لاہور ہائیکورٹ اور ضلعی عدلیہ کے ججز کیلئے ہیلتھ انشورنس سہولت کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
لاہور ہائی کورٹ اور ضلعی عدلیہ کے ججز کے لیے ہیلتھ انشورنس سہولت کا آغاز ہو گیا ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے ہیلتھ انشورنس سہولت کا افتتاح کیا۔
ہیلتھ انشورنس سہولت انشورنس کمپنی کے اشتراک سے شروع کی گئی ہے۔
انشورنس کمپنی کے نمائندے نے ہیلتھ انشورنس سہولت کے تمام فیچرز پر تفصیلی بریفنگ دی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس انوارالحق پنوں اپنے عہدے سے ریٹائر ہو گئے۔
تقریب میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے لاہور ہائی کورٹ کے ججز اور جوڈیشل افسروں کو ہیلتھ انشورنس کارڈ بھی دیے۔
لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی افتتاحی تقریب میں لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس شجاعت علی خان نے شرکت کی۔
افتتاحی تقریب میں جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس عابد عزیز شیخ سمیت دیگر ججز شریک ہوئے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: لاہور ہائی کورٹ
پڑھیں:
عدالت کیخلاف پریس کانفرنسز ہوئیں تب عدلیہ کا وقار مجروح نہیں ہوا؟
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 21 اپریل 2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے جج ہمایوں دلاور کیخلاف سوشل میڈیا کمپین سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ غیرتسلی بخش قرار دیدی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ہمایوں دلاور کے خلاف مبینہ سوشل میڈیا مہم پر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن خیبرپختونخواہ صدیق انجم اور دیگر کے خلاف کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے دوبارہ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا، عدالت نے خصوصی عدالت میں مقدمے کا ٹرائل روکنے کا حکمِ امتناع بھی برقرار رکھا۔ سماعت کے دوران ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے، ڈی جی ایف آئی اے کی رپورٹ ہمارے مؤقف کی تائید ہے، ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق جج ہمایوں دلاور کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کی گئی‘، اس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ’کیا ایف آئی اے کو معلوم نہیں کہ عدالت میں رپورٹ کس طرح فائل کی جاتی ہے؟ شریک ملزم کے مطابق سوشل میڈیا مہم کے لیے سیاسی دباؤ تھا اس کا کیسے دفاع کریں گے؟ درخواست گزار کے مطابق شریک ملزم کا مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا بیان ریکارڈ پر موجود ہے، اس نے اس میں ایسا کچھ نہیں کہا‘۔(جاری ہے)
اس کے جواب میں ایف آئی اے وکیل نے کہا کہ ’جج کی طرف سے ایف آئی اے میں کوئی شکایت فائل نہیں کی گئی، اُن کے بھانجے نے شکایت فائل کی تھی‘، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ ’کوئی جج کی طرف سے کیسے شکایت درج کروا سکتا ہے؟ ایف آئی اے رپورٹ میں مہم سے عدلیہ کا وقار ختم کرنے کا لکھا ہوا ہے، آپ کو پتا ہے اس ہائیکورٹ کے کتنے ججز کے خلاف بدنیتی پر مبنی کمپینز چلیں؟ ہائیکورٹ کے ججز کے معاملے پر ایف آئی اے نے کہا کہ کچھ پتا نہیں کون کر رہا ہے، اِس کیس میں ایف آئی اے کو سب پتا چل گیا حالاں کہ جج نے خود شکایت بھی نہیں جمع کرائی‘، بعد ازاں عدالت نے ایف آئی اے کو دوبارہ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 19 مئی تک ملتوی کردی۔