاری ہے)
بریسٹ فیڈنگ کی بجائے ڈبے کے دودھ کا استعمال، فائدہ مند یا نقصان دہ؟
'نوزائیدہ بچوں میں ہچکی معمول کی بات ہے‘
محققین نے تمام والدین کو اس امر کا یقین دلایا کہ بچوں میں ہچکی آنا معمول کی بات ہے اور یہ پریشان کن بات نہیں ہے۔ جب تک کہ ہچیکوں کے بعد کسی گہرے مسئلے کی دوسری علامات ظاہر نہ ہوں۔ سائنسدانوں کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ہچکی کی وجہ کیا ہے، لیکن بہت زیادہ کھانا یا بہت زیادہ ہوا خوری جیسی چیزیں ہچکیوں کے امکان میں اضافہ کر دیتی ہیں۔
ہچکیوں کا سبب
عام طور پر ہچکی ایک اضطراری حالت ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب ڈایافرام کی حرکت نطقی عصبہ کو فوری طور پر کھولنے اور بند کرنے کا سبب بنتی ہے۔ یہ عام طور پر کھانے، پینے یا ذہنی دباؤ کے لمحات کے وقت آتی ہے۔
بچوں میں ہچکی ایک عام شے ہے۔ زیادہ تر نوزائیدہ بچوں کو اکثر ہچکی آتی ہے، جو اس بات کی علامت ہوسکتی ہے کہ آپ کا بچہ صحت مند ہے اور اچھی طرح نشوونما پا رہا ہے۔
ہچکیوں کے دوران کیا ہوتا ہے؟
ڈایافرام یا پردہ شکم کے پٹھے جو سانس لینے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں، ہچکی کے دوران اس میں اینٹھن ہوتی ہے۔ یہ پسلیوں کے نیچے پایا جاتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جب پیٹ میں تیزابیت یا جزوی طور پر ہضم شدہ کھانا دوبارہ حلق (یا غذائی نالی) میں چلا جاتا ہے تو ایسڈ ریفلکس ان پٹھوں میں اشتعال پیدا کرتا ہے اور ہچکی کا سبب بن سکتا ہے۔
تاہم، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہچکییاں از خود صحت کے مسائل کی علامت نہیں ہوتیں۔ورلڈ بریسٹ فیڈنگ ویک: پاکستان میں رجحان کیا؟
بچوں کی ہچکیاں فائدہ مند
اس تحقیق سے ایک دلچسپ بات سامنے آئی وہ یہ کہ بچوں کی ہچکی اچھی شے ہو سکتی ، خاص طور سے دماغ کی نشوونما کے تناظر میں۔ ایک تحقیق کے دوران جب نوزائیدہ بچوں کو ہچکی آرہی تھی تو سائنسداں ان کی دماغی سرگرمی کی سطح پر نظر رکھے ہوئے تھے، اس دوران انہوں نے برقی تحریکوں کی بڑی لہروں کو قریب سے دیکھا۔
ہچکی کے دوران بچوں کے جسم کے مختلف حصوں سے دماغی سگنلز ملنے کا احساس ، ڈایافرام کے سکڑ جانے کے احساس سے ہوا۔ یہ تاثرات انہیں آخرکار صحیح طریقے سے سانس لینے کا طریقہ سیکھنے میں مدد گار ثابت ہوئے، جس کا محققین نے جائزہ لیا ۔انٹرنیٹ پر ماں کے دودھ کی خرید و فروخت؟
اگرچہ ہچکیاں عام طور سے بے ضرر ہوتی ہیں اور تھوڑی دیر میں بغیر کسی بیرونی مداخلت کے خود ہی رُک جاتی ہیں لیکن اگر نو زائیدہ بچہ ہچیکوں سے تنگ ہونے لگے تو اُس کی پشت کو ہلکے ہلکے سہلانے سے اُسے سکون ملتا ہے۔
والدین کے لیے یہ کبھی کبھی پریشان کن اور انہیں بے چین کر دینے کا سب بنتی ہے تاہم نو زائیدہ بچوں کی ہچکیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ بچے عام طور پر اپنی ہچکیوں سے پریشان نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ ہچکی کے دوران کھا اور سو سکتے ہیں۔ عام طور پر ہچکی کا سلسلہ 5 تا 10 منٹ کے اندر خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس کے لیے کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔حمل کے دوران ماں جنین کی ہچکی محسوس کر سکتی ہے
حاملہ خاتون اپنے جنین کی ہچکیاں محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم ڈاکٹروں کو یہ پتا نہیں چل سکا کہ رحم مادر میں جنین کی ہچکیوں کی وجہ کیا ہوتی ہے۔ حاملہ خاتون محسوس کر سکتی ہے کہ جنین کی دیگر حرکات کے مقابلے میں ہچکیاں زیادہ صوتی توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ محسوس ہوتی ہے۔
حاملہ خاتون حمل کے 16 ویں سے لے کر 20 ویں ہفتے کے درمیان جنین کی حرکت محسوس کرنا شروع کر دیتی ہے۔ چند کیسز میں اس میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ ماں کے جنین کی حرکت محسوس کرنے کے وقت کا دار ومدار چند عوامل پر ہوتا ہے۔جب رحم اور ویجائنا گر جاتے ہیں!
جیسے کہ رحم مادر سے جنین کو خوراک فراہم کرنے والی نالی 'پلاسنٹا‘ کی پوزیشن بھی یہ تعین کرتی ہے کہ ماں کتنی جلدی جنین کی حرکت محسوس کرنا شروع کرتی ہے۔
ماں یا حاملہ خاتون کے وزن کا بھی اس سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جن خواتین کے پیٹ کے ارد گرد وزن کم ہوتا ہے وہ بہت جلد جنین کی حرکت محسوس کرنا شروع کر دیتی ہیں۔رضاعی کتیا نے دودھ پلا کر بچے کی جان بچا لی
ماؤں کے لیے چند ہدایات
دودھ پلانے کے دوران بچے کو ڈکار دلواتے رہیں۔ بچہ پیٹ میں اضافی گیس کے سبب بے چین ہو جاتا ہے۔
ایسی صورت میں بچے کی پیٹ کو ہلکے ہلکے تھپتھپائیں اور پیٹ کو آہستہ آہستہ سہلائیں۔ ہچکی کے وقت بچے کو کھانا کھلانے سے پرہیز کریں۔ بچے کے بھوک کے سبب رونے سے پہلے اُسے دودھ یا غذا دے دیں۔ دودھ پلانے کے بعد بچے کو سیدھا اپنے کاندھے سے لگا کر اس کی پیٹ تھپتھپائیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب آپ دودھ پلائیں تو بوتل میں نپل مکمل طور پر دودھ سے بھرا ہوا ہے۔ دودھ پلانے سے پہلے نپل میں ہوا کو کم کریں۔ اضافی ہوا ہچکی کو بگاڑ سکتی ہے۔ اپنے بچے کے لیے نپل کا صحیح سائز استعمال کریں، تو یقینی بنائیں کہ نپل کا بہاؤ آپ کے بچے کے لیے بہت تیز یا بہت سست نہیں ہے۔ صحیح بہاؤ اس بات پر منحصر ہو سکتا ہے کہ آپ کے بچے کی عمر کتنی ہے، اس لیے آپ کو ہر چند ماہ بعد بوتل کے نپل تبدیل کرتے رہنا چاہیے۔کشور مصطفیٰ
ادارت: عاطف توقیر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنین کی حرکت محسوس نوزائیدہ بچوں حرکت محسوس کر حاملہ خاتون کے دوران سکتی ہے ہوتا ہے جاتا ہے ہوتی ہے بچے کی اس بات بچے کو کے لیے
پڑھیں:
Rich Dad -- Poor Dad
وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘ والد ٹھیکیدار تھا‘ جنرل ایوب خان کے دور میں ملک میں ترقیاتی کام شروع ہوئے‘ سڑکیں بنیں‘ ڈیم بننے لگے اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھنے لگیں‘ والد نے اس دور کا بھرپور فائدہ اٹھایا‘ اس نے منگلا ڈیم سے مٹی نکالنے کا ٹھیکہ لیا‘ پھر سندھ میں اسکولوں کی عمارتیں بنانے اور آخر میں بلوچستان میں ہیلتھ یونٹس کی تعمیر کا کام سنبھال لیا‘ یہ کام، کام نہیں تھے‘ یہ سونے کی کانیں تھیں‘ والد ان کانوں کا جتنا سونا سمیٹ سکتا تھا اس نے سمیٹ لیا‘ وہ سمجھ دار آدمی تھا۔
اس نے جو کمایا پراپرٹی میں لگا دیا‘ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی خوب کیا‘ لڑکے ایچی سن میں پڑھے اور لڑکیوں نے کانونٹ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی‘ والد نے بچوں کو دنیا کی ہر نعمت فراہم کی‘ یہ لوگ اس وقت ذاتی گاڑیوں پر اسکول اور کالج جاتے تھے جب نوے فیصد پاکستانی تانگوں پر سفر کرتے تھے‘ دنیا میں دولت 80 فیصد لوگوں کو خراب کر دیتی ہے‘ یہ لوگ شراب‘ شباب کباب اور جوئے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر نمود ونمائش کے ذریعے اللہ کے دیے رزق کو آگ لگانے لگتے ہیں لیکن ان کا والد مختلف انسان تھا‘ دولت نے اسے خراب نہیں کیا‘ وہ آخری سانس تک سادہ اور شریف آدمی رہا‘ پانچ وقت کا نمازی‘ زندگی میں تین حج اور دس عمرے اور سگریٹ تک کو منہ سے نہیں لگایا‘ بچے بھی بہت اچھے تھے۔
یہ پانچوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے چنانچہ خاندان کی زندگی میں ہر طرف امن ہی امن‘ سکون ہی سکون اور خوش حالی ہی خوش حالی تھی لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی‘ حالات نے پلٹا کھایا‘ خاندان ٹوٹا اور پانچوں بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے‘ ان پانچوں کی باقی زندگی عدالتوں‘ کچہریوں اورو کیلوں کے دفتروں میں دھکے کھاتے گزری‘ کیوں؟ ہم اس کیوں کی طرف آنے سے پہلے اس واقعے کی طرف جائیں گے جو اس خوشحال فیملی کو بکھیرنے کی وجہ بنا‘ ان کا والد 1972ء میں اچانک فوت ہو گیا۔
والد کی تدفین کے بعد جائیداد کے کاغذات اکٹھے کیے گئے‘ پتہ چلا والد نے کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ اور ڈھاکہ میں کروڑوں روپے کی کمرشل پراپرٹی چھوڑی‘ فیصل آباد کے مضافات میں زرعی زمین بھی تھی اور ملتان میں دو فیکٹریاں بھی۔ جائیداد کی تقسیم پہلا تنازع تھا جس نے ان بہن بھائیوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جنھیں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی‘ یہ تنازع بڑھتے بڑھتے دشمنی بن گیا‘ پانچوں بہن بھائی جائیداد میں حصے کے لیے عدالتوں میں گئے اور پھر اس کے بعد واپس نہ آئے‘ جائیداد کی دشمنی اب تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے‘ اب کزن ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ یہ لوگ بھی نہ جانے کب تک لڑتے رہیں گے۔
آپ یقینا ان پانچ بہن بھائیوں کو لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم کہیں گے لیکن میں ان کو مظلوم اور بے گناہ سمجھتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میری نظر میں یہ لوگ لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم نہیں ہیں‘ ان کا والد تھا‘ وہ ایک ایسا ظالم اور لالچی شخص تھا جو دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی اولاد کے لیے فساد کی بے شمار جڑیں چھوڑ گیا‘ یہ والد کی چھوڑی ہوئی وہ زمین‘ جائیداد‘ ملیں اور رقم تھی جس نے 53 برسوں تک بچوں کو اکٹھے نہیں بیٹھنے دیا‘ جس نے انھیں ایک دوسرے کی خوشیوں اور غمیوں میں بھی جمع نہیں ہونے دیا اور جس نے بہن کو بہن اور بھائی کو بھائی نہیں رہنے دیا چنانچہ آپ فیصلہ کیجیے‘ ظالم اور لالچی کون تھا‘ بچے یا والد؟ آپ جتنا غور کریں گے۔
آپ بھی اتنا ہی والد کو اس سارے فساد کا ذمے دار قرار دیں گے‘ اب سوال یہ ہے‘ کیا یہ صرف ایک خاندان یا چند لوگوں کی داستان ہے؟ جی نہیں‘ آپ دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو اپنے ہر طرف ایسے ہزاروں خاندان نظر آئیں گے جن کے والدین اپنے بچوں کے لیے عمر بھر خوشحالی جمع کرتے رہے‘ جو زندگی بھر اپنی آل اولاد کے لیے دولت کے انبار لگاتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھ بند ہوئی‘ ان کی وہ اولاد ان کے جنازے میں ہی لڑ پڑی جس کی خوشحال اور مطمئن زندگی کے لیے وہ تنکا تنکا جمع کرتے رہے تھے‘ ان کی اولاد پھر کبھی اکٹھی نہ بیٹھ سکی۔
بچے عمر بھر وکیلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے رہے اور جب بچوں کا آخری وقت آیا تو ان کی کوئی بہن‘ بھائی‘ بھتیجا اور بھانجا ان کا منہ دیکھنے کے لیے نہیں آیا چنانچہ پھر ظالم کون ہوا‘ والد یا اولاد؟ آپ ان کے مقابلے میں اب ان لوگوں کو دیکھئے‘ جو اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑ کر جاتے‘ یہ لوگ زندگی میں جتنا کماتے رہے‘ اتنا کھاتے رہے‘ کرائے کے چھوٹے مکانوں میں زندگی گزاری‘ گھر بنایا تو وہ بھی تنگ اور چھوٹا تھا‘ ایک آدھ گاڑی خریدی اور کپڑے اور جوتے بھی زیادہ نہیں تھے لیکن بچوں کی تربیت‘ تعلیم اور صحت پر بے انتہا توجہ دی‘ اپنی اولاد کو خود اسکول چھوڑ کر آئے‘ ان کے لیے کتابیں خریدیں‘ ان کے ساتھ میدانوں میں دوڑ لگائی‘ کرکٹ کھیلی‘ ہاکی اور فٹ بال سے لطف لیا‘ قہقہے لگائے‘ لطیفے سنائے اور باربی کیو کیا۔
یہ لوگ جب یہ مشکل اور غریب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی اولاد کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جسے یہ آپس میں تقسیم کرتے اور اس تقسیم کے دوران کوئی تنازع پیدا ہوتا چنانچہ اولاد نہ صرف والدین کے انتقال کے بعد بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت میں اضافہ بھی ہوتا گیا‘ آپ کبھی ملک میں ’’کزن میرجز‘‘ پر بھی تحقیق کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ’’کزن میرج‘‘ کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے دادا اور نانا ترکے میں زمین جائیداد چھوڑ کر نہیں جاتے‘ والدین نے کیونکہ دولت نہیں چھوڑی ہوتی چنانچہ بچے آپس میں ملتے رہتے ہیں اورجب ان کی اولاد جوان ہوتی ہے تو بھائی بھائی سے رشتہ مانگ لیتا ہے اور بہن اپنی بیٹی بھتیجے سے بیاہ دیتی ہے اور یوں محبت اور رشتے آگے بڑھتے جاتے ہیں جبکہ آپ ان کے مقابلے میں امیر خاندان کے بچوں کو اپنے کزنز کے گلے کاٹتے دیکھیں گے‘ یہ غریب اور امیر خاندانوں کی زندگی کا ایک پہلو ہے‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔
میں نے زندگی میں غریب والدین کے زیادہ تر بچوں کو ترقی کرتے دیکھا‘ آپ بھی سروے کریں‘ آپ بھی زندگی کے مختلف شعبوں کے کامیاب لوگوں کا بیک گراؤنڈ دیکھیں‘ آپ کو اسی فیصد کامیاب لوگوں کا بچپن غربت اور عسرت میں لتھڑا دکھائی دے گا‘ والد غریب تھا‘ وہ لوہا کوٹتا تھا‘ وہ موچی‘ کسان‘ سیلز مین یا فیکٹری مزدور تھا‘ وہ کلرک یا سیکشن آفیسر تھا‘ وہ مزارع تھا یا پھر وہ معمولی دکاندار تھا لیکن بیٹا سیٹھ بن گیا‘ مل مالک‘ اعلیٰ افسر‘ جرنیل‘ سائنس دان یا اداکار ہو گیا‘ آپ یہ ڈیٹا جمع کریں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں‘ کیوں؟ اور کیسے؟ آپ وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔
غربت میں دس ہزار خرابیاں اور ایک لاکھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک ایسی حیران کن خوبی ہوتی ہے جو دنیا کی کسی دوسری چیز میں نہیں پائی جاتی‘ غربت دنیا کا سب سے بڑا طعنہ ہے‘ یہ طعنہ انسان کے اندر غربت کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دیتا ہے اور انسان سینہ ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے‘ یہ غربت سے لڑ پڑتا ہے اور ہمیشہ کامیاب ہو جاتا ہے‘ میں غریب والدین کے کامیاب بچوں سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ آپ اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے غریب والد کا شکریہ ادا کریں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ کی یہ ساری کامیابی آپ کے والد کی غربت کا رد عمل ہے‘ آپ کو آپ کے ناکام اورغریب والد نے کامیاب اور امیر بنایا‘ آپ اگر بچپن میں غربت اور ناکامی نہ دیکھتے تو آپ کے دل میں کبھی ناکامی اور غربت کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہ ہوتی اور آپ کے دل میں اگر یہ نفرت سر نہ اٹھاتی تو آپ کبھی کامیاب نہ ہوتے‘ میں اسی طرح سخت ماں باپ کے کامیاب بچوں سے بھی عرض کرتا ہوں‘ آپ اپنے والدین کی سختی کا شکریہ ادا کریں۔
وہ اگر آپ پر سختی نہ کرتے تو آپ شاید گھر سے نہ بھاگتے‘ آپ شاید کتابوں‘ اسپورٹس اور کاروبار میں پناہ نہ لیتے اور شاید آپ میں حالات کے خلاف لڑنے کا اتنا حوصلہ پیدا نہ ہوتا‘ یہ حوصلہ‘ سختی کا مقابلہ کرنے کی یہ ہمت آپ کی کامیابی کا اصل گُر ہے اور آپ نے یہ گُر اپنے والدین کی سختی‘ ظلم اور منفی رویوں سے کشید کیا‘ وہ اگر نرم نہ ہوتے تو آپ اس وقت کامیابی کی آخری سیڑھی کی بجائے میاں چنوں میں بوریاں جھاڑ رہے ہوتے یا پھر آپ نے لاڑکانہ میں آلو چھولے کی ریڑھی لگائی ہوتی‘ یہ آپ کے والدین کی سختی تھی جس نے آپ کو زندگی کے نئے میدان تلاش کرنے پر مجبور کیا‘ یہ سختی تتلی کے انڈے کا وہ باریک سوراخ ثابت ہوئی جس سے نکلنے کی کوشش میں قدرت تتلی کے جسم پر خوبصورت پر اگا دیتی ہے‘ انڈے کا سوراخ جتنا چھوٹا ہوتا ہے‘ تتلی کے پر اتنے ہی خوبصورت اور لمبے ہوتے ہیں اور یہ سوراخ جتنا بڑا ہوتا ہے۔
تتلی کے مرنے کے چانس بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں‘ زندگی میں اگر سختی‘ غربت اور مسائل نہ ہوں تو شاید دنیا میں کوئی ایڈیسن‘ آئن سٹائن‘ نیوٹن‘ شیکسپیئر‘ مائیکل اینجلو‘ مارک زکر برگ اور بل گیٹس پیدا نہ ہو‘ دنیا کے زیادہ تر کامیاب لوگ سختی اور غربت کی پیداوار ہوتے ہیں‘ یہ مشکلات کے کوکون سے نکلتے ہیں چنانچہ آپ اگر امیر ہیں تو آپ جان لیں آپ کی جائیداد آپ کے بعد آپ کے بچوں کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دے گی اور آپ اگر غریب ہیں تو آپ ہرگز ہرگز شرمندہ نہ ہوں‘ آپ کی یہ غربت آپ کے بچوں کی کامیابی کا ذریعہ بنے گی اور یہ ان کو ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھے گی‘ غریب باپ امیر باپ کے مقابلے میں ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔