وادی کشمیر میں پابندیوں کے باوجود "یوم القدس" کی عظیم الشان ریلیاں (ویڈیو رپورٹ)
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: قدس ریلیوں کو محدود کرنے کی غرض سے مقبوضہ کشمیر بھر میں قابض فورسز کا سخت پہرہ لگایا گیا تھا، اسکے باوجود قدس ریلیوں میں مرد و زن کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور فلسطین کے حق میں فلک شگاف نعرے بلند کئے۔ متعلقہ فائیلیںرپورٹ: جاوید عباس رضوی
مقبوضہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں عالمی یوم القدس کے حوالے سے عظیم الشان ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ سب سے بڑی ریلیوں کا اہتمام چھٹہ بل سرینگر، حسن آباد، بمنہ، بڈگام، ماگام اور کرگل لداخ میں ہوا۔ قصبہ ماگام، بڈگام اور سرینگر میں نماز جمعہ سے پہلے اور بعد میں قدس ریلیوں میں علماء کرام، دانشوروں کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر علماء کرام و دانشوروں نے یوم القدس کی اہمیت و افادیت اور فسلطین پر اسرائیلی تسلط کے بارے میں تفصیلی خطابات کئے۔ ریلیوں میں امریکہ و اسرائیل کے خلاف بھرپور نفرت اور مظلوم فلسطینیوں اور قبلہ اول کے ساتھ وابستگی کا اظہار کیا گیا۔ ریلی میں شریک نوجوانوں نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر غاصب اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس پر قبضہ کے خلاف نعرے درج تھے۔ اس دوران فلسطین کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مستضعفین کے ساتھ حمایت و ہمدردی کا اعلان کیا گیا۔ ادھر قدس ریلیوں کو محدود کرنے کی غرض سے مقبوضہ کشمیر بھر میں قابض فورسز کا سخت پہرہ لگایا گیا تھا اس کے باوجود قدس ریلیوں میں مرد و زن کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور فلسطین کے حق میں فلک شگاف نعرے بلند کئے۔ ریلیوں میں شریک لوگوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈس بھی اٹھا رکھے تھے۔
قدس ریلی کے پیش نظر مودی حکومت نے میرواعظ عمر فاروق کے آج صبح سے ہی نظربند رکھا تھا جبکہ سرینگر کی تاریخی و قدیم جامع مسجد کو نمازیوں کے لئے بند رکھا گیا۔ اپنے ایک بیان میں میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ جمعۃ الوداع کے موقع پر بھی جامع مسجد سرینگر لوگوں کے لئے بند ہے اور میں جمعۃ الوداع کے دن بھی گھر میں نظربند ہوں۔ میرواعظ کشمیر نے حکام سے سوال کیا کہ جب حالات معمول پر آنے کے بلند و بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں تو پھر کشمیر کی مذہبی شناخت اور وابستگی کے اس اہم ترین مرکز کو بار بار کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے اور لوگوں کے مذہبی رسومات پر عمل کرنے کے بنیادی حق کو کیوں روکا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے نام پر حکمرانی کرنے والے وادی کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی اس سنگین ناانصافی اور جامع مسجد کو بار بار بند کیے جانے کے خلاف آواز اٹھانے سے خود کو بری نہیں کرسکتے۔ سرینگر کے مرکز میں واقع کشمیر کی مرکزی مسجد کی بندش کو وادی میں بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.
youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قدس ریلیوں ریلیوں میں کے ساتھ
پڑھیں:
سرینگر، علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا
سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے، قابض بھارتی اہلکار طاقت کے بل پر لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے اگست 2019ء میں علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کے خلاف اپنی پرتشدد مہم میں تیزی لائی، میڈیا پر قدغیں عائد کیں اور صحافیوں کو سچائی سامنے لانے سے روکا۔ شہریوں نے کہا کہ علاقے میں اس وقت جو خاموشی کا ماحول نظر آ رہا ہے اور جسے بھارت امن کا نام دے رہا ہے یہ دراصل امن نہیں بلکہ خوف و دہشت ہے جو طاقت کے بل پر یہاں پھیلایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف ”یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کا استعمال، این آئی اے اور ایس آئی اے جیسے بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کی کارروائیاں یہاں پائی جانے والی خاموشی کا اصل سبب ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ بھارت جبر و ستم کی کارروائیوں کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں آزادی کی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہا ہے اور خوف و دہشت کو امن کا نام دے رہا ہے۔ ایک سابق پروفیسر نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”یہ وحشیانہ فوجی طاقت کے ذریعے قائم کی گئی خاموشی ہے، لوگ پہلے کی طرح سب کچھ محسوس کر رہے ہیں لیکن انہوں نے ڈر کے مارے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چھوڑ دیا ہے۔“