پاکستان اور بنگلہ دیش کے تجارتی تعلقات مستحکم، بھارت کی بے بنیاد مہم بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اگست 2024 میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست تجارتی روابط قائم ہوئے۔
پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال حسین خان نے انکشاف کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 7 ماہ کے دوران دوطرفہ تجارت ایک ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جو اس سے قبل نہ ہونے کے برابر تھی۔
تاہم، بھارت اس تیزی سے فروغ پاتے اقتصادی تعاون سے ناخوش نظر آتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کے لیے مختلف پروپیگنڈا مہم چلا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کی معیشت کئی بڑے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات پر انحصار کرتی ہے۔ بھارت اور چین اس کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنرز ہیں، جبکہ ترکی، جرمنی اور اسپین بھی اہم اقتصادی شراکت داروں میں شامل ہیں۔
بنگلہ دیش بنک ڈیٹا کے مطابق ملک کی تقریباً 15 فیصد درآمدات بھارت سے ہوتی ہیں، جن میں زیادہ تر اشیائے خورونوش شامل ہیں، جبکہ چین سے تقریباً 27 فیصد درآمدات آتی ہیں، خاص طور پر مشینری، الیکٹرانکس اور ٹیکسٹائل کے خام مال کی صورت میں۔
تاہم، حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش نے اپنی تجارتی پالیسیوں میں تبدیلی کی اور پاکستان کے ساتھ تجارت میں نمایاں اضافہ کیا۔
پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کے آغاز کے بعد بنگلہ دیش نے پاکستان سے مختلف مصنوعات کی درآمد شروع کی، جن میں سب سے زیادہ کارٹن، چاول، ٹیکسٹائل کے خام مال، کیمیکل، سیمنٹ اور کھیلوں کا سامان شامل ہیں۔
پاکستان نے تقریباً 2 دہائیوں بعد بنگلہ دیش کو 26 ہزار میٹرک ٹن چاول کی پہلی کھیپ اپنی قومی بحری کمپنی کے ذریعے برآمد کی ہے۔ فروری کے اوائل میں حتمی شکل دیے گئے نئے معاہدے کے تحت بنگلہ دیش، ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ذریعے پاکستانی سفید چاول 499 ڈالر فی ٹن کے حساب سے خرید رہا ہے۔
بھارت کی تشویش کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے تجارتی افق میں پاکستان کی موجودگی مضبوط ہو رہی ہے، جو خطے میں بھارت کی اجارہ داری کو کمزور کر سکتی ہے۔
حسینہ واجد کی حکومت کے دوران بنگلہ دیش نے بھارت کی حمایت یافتہ پالیسیوں کو جاری رکھا، لیکن نئی حکومت کے تحت پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
اس صورتحال میں بھارتی میڈیا نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش پاکستان کو اپنا نیا تجارتی پارٹنر بنانے میں ناکام ہو گیا اور دوبارہ بھارت پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔
اس پروپیگنڈے کو مستند بنانے کے لیے بھارتی میڈیا نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے 7 ماہ کے تجارتی اعدادوشمار کا موازنہ بھارت اور بنگلہ دیش کے پچھلے 50 سالہ تجارتی حجم سے کیا، جو حقیقت کے برعکس اور غیرمناسب ہے۔
اصل صورتحال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی بھارت سے بنیادی درآمدات کبھی بند ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان درآمدات کے لئے بنگلہ دیش نے پاکستان کا رخ کیا، بلکہ اس کی تجارت معمول کے مطابق جاری ہے۔
بنگلہ دیش بھارت سے زیادہ تر اشیا خورد و نوش درآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان سے زیادہ تر کارٹن، ٹیکسٹائل، کھیلوں کا سامان، ادویات، کیمیکلز، فرٹیلائزرز اور چاول کی درآمدات کی جا رہی ہے۔
بھارت کی اجارہ داری کو کم کرنے کے لیے بنگلہ دیش نے ترکی، جرمنی، چین اور اسپین سے بھی اشیا خورد و نوش کی درآمد شروع کر دی ہے۔
بنگلہ دیش نے انڈین مارکیٹ میں آلو اور پیاز کی قیمتوں میں اچانک اضافے اور ایکسپورٹ کی قدغن لگنے کے بعد جرمنی، اسپین، چائنہ اور مصر سے آلو جبکہ چائنہ پاکستان اور ترکی سے پیاز کی درآمدات انڈیا سے کم قیمت پر کی ہے۔
جبکہ بھارت نے سفارتی سطح پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی اور یہ پیغام دیا کہ بنگلہ دیش کو پاکستان کے بجائے بھارت پر ہی انحصار کرنا چاہیے۔
بھارت نے FY 24 میں بنگلہ دیش کو 5,620 اشیا کی برآمدات کی۔ مالی سال 2023 میں 12.
مالی سال 2025 کے آخری 5 ماہ کے اعداد و شمار آنے کے بعد مجموعی موازنہ پچھلے مالی سال کے ساتھ کیا جا سکے گا۔ بھارت بنگلہ دیش کو سب سے زیادہ مالیت والی چیز کاٹن (تقریبا 2 بلین ڈالر) برآمد کرتا تھا۔
اس مالی سال میں بھارت بنگلہ دیش کو 1.52 بلین ڈالر کی کاٹن برآمد کر چکا ہے۔ اگر بھارت کی بنگلہ دیش کو کی جانے والی برآمدات متاثر ہوئیں تو FY 25 کے آخری 5 ماہ کی ہوں گی۔ جن میں بنگلہ دیش نے اشیا خردونوش کے لئے دیگر مالک جبکہ کاٹن اور چاول کے لئے پاکستان کا رخ کیا۔
بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ تجارت کو بھارت کی جگہ لینے کے لیے نہیں بلکہ اپنی اقتصادی تنوع بڑھانے کے لیے اپنایا ہے۔ بھارت سے اشیائے خورونوش کی درآمد بدستور جاری ہے، جبکہ پاکستان سے بالکل مختلف اشیا منگوائی جا رہی ہیں۔
اس حوالے سے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر کے پریس سیکرٹری شفیق العالم نے تصدیق کی کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات معمول کے مطابق چل رہے ہیں اور عبوری حکومت کے دور میں تجارت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
اگر بنگلہ دیش پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ مزید تجارتی معاہدے کرتا ہے اور بھارت پر انحصار مزید کم ہوتا ہے، تو یہ نئی اقتصادی حکمت عملی بھارت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔
چین پہلے ہی بنگلہ دیش کی معیشت میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے، اور اگر پاکستان بھی تجارتی شراکت دار کے طور پر ابھرتا ہے تو بھارت کی پوزیشن مزید کمزور ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت جنوبی ایشیا کے تجارتی منظرنامے میں ایک بڑی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے۔ بھارت اس تبدیلی سے ناخوش ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپنا رہا ہے۔
تاہم، اقتصادی حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش اپنی تجارتی حکمت عملی کو متنوع بنا رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ تجارت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے پاکستان کے ساتھ تجارت بنگلہ دیش نے بنگلہ دیش کو کہ بنگلہ دیش نے پاکستان بلین ڈالر کے درمیان کے تجارتی مالی سال سے زیادہ کے مطابق حکومت کے بھارت سے بھارت کی ممالک کے سکتی ہے کے لیے رہا ہے ہے اور کے بعد اور اس
پڑھیں:
بنگلہ دیش سے تعلق سبوتاژ کرنے کی بھارتی کوششیں ناکام ہونگی‘ دفتر خارجہ
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی +نوائے وقت رپورٹ) دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ پاکستان کے خلاف بیان بازی کرنے کے بجائے دہشت گردی کی سرپرستی کرنا ختم کرے۔ ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کا نوٹس لیا ہے، انہوں نے پاکستان پر متعدد الزامات عائد کیے ہیں۔ شفقت علی خان نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ ہر موقع پر پاکستان کے حوالے سے بیان بازی کرتے رہتے ہیں، انہیں بھارت کی دہشت گردی کی سرپرستی ختم کرنے اور بیرون ممالک قتل عام پر توجہ دینا چاہیے۔ جعفر ایکسپریس دہشت گردی کے حوالے سے ابھی تحقیقات جاری ہیں، اس دہشت گردی میں ملوث دہشت گرد افغانستان میں اپنے ہینڈلرز کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کا اصول ہے کہ ہم تمام ممالک سے بہتر تعلقات رکھیں۔ چین ہمارا ایک دیرینہ دوست ہے اور پاک امریکہ تعلقات دہائیوں پرانے تعلقات ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے ہسپتالوں کو نشانہ بنانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، غزہ کے لوگوں کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق حق خودارادیت ملنا چاہیے۔ علاوہ ازیں ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کا کہنا ہے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری کا عمل سبوتاژ کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔ ایسی من گھڑت رپورٹس کو مسترد کرتے ہیں جو تعلقات کی بہتری کو نقصان پہنچائیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان 15 سال بعد خارجہ سیکرٹری مذاکرات میں کچھ دیرینہ معاملات پر دونوں ممالک نے اپنے موقف واضح انداز میں پیش کیے۔ مذاکرات کا مقصد تعلقات کو بہتر بنانا اور باہمی اعتماد کی فضا کو فروغ دینا تھا۔ دوسری جانب پاکستان اور بنگلادیش کے درمیان خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کے حوالے سے بنگلادیش کے سیکرٹری خارجہ جاسم الدین کا کہنا ہے کہ ماضی کے حل طلب مسائل جلد از جلد حل کرکے فلاحی اور دو طرفہ تعلقات کی راہ ہموار کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ 27 اور 28 اپریل کو بنگلادیش کا دورہ کریں گے۔ دریں اثنا نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار آج اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ افغانستان کا ایک روزہ دورہ کریں گے۔ دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کریں گے۔ نائب وزیراعظم کا دورہ برادر ملک افغانستان کے ساتھ پائیدار روابط بڑھانے کے لیے پاکستان کے عزم کا عکاس ہے۔علاوہ ازیں اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان سے متعلق بین الوزارتی اجلاس میں غور کیا گیا۔ اجلاس میں خصوصی نمائندہ برائے افغانستان بھی شریک ہوئے۔