اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مارچ 2025ء) چین کی سرکاری میڈیا نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے جمعہ کو بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔

وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیشی ہم منصب کو خط میں کیا لکھا ہے؟

گزشتہ اگست میں اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد جنوبی ایشیائی ملک کے عبوری رہنما کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یونس کا یہ پہلا دو طرفہ سرکاری دورہ ہے۔

اپنی حکومت کے خلاف طلبہ کی قیادت میں عوامی بغاوت کے نتیجے میں شیخ حسینہ کو عہدہ چھوڑنا پڑا تھا اور پڑوسی ملک بھارت فرار ہو گئیں۔

کیا بنگلہ دیش چین اور روس سے قریب تر ہو رہا ہے؟

بنگلہ دیش اس کے بعد سےسیاسی کشمکش سے دوچار ہے۔

(جاری ہے)

حسینہ کی حکومت کے بھارت کے ساتھ کافی قریبی تعلقات تھے لیکن ان کی برطرفی کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔

اس صورت حال نے بیجنگ کو ڈھاکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری میں قریبی تعلقات

جہاں بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان گہرے تاریخی، ثقافتی اور لسانی تعلقات ہیں، چین بنگلہ دیش کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور ایک اہم سرمایہ کار ہے۔

بنگلہ دیش چین کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔

بحر ہند کے مشرقی حصے میں اس کے محل وقوع کا مطلب ہے کہ یہ چینی صدر شی جن پنگ کے اہم بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) منصوبے کے لیے مثالی ہے۔ چین کے اس منصوبے کا مقصد دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور تجارتی نیٹ ورکس کے ایک بڑے ڈھانچے کو نافذ کرکے چین کے اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔

بنگلہ دیش، اپنی 172 ملین آبادی کے ساتھ، چین کی برآمدات پر مبنی معیشت کے لیے خطے میں ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی ہے۔

بنگلہ دیشی حکومت نے کہا کہ محمد یونس کے دورے کے دوران توقع ہے کہ دونوں فریق اقتصادی اور تکنیکی مدد، ثقافتی اور کھیلوں میں تعاون اور دونوں ممالک کے درمیان میڈیا تعاون سے متعلق متعدد معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

ادارت: رابعہ بگٹی

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بنگلہ دیش کے بعد

پڑھیں:

پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ

اسلام ٹائمز: ضیاءالحق کے دور میں اقتدار کی سیاست نے ریاستی سطح پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور اس ماحول میں ایران مخالف بیانیے کو باقاعدہ پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ انقلاب اسلامی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، جسکے نتیجے میں پاکستان کی شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھا اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیک وقت، ایران کے ساتھ رسمی تعلقات کا ظاہری تاثر بھی قائم رکھا گیا۔ یہ دوہری اور متضاد حکمت عملی نہ صرف داخلی ہم آہنگی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی، بلکہ ایران کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات بھی مجروح ہوئے۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

پاکستان اور ایران کے بلوچستان و سیستان کے سرحدی علاقے طویل عرصے سے دہشتگردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہیں، جہاں دونوں ممالک کو یکساں نوعیت کے خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، ان کے درمیان دہشتگردی کیخلاف مؤثر تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی واضح کمی ہے۔ باہمی اعتماد، معلومات کا تبادلہ اور عملی اشتراک جیسے بنیادی تقاضے اب تک مکمل طور پر قائم نہیں ہوسکے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، لیکن ان ملاقاتوں کے نتائج دیرپا اور مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب وقتاً فوقتاً ناخوشگوار اور خونریز واقعات جنم لیتے ہیں، جنہیں رسمی بیانات سے نہیں بلکہ سنجیدہ، مربوط اور عملی اقدامات کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان کیساتھ اس کے تعلقات میں بتدریج سرد مہری پیدا ہوئی۔ اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ایران کا امریکہ مخالف مؤقف تھا، جبکہ پاکستان اُس وقت افغان جہاد کے تناظر میں امریکی بلاک کا فعال رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس دور میں مکمل طور پر امریکی اثر و نفوذ کے تحت آچکی تھی، جبکہ ایران میں انقلاب کے بعد شدید امریکہ دشمنی غالب آچکی تھی۔ یہ نظریاتی تفاوت دونوں ممالک کے درمیان فاصلے کا باعث بنا۔ عرب ممالک نے بھی انقلاب اسلامی کو شک کی نظر سے دیکھا اور چونکہ پاکستان کے ان سے تاریخی طور پر نیازمندانہ تعلقات تھے، اس لیے ان کے تحفظات نے بھی ایران سے روابط پر منفی اثر ڈالا۔

ضیاءالحق کے دور میں اقتدار کی سیاست نے ریاستی سطح پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور اس ماحول میں ایران مخالف بیانیے کو باقاعدہ پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ انقلاب اسلامی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کی شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھا اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیک وقت، ایران کے ساتھ رسمی تعلقات کا ظاہری تاثر بھی قائم رکھا گیا۔ یہ دوہری اور متضاد حکمت عملی نہ صرف داخلی ہم آہنگی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی، بلکہ ایران کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات بھی مجروح ہوئے۔ آج بھی ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کئی داخلی و خارجی عوامل حساسیت اور پیچیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

علاقائی سیاست، بین الاقوامی دباؤ اور بعض مذہبی گروہوں کا کردار ان رکاوٹوں کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ اگرچہ دونوں طرف سے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار ہوتا رہتا ہے، لیکن کبھی خارجی دباؤ، کبھی داخلی پالیسیاں اور کبھی سکیورٹی خدشات اس راہ میں حائل رہتے ہیں۔ ماضی کے داخلی و خارجی اسباب آج بھی مؤثر ہیں، تاہم چند نئی پیچیدگیاں بھی جنم لے چکی ہیں۔ عرب ممالک، امریکہ اور بعض عالمی معاہدات کی نوعیت پاکستان پر مستقل دباؤ ڈالتی ہے، جبکہ ایران پر عائد عالمی پابندیاں دونوں ممالک کے تعلقات کو محدود رکھتی ہیں۔ داخلی طور پر مذہبی فرقہ واریت ایک مستقل رکاوٹ ہے، جس کے باعث پاکستان کی شیعہ آبادی، خصوصاً پاراچنار جیسے علاقوں میں، غیر ضروری ریاستی حساسیت کا سامنا کرتی ہے۔

بعض مذہبی و سیاسی گروہ دانستہ طور پر ان علاقوں کے مقامی مسائل کو ایران سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ریاستی اداروں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ نتیجتاً مقامی آبادی محاصروں، نقل و حرکت کی بندش اور دیگر مشکلات کا شکار بنتی ہے، حالانکہ ان علاقوں میں بیشتر مسائل کی بنیاد زمینی تنازعات پر ہے اور وہاں شیعہ سنی ہم آہنگی کے باعث اکثر فرقہ وارانہ مسائل حل ہوچکے ہیں۔ ریاستی حساسیت کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پالیسی ساز زمینی حقائق اور مقامی مصالحتی کوششوں کو بنیاد بنائیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ موجود نہیں۔ اگر دونوں ممالک چاہیں تو دہشت گردی جیسے مشترکہ خطرات کے خلاف ایک ہم آہنگ، مربوط اور مؤثر پالیسی ترتیب دے سکتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں سرگرم شدت پسند گروہ دونوں جانب بدامنی پھیلانے کیلئے ایک دوسرے کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔

ایرانی بلوچستان میں سکیورٹی کیلئے سب سے زیادہ وسائل صرف ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان کا بلوچستان سیاسی اور ریاستی بحرانوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایک طرف بدامنی کا مطلب لازماً دوسری طرف اس کا اثر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان مشترکہ فورس، انٹیلی جنس نظام اور سکیورٹی معاہدات کے ذریعے سرحدی امن کیلئے مکمل اشتراکِ عمل کریں اور اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے باشعور طبقات، پالیسی ساز ادارے اور سیاسی قیادت ان تلخ تجربات کو دشمنی کا ذریعہ بنانے کے بجائے مفاہمت اور تعاون کا نقطۂ آغاز بنائیں۔ دو طرفہ مفاہمت نہ صرف علاقائی امن کی بنیاد رکھ سکتی ہے، بلکہ اسلامی دنیا میں وحدت اور باہمی احترام کی ایک قابلِ تقلید مثال بھی قائم کرسکتی ہے۔ صحافی : تصور حسین شہزاد

متعلقہ مضامین

  • چین اور گبون نے سیاسی باہمی اعتماد کو گہرا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، چینی صدر
  • محمد یونس کا ڈھاکہ اور بیجنگ کے مابین دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ
  • اسحاق ڈار کی افغان عبوری وزیرِ اعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات
  • چین بنگلہ دیش میں 2.1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے پرعزم
  • بنگلہ دیش نے 1971 کے واقعات پر معافی اور معاوضے کا مطالبہ کیا ہے، پاکستان
  • پاکستان نے بنگلہ دیش کے 1971 کے واقعات پر معافی اور معاوضے کے مطالبے کی خبروں پر رد عمل جاری کر دیا 
  • بنگلہ دیش کے معافی کے مطالبے پر پاکستانی دفتر خارجہ کا ردعمل
  • پاک بنگلہ دیش سفارتی تعلقات کی بحالی اہم پیشرفت