بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے اپوزیشن کو بھی دعوت دی ہے، حکومت
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزراء نے جعفر ایکسپریس، گوادر میں مسافروں کی شہادت اور کوئٹہ میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ حکومت اس معاملے پر مکمل سنجیدگی کیساتھ کام کر رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے صوبائی وزراء ظہور بلیدی اور شعیب نوشیروانی اور ترجمان شاہد رند نے بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی مذمت کرتے ہوئے اسے ملک دشمن عناصر کی منظم سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سے سختی سے نمٹا جائے گا اور پاکستان کے خلاف ہونے والی تمام تر سازشوں کو ناکام بنایا جائے گا۔ آج چیف منسٹر سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر ترقیات و منصوبہ بندی ظہور بلیدی نے کہا کہ جعفر ایکسپریس حملے میں بے گناہ مسافروں کو یرغمال بنایا گیا اور انہیں ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں مسافر بس سے معصوم شہریوں کو اتار کر شہید کرنے کا واقعہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ گزشتہ روز کے دھماکے میں معروف ڈاکٹر مہراللّٰہ ترین کو نشانہ بنایا گیا جو ایک پرفیشنل اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار شخصیت تھے۔ ظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور حکومت اس معاملے پر مکمل سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی ترقی دشمن عناصر کو برداشت نہیں، مگر ان عناصر کو کسی بھی صورت بخشا نہیں جائے گا۔
پریس کانفرنس میں صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے کہا کہ بلوچستان کو اس وقت دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔ لیکن حکومت شہریوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بلوچستان میں بعض علاقوں میں محرومیاں اور بیڈ گورننس کے مسائل موجود ہیں، لیکن حکومت ان معاملات کے حل کے لئے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ ان کے مطابق گورننس اور امن و امان کی بہتری کے لئے تمام ضروری اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے اس موقع پر کہا کہ صوبائی حکومت ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل حل کرنے پر سنجیدہ ہے۔ اس ضمن میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپوزیشن کو بھی مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف حکومت بلوچستان کا واضح اور دوٹوک مؤقف ہے۔ لسانیت اور شناخت کے نام پر قتل کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ پریس کانفرنس میں صوبائی وزراء اور ترجمان نے کہا کہ بلوچستان حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے تمام تر ممکنہ اقدامات اٹھا رہی ہے اور کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پریس کانفرنس دہشت گردی کے کہ بلوچستان کرتے ہوئے نے کہا کہ جائے گا رہی ہے کے لئے
پڑھیں:
اسحاق ڈار کا دورہ کابل
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات گزشتہ ایک سال سے ٹھیک نہیں تھے۔
پاکستان افغانستان سے ناراض تھا۔ افغانستان نے دہشت گردوں کو پناہ دی ہوئی ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون نہیں کر رہی ہے۔ اس لیے پاکستان افغانستان سے ناراض تھا۔ اسی لیے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے بھی ختم تھے۔
اسی ناراضگی میں پاکستان نے پاک افغان بارڈرز پر نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ پہلے آمد و رفت عام تھی اب ویزہ کے بغیر کوئی نہیں آجا سکتا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی پاکستان نے افغانستان سے تجارت محدود کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے میں جب تک تعاون نہیں کیا جائے گا تجارت اور معاشی تعلقات کیسے ہو سکتے ہیں۔اسی لیے دونوں ممالک کا تجارتی حجم بھی بہت کم ہوگیا۔
پاکستان نے اپنے ہاں مقیم افغانوں کو واپس بھیجنا شروع کیا۔کئی دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان بھی جو چیزیں افغانستان سے لیتا ہے طالبان حکومت نے اس پر ٹیرف لگا دیا تھا۔ اس میں کوئلہ سر فہرست ہے۔ پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ پر قدغن لگائی۔سادہ بات بارڈر بھی بند تجارت بھی بند۔ دونوں ممالک ایک دوسرے سے ناراض۔
کچھ غیر مصدقہ خبریں ایسی بھی ہیں کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیکس بھی کی تھیں۔ افغانستان کے اندر جا کر بھی کارروائیوں کی خبریں بھی آئی ہیں۔ ان کی تصدیق پاکستان نے تو نہیں کی تھی لیکن افغان حکام کے رد عمل نے اس کی تصدیق کی تھی۔ اس لیے جب کشیدگی میں اضافہ ہوا بات چیت اور تعاون کے تمام دروازے بند ہوئے تو کارروائیاں بھی کی گئیں۔
لیکن گزشتہ دو ماہ میں افغانستان کی طرف سے پاکستان کو ایسے پیغامات موصول ہوئے کہ وہ معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کے ان پیغامات کی روشنی میں پاکستان کے افغانستان کے لیے مستقل نمائندے دو دفعہ کابل بھی گئے وہاں بات چیت ہوئی۔ ان کے دوروں کے بعد اسحاق ڈار کابل گئے ہیں۔ یہ پاکستان کے کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کا چار سال بعد افغانستان کا دورہ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ سب کے ذہن میں یہی سوال ہے۔
جب پاکستان نے افغانستان کے ساتھ معاشی تعلقات محدود کرنے شروع کیے تو شروع میں افغانستان نے اس کا کوئی دباؤ نہیں لیا تھا۔ اب کیا ہوا۔ ایک بات تو سب کو پتہ ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد افغان طالبان کو جو مدد مل رہی تھی وہ بند کر دی گئی ہے۔ جس سے وہ معاشی طور پر مشکل میں ہیں۔ اب انھیں معاشی تکلیف ہوئی ہے۔ اس لیے جو باتیں ان کے لیے پہلے اہم نہیں تھیںِ اب اہم ہیں۔ وہ اب پاکستان سے تجارت کو اہم سمجھتے ہیں۔ امریکی ڈالر جو بند ہو گئے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ گزشتہ ایک سال سے افغانستان میں حقانیوں اور قندھاریوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ طالبان کے قندھار گروپ اور حقانی گروپ کے درمیان لڑائی تھی۔ قندھار گروہ مضبوط ہے لیکن قندھار گروپ کا یہ خیال تھا کہ حقانی ہمیشہ سے پاکستان کے قریب رہے ہیں۔
ان کے تعلقات بھی پاکستان سے زیادہ رہے ہیں اس لیے پاکستان حقانیوں کا ساتھ دے گا، ان کی مدد کرے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں بالکل دخل نہیں دیا ہے۔ حقانیوں اور قندھاریوں کے تنازعہ میں پاکستان فریق نہیں بنا ہے۔ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بہرحال اس وقت قندھار گروپ نے اقتدار پر اپنا کنٹرول زیادہ مضبوط کر لیا ہے۔ ملا ہیبت اللہ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کی ہے۔ اس وجہ سے بھی قندھار گروپ کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور انھوں نے پاکستان کی طرف دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
پاکستان نے قندھار گروپ بالخصوص ملا ہیبت اللہ کے مثبت پیغامات کا مثبت جواب دیا ہے۔ ہم نے اس موقع کو ضایع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے پہلے محمد صادق کو بھیجا گیا اور جب کافی معاملات حل کے قریب پہنچ گئے تو اسحاق ڈار گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہوگا کہ دہشت گردی میں کیا ہوگا، تو اطلاعات یہی ہیں کہ تعاون ہوگا۔ ویسے تو اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک ماہ سے دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے۔ کچھ اعداد و شمار کے مطابق ستر فیصد کمی ہوئی ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کی رائے میں دہشت گردی میں جب بہت تیزی آتی ہے تو پھر کمی بھی آتی ہے۔
اس لیے اگر تو یہ کمی مستقل ہوئی تو پھر ہی کچھ کہا جائے گا۔ بہر حال اطلاعات یہی ہیں کہ وہ دہشت گردی میں تعاون کرنے پر مان گئے ہیں۔ بالخصوص بلوچ دہشت گردوں پر زیادہ تعاون نظر آئے گا۔ ان کی افغانستان میں کوئی مدد نہیں ہوگی بلکہ پاکستان کی نشاندہی پر ان کے خلاف افغانستان میں آپریشن بھی کیے جائیں گے۔ حال ہی میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ میں بھی بلوچ دہشت گرد افغانستان سے ہدایات لے رہے تھے۔ اس لیے طالبان حکومت ان بلوچ دہشت گردوں کی مدد ختم کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلی بڑی پیش رفت ہے۔ ٹی ٹی پی سے وہ بات کریں گے اور انھیں بھی کارروائیاں بند کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
اسی بات پر پاکستان نے معاشی تعلقات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اور آپ نے دیکھا کہ اسحاق ڈار نے معاشی تعلقات کی بحالی کے لیے اعلانات بھی کیے۔ لیکن پاکستان نے افغان مہاجرین پر کوئی مفاہمت نہیں کی ہے۔ افغان طالبان کی یہ درخواست کہ ان کے رہنے کی مدت بڑھائی جائے، نہیں مانی گئی۔ یہ بتایا گیا کہ اس پر کوئی لچک نہیں ہو سکتی۔ اب افغان طالبان کو ان مہاجرین کو واپس لینا ہی ہوگا۔ یہ ایک مستقل پالیسی ہے۔ اس کا اچھے برے تعلقات سے کوئی واسطہ نہیں۔
لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچ دہشت گرد افغانستان میں اب ان علاقوں میں ہیں جو افغان ایران کے بارڈر کے ساتھ ہیں۔وہاں طالبان کا کنٹرول بھی محدود ہے۔ لیکن افغان طالبان وہاں آپریشن کرنے اور وہاں اپنا کنٹرول بڑھانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اس میں پاکستان ان کی مدد بھی کرے گا تا کہ ان علاقوں کو بلوچ دہشت گردوں سے پاک کیا جاسکے۔ بہرحال پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی میں تعاون پر اتفاق ہو گیا ہے۔امید یہی کی جا سکتی ہے اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔