Daily Ausaf:
2025-04-22@06:07:33 GMT

معراج النبیﷺ اور سائنسی کمالات

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کوراتوں رات لے گئی مسجدحرام سے مسجد اقصی تک جس کے ماحول کواس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔وہی ہے سب کچھ سننے اوردیکھنے والا ۔(بنی اسرائیل، آیت1)
جہاں تک معراج کی فضائی سفرکی تمام ترمشکلات کی بات ہے آج انسان علم کی قوت سے ان پرقابوحاصل کرچکاہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دورکے سفرسے مربوط ہے۔ مسئلہ معراج جوکہ خوداسلام کے مطابق ایک معجزہ ہے جوکہ اللہ کی لامتناہی قدرت وطاقت کے ذریعے ممکن ہوتاہے اورانبیا کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے۔جب انسان یہ طاقت رکھتاہے کہ سائنسی ترقی کی بنیادپرایسی چیزیں بنالے کہ جوزمینی مرکزثقل سے باہرنکل سکتی ہیں،ایسی چیزیں تیارکر لے کہ فضائے زمین سے باہرکی ہولناک شعاعیں ان پراثرنہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے۔ جب انسان اپنی محدودقوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے توپھرکیااللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے۔
اورہماراحکم ایساہے جیسے ایک پلک جھپک جانا۔ِ( القمر: 50)
سائنسدان جانتے ہیں کہ ایٹم کے بھی 100چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں،ان میں سے ایک نیوٹرینوہے جوتما م کائنات کے مادے میں سے بغیر ٹکرائے گزر جاتا ہے،مادہ اس کیلئے مزاحمت پیدا نہیں کرتااورنہ ہی وہ کسی مادی شے سے رگڑ کھاتا ہے، وہ بہت چھوٹا ذرہ ہے اورنہ ہی وہ رگڑسے جلتاہے کیونکہ رگڑ تو مادے کی اس صورت میں پیداہوگی جبکہ وہ کم ازکم ایٹم کی کمیت کاہوگا۔ (سرن لیبارٹری میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے بھی23 ستمبر2011ء کو اپنے تجربات کے بعدیہ اعتراف کیاتھاکہ نیوٹرینوکی رفتارروشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے)۔
روایت کے مطابق جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺکوبراق پرسوارکیا۔براق،برق سے نکلاہے،جس کے معنی بجلی ہیں،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈہے۔اگرکوئی آدمی وقت کے گھوڑے پرسوارہوجائے تووقت اس کیلئے ٹھہر جاتا ہے یعنی اگرآپ186000میل فی سیکنڈکی رفتار سے چلیں تووقت رک جاتاہے کیونکہ وقت کی رفتاربھی یہی ہے۔وقت گرجائے گاکیونکہ وقت اورفاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہے اس لیے جوشخص اس چوتھی جہت پر قابو پا لیتاہے کائنات اس کیلئے ایک نقطہ بن جاتی ہے۔وقت رک جاتاہے کیونکہ جس رفتارسے وقت چل رہاہے وہ آدمی بھی اسی رفتارسے چل رہاہے حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کوچلتاہوامحسوس کرے گالیکن کائنات اس کیلئے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اورفاصلے کواپنے قابومیں کرلیاہواس کیلئے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزرجائیں لیکن وقت رکا رہے گااورجوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گاوقت کی گھڑی پھرسے ٹک ٹک شروع کردے گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے،بسترگرم ہوگا ،کنڈی ہل رہی ہوگی اورپانی چل رہاہوگا۔ اللہ جل جلالہ کی قدرتیں لاانتہا ہیں،وہ ہربات پرقادرہے کہ رات کو جب تک چاہے روکے رکھے،اگروہ روکے توکوئی اس کی ذات پاک کے سوانہیں جو دن نکال سکے: آئیے دیکھیں اللہ سورہ القصص کی ٓآیات 71-72 میں فرماتے ہیں:آپ کہیے کہ بھلایہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ اگرقیامت تک تم پررات کومسلط کردے تواس کے سواکون روشنی لاسکتاہے؟آپ کہیے کہ بھلایہ تو بتلاؤکہ اگراللہ چاہے توقیامت تک تم پردن ہی دن رہنے دے تواس کے سواکون رات لاسکتاہے،جس میں تم آرام پاؤتوکیاتم دیکھتے نہیں ؟گویا حق تعالیٰ کو پوری قدرت ہے وہ اگر چاہے تو وقت کوروک سکتا ہے۔
ہماراروزمرہ کامشاہدہ ہے کہ ایک گھر میں بیک وقت بلب جل رہے ہیں،پنکھے(سیلنگ فین) سے ہواصاف ہورہی ہے، ریڈیو سنااورٹیلی وژن دیکھاجارہا ہے، ٹیلی فون پرگفتگو ہو رہی ہے،فریج میں کھانے کی چیزیں محفوظ کی جارہی ہیں، ائیرکنڈیشنڈسے کمرہ ٹھنڈاہورہاہے،ٹیپ ریکارڈر پرمختلف پروگرامزٹیپ ہورہے ہیں، گرائنڈر میں مصالے پس رہے ہیں ، استری سے کپڑوں کی شکنیں دور ہورہی ہیں،سی ڈی پلیئرز پرفلمیں دیکھی جارہی ہیں،وغیرہ وغیرہ۔کسی نے بڑھ کر مین سوئچ آف کردیا،پھرکیاتھا،لمحوں میں ہرچیز نے کام کرنا بند کردیا۔معلوم ہوایہ تمام کرنٹ کی کارفرمائی تھی۔یہی حال کارخانوں کا ہے۔ کپڑابنااور دیگراشیا تیارہورہی ہیں،جیسے ہی بجلی غائب ہوئی،سب کچھ رک گیا،جونہی کرنٹ آیاہرچیز پھر سے کام کرنے لگی۔آج کاانسان ان روزمرہ کے مشاہدات کے پیشِ نظر واقعہ معراج کی روایات کی صداقت کاادراک کر سکتا ہے۔ روایتیں ملتی ہیں کہ سرورِکائناتﷺجب سفر ِمعراج سے واپس تشریف لائے توبسترکی گرمی اسی طرح باقی تھی،وضوکاپانی ہنوزبہہ رہاتھا،کنڈی ابھی ہل رہی تھی۔چودہ سوسال پہلے اس پریقین لانا ناممکنات میں سے تھا لیکن آج یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔کرنٹ کی مثال سے یہ سمجھا جاسکتا ہے، اس پرقابوپالینے سے کیسے ہرکام معطل ہوسکتا ہے۔اسی طرح وقت پرقابوپالیاجائے توہرچیز ٹھہر جاتی ہے۔ ممکن ہے معراج کی شب نظامِ زمان ومکان معطل کردیاگیاہو،وقت رک گیاہو۔کیا یہ خالقِ کائنات،نظامِ زمان ومکان کے مالک کیلئے کچھ مشکل تھا؟پھرجب انسانی صنعت سے خلائی جہاز چاند، زہرہ اورمریخ تک پہنچ سکتے ہیں توربانی طاقت اورلاانتہا قدرت رکھنے والے کے حکم سے کیااس کے رسولﷺشب معراج میں آسمانوں کوطے کرکے سدر المنتہیٰ تک نہیں پہنچ سکتے؟ہے کوئی سوچنے والا؟
یہ جدید ذہن کے عقلی اشکالات کے جواب میں معراج کی ممکنہ عقلی توجیہات تھیں کہ آج کے دورمیں ایسے معاملات کوسمجھنا مشکل نہیں اورایسے اعمال کا ہونامحال یاناممکن نہیں کہا جاسکتا ورنہ مذہبی عقائدمشاہدات کانہیں ایمان باالغیب کا تقاضہ کرتے ہیں ۔یہ مسئلہ خالص یقین واعتقاد کا ہے، جب توحیدو رسالت مستند ذرائع سے ثابت ہو جائے توپھران پر ایمان لانااوراس کی حقیقت و کیفیت کوعلمِ الہٰی کے سپر دکردیناہی عین عبادت ہے،یہ لازمی نہیں ہوتا کہ ایک مافوق الفطرت کی ہربات فطرت کے مطابق بھی ہو،اس لیے ایمان کا حکم پہلے ہے۔نبوت،وحی اورمعجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل وقیاس سے باہرکی چیزیں ہیں جوشخص ان چیزوں کوقیاس کے تابع اوراپنی عقل وفہم پرموقوف رکھے اورکہے کہ یہ چیزجب تک عقل میں نہ آئے،میں اس کونہیں مانوں گا،توسمجھنا چاہیے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم رہا۔اللہ رب العزت ہمارے دلوں پردین پرجمائے رکھے۔
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی ﷺہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفل دروازوں کو کھولنے کی اِبتدا کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلا میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سراِنجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ رب العزت حضور رحمتِ عالم ﷺکو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجدِ اقصی تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات (Cosmos) کی بے انت وسعتوں کے اس پارقاب قوسینِ اورودنکے مقاماتِ بلند تک لے گیااورآپ مدتوں وہاں قیام کے بعداسی قلیل مدتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ افروز بھی ہوگئے۔
آج سے چودہ سو سال قبل علومِ اِنسانی میں اِتنی وسعت تھی اور نہ اِتنی گیرائی اور گہرائی کہ معجزاتِ رسول ﷺکا کوئی ادنی جزو ہی ان کے فہم و اِدراک میں آ جاتا حتی کہ اس وقت بہت سے علومِ جدیدہ کی مبادیات تک کا بھی دوردورتک کہیں نام و نشان نہ تھا۔ آج عقلِ اِنسانی اپنے اِرتقا، اپنی تحقیق اورجستجو کے بل بوتے پر جن کائناتی صداقتوں اورسچائیوں کوتسلیم کر رہی ہے، ہزاروں سال قبل اِن کی تصدیق و توثیق وحئی اِلٰہی کے بغیر ممکن نہ تھی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اس کیلئے کے ذریعے معراج کی

پڑھیں:

آغا راحت نے پورے گلگت بلتستان کے عوام کی ترجمانی کی ہے، عطاء اللہ

سینئر رہنماء پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان و امیدوار گلگت بلتستان اسمبلی حلقہ 2 چلاس نے ایک بیان میں کہا کہ سیکریٹری ثناء اللہ نے گلگت بلتستان کے ہر محکمے میں جہاں انکی پوسٹنگ ہوئی ہیں تباہی کے دانے پر پہنچا دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سینئر رہنماء پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان و امیدوار گلگت بلتستان اسمبلی حلقہ 2 چلاس عطاء اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آغا راحت الحسینی کے گزشتہ جمعہ کے بیان پر صوبائی وزیر زراعت انجینئر محمد انور کے ردعمل پر حیرانگی ہوئی ہے، صوبائی وزیر موصوف نے ہمیشہ ایک کرپٹ اقرباء پرور تعصبی سیکریٹری کی پشت پناہی کی ہے، سیکریٹری ثناء اللہ نے گلگت بلتستان کے ہر محکمے میں جہاں انکی پوسٹنگ ہوئی ہیں تباہی کے دانے پر پہنچا دیا ہے۔ حاجی ثناء اللہ جب سیکریٹری تعلیم تھے تو محکمہ تعلیم میں غیر قانونی اور جعلی سرٹیفکیٹس پر بھرتیوں کی بھرمار کر کے نظام تعلیم کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا، خاص طور پر ضلع دیامر میں تعلیمی نظام انکی وجہ سے برباد ہوا جس کی واضح مثال ایلیمنٹری بورڈ کا رزلٹ ہے اور جب محکمہ صحت میں سیکریٹری تعینات ہوئے تو اربوں کی مشینری کی خرید و فروخت میں کرپشن کا بازار گرم کر دیا، ابھی سیکرٹری برقیات ہیں تو خالی کاغذی اسسٹیمینٹس کی ایڈمن اپروول دے کر کروڑوں روپے کی کرپشن میں مصروف عمل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکریٹری ثناء اللہ نے اپنے ساتھ مختلف ڈیلینگ کیلئے اپنے چھوٹے بھائی جو سرکاری ملازم بھی ہے ان کے ساتھ اپنے رشتہ داروں پر مشتمل ایک مخصوص ٹیم بنا رکھی ہے جو مختلف ٹھیکیداروں سے ٹھیکوں کی مد میں اور آفیسروں سے پوسٹنگ ٹرانسفری کی ڈیل کر کے گارنٹی پہ غیر قانونی کام کروانے کے ساتھ پیسے بھی بٹور رہے ہیں، ان کی دو نمبری سے گلگت بلتستان واقف ہے، صوبائی وزیر اور سیکریٹری ثناء اللہ کے خاندان نے ہمیشہ فرقہ واریت اور لسانیت کی سوچ کو فروغ دے کر پورے گلگت بلتستان کو اپنے نرغے میں رکھنے کی کوشش کی ہے، ان کی باتوں سے دیامر کے عوام کو کوئی سروکار نہیں، اب دیامر کے عوام یہ جان چکے ہیں اب یہ مافیا پورے گلگت بلتستان کو نگلنے پر تلا ہوا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آغا راحت نے جو کچھ کہا ہے ہم اس کی مکمل تائید کرتے ہوئے متعلقہ اداروں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ سید راحت نے جو باتیں کی ہیں ان پر بلاتفریق مکمل تحقیقات کر کے ملوث سیکریٹری اور وزیر اعلیٰ کو قرار واقعی سزا دی جائے، آغا راحت نے پورے گلگت بلتستان کے مظلوم عوام کی ترجمانی کی ہے جو ان سے ان کے ممبر و محراب کا تقاضا بھی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ن لیگ اور پی پی کا پانی کے مسئلے پر مشاورتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق
  • آغا راحت نے پورے گلگت بلتستان کے عوام کی ترجمانی کی ہے، عطاء اللہ
  • ہم موجودہ حالات میں اپوزیشن اتحاد کے حق میں نہیں، حافظ حمد اللہ
  • یہودیوں کا انجام
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • کار مسلسل
  • پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے: رانا ثنا اللہ
  • ‎کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا؛ رانا ثناء اللہ
  • کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے
  • تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی کا لازم فریضہ