خودمختاری اور آزادی کا خواب
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
محمد ایوب خان مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’دنیا آج مساوات کے لیے لڑ رہی ہے۔ افراد کے درمیان مساوات اور اقوام کے درمیان مساوات، خواہ وہ بڑی ہوں یا چھوٹی، اس لیے ضروری ہے کہ تمام دنیا صاف صاف اس بات کو تسلیم کرے کہ ہر قوم مساویانہ حقوق اور مواقع کی مستحق ہے۔ دنیا کے ملکوں کی آزادی اور خودمختاری کی، ان کے رقبے (اور) وسائل کی بنیاد پر درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ یہ بڑی صاف بات ہے اور کوئی بھی اس سے انکار کی جرأت نہیں کرے گا۔ یہ دنیا بڑوں ہی بڑوں کی دنیا ہے، خواہ وہ دو بڑے ہوں یا تین بڑے، یا چار بڑے، یا اور بھی زیادہ۔ یہی دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ملک، خصوصاً وہ جو ابھی صنعتی ترقی کی ابتدائی منزلیں طے کر رہے ہیں، انہوں نے غلامی کا طوق تو اتار پھینکا ہے لیکن ابھی ان میں سے اکثر اپنی فضا کو سامراجی اثرات سے پاک صاف کر کے اپنے انفرادی وجود اور تصورات کو ابھار نہیں سکے۔ ہمیں بھی اپنی انفرادیت کو تسلیم کرانا اور ایک مساوی اور باوقار حیثیت حاصل کرنے کے لیے لڑنا ہے۔ بھارت نے شروع ہی سے ہماری راہ میں مشکلات پیدا کرنے کی ٹھان رکھی ہے، اس نے ہمارے لیے پناہ گیروں کی بحالی کا زبردست مسئلہ اس لیے پیدا کیا تھا کہ ہماری معیشت مفلوج ہو کر رہ جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ہمیں وہ ساز و سامان دینے سے بھی انکار کر دیا جس میں ملک کی تقسیم سے پہلے ہمارا حصہ تھا۔ اس نے ہمیں ان دریاؤں کے بہاؤ کا رخ بدل دینے اور ان کا پانی روک لینے کی دھمکی دی جو ہمارے ملک میں بہتے ہیں۔ پھر اس نے تمام معاہدوں اور اصولوں کے خلاف جموں و کشمیر کی ریاست کے ایک بڑے حصے پر بزور قبضہ کر لیا اور اپنی فوجیں وہاں جمع کر کے ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ پیدا کر دیا۔ ان سب باتوں کی تہہ میں بھارت کی یہ ہوس کار فرما تھی کہ وہ یا تو پاکستان کو اپنے میں جذب کر لے یا اسے اپنا حاشیہ نشین بنا لے۔ بھارتی لیڈروں نے اپنے ارادوں کو ڈھکا چھپا نہیں رکھا تھا۔ اچاریہ کرپلانی نے، جو ۱۹۴۷ء میں انڈین نیشننل کانگرس کے صدر تھے، علی الاعلان کہا ’’نہ تو کانگریس اور نہ قوم اکھنڈ بھارت سے دستبردار ہوئی۔‘‘
’’اس زمانے میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے، جو پہلے انڈین ہوم منسٹر تھے اور کانگرس پارٹی کے مرد آہن کہلاتے تھے، یہ کہا تھا ’’بہت دیر نہ گزرے گی کہ ہم دوبارہ ایک ہو کر اپنے ملک کی اطاعت گزاری میں باہم شریک ہو جائیں گے۔‘‘
’’میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۴ء کا جو زمانہ گزرا، اس میں ہمیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں کیسی تشویش پیدا ہو گئی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے امریکہ نے اپنی حکمتِ عملی کو حالات کے تابع کر دیا ہے۔ نیز یہ کہ جو تبدیلیاں وہ کر رہا ہے ان سے امریکی پالیسیوں اور پروگراموں کے اخلاقی پہلوؤں کی بابت لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو سخت مایوسی ہو رہی تھی۔ ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے درمیانی عرصے میں امریکہ اور پاکستان میں بڑی محنتوں سے جو رشتہ قائم ہوا تھا اب لوگوں کے دلوں سے اس کا احترام اٹھتا جا رہا تھا۔ ہم ہندوستان کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے چشم پوشی نہیں کر سکتے تھے، نہ ہندوستان کے حملے کی صورت میں امریکہ کی امداد پر بھروسہ کر سکتے تھے۔ امریکہ جس پالیسی پر عمل کر رہا تھا، ہم جانتے تھے کہ اس سے آگے چل کر ایشیا میں اس کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ لیکن ہمارے پاس امریکہ کو اس پالیسی سے باز رکھنے کے ذرائع نہیں تھے۔ امریکی حکومت کے دل و دماغ میں چین کا خطرہ چھایا ہوا تھا اور وہ ہندوستان سے بے اختیارانہ آس لگا رہی تھی کہ ہندوستان چینی خطرے کا توڑ ثابت ہوگا۔‘‘
’’ادھر پچھلے دس برس میں امریکہ کی پالیسیوں میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوئیں، جو ہندوستان کے بالمقابل امریکہ کے اتحادی پاکستان کے لیے متواتر نقصان کا باعث ہوتی رہیں۔ جب ہم نے پہلے پہل امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا تھا تو اس غیر جانبداری کو، جسے ہندوستان ’’ناطرفداری‘‘ کے نام سے موسوم کرنا زیادہ پسند کرتا تھا، امریکہ میں شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ بلکہ درحقیقت ’’غیر اخلاقی‘‘ سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ دونوں فریقوں کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرو۔‘‘
محمد ایوب خان مرحوم کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں یہ اقتباسات ہم نے اس لیے پیش کیے ہیں تاکہ مسٹر ہالبروک پر یہ بات واضح ہو کہ انہیں آقا کے بجائے دوست بننے کا جو مشورہ دیا گیا ہے وہ آج کا نہیں ہے بلکہ نصف صدی پہلے ان کے ملک سے یہ گزارش کی گئی تھی اور اس کے اسباب بھی واضح کر دیے گئے تھے۔ پاکستان کے حالات، امریکی پالیسیاں، اور پاکستانیوں کے جذبات آج بھی اسی طرح ہیں جیسے نصف صدی پہلے تھے۔ ان کی شدت میں تو کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن ان میں کوئی فرق اور تغیر نہیں آیا۔ امریکہ کے لیے ہمارے جذبات وہی ہیں، اور پیغام بھی وہی ہے جو ہمارے سابق صدر جناب محمد ایوب خان مرحوم نے ۱۲ جولائی ۱۹۶۱ء کو امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں دیا تھا۔ ایوب خان مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’میں نے کانگرس کو اس کی ذمہ داریاں اور اس کے عالمی فرائض یاد دلائے۔ جب میں نے کہا کہ ’’جو لوگ آپ کا ساتھ دیں گے وہ پاکستان ہی کے لوگ ہوں گے‘‘ تو اس پر بڑی تالیاں بجائی گئیں، لیکن ابھی ان تالیوں کا شور تھمنے نہ پایا تھا کہ میں نے اتنا اور بڑھا دیا کہ ’’بشرطیکہ ۔ ۔ ۔ بشرطیکہ آپ بھی پاکستان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں۔ چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی مصلحت کے تقاضے کچھ بھی ہوں، آپ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جو ہمارے مسائل کو مشکل بنا دے یا ہماری سلامتی کو کسی قسم کے خطرے میں ڈال دے۔ جب تک آپ اس بات کو یاد رکھیں گے ہماری دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی‘‘۔
جناب ہالبروک سے گزارش ہے کہ وہ امریکی کانگرس کے سامنے پاکستان کے صدر کے ۱۲ جولائی ۱۹۶۱ء کے اس خطاب کو ایک بار پھر پڑھ دیں اور عزت مآب باراک حسین اوباما کو بھی پڑھا دیں۔ کیونکہ پاکستان کے حکمران کچھ بھی کرتے رہیں مگر پاکستانی قوم کے ذہن نصف صدی بعد بھی ’’بشرطیکہ ۔ ۔ ۔ بشرطیکہ‘‘ کے اسی نکتے پر اٹکے ہوئے ہیں۔ اور ’’بشرطیکہ‘‘ تقاضوں کی طرف توجہ دیے بغیر امریکی حکمرانوں کو پاکستانی قوم سے اس کے غصے اور نفرت کے جذبات میں کمی کی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایوب خان مرحوم پاکستان کے امریکہ کے کے لیے
پڑھیں:
او آئی سی انجمن غلامان امریکہ ہے، یمن اور ایران مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، مشتاق احمد
اسلام آباد میں ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام کربلائے عصر فلسطین سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما کا کہنا تھا کہ کہ اب یمن اور ایران پر امریکہ کی مدد سے حملے کی منصوبہ ہو رہی ہے، اور جو اس منصوبے میں مدد کرے وہ رسول اللہ کا دشمن ہوگا، آج ایران اور یمن کو فلسطینی حمایت کی سزا دی جارہی ہے، ہم ایران اور یمن کے ساتھ کھڑے ہیں، فوری طور پر غزہ جنگ بندی کی جائے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما سابق سینیٹر مشتاق احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں موجود ہر فرد اپنی ذات میں انجمن ہے، دشمن کا سب سے بڑا ہمارے خلاف ہتھیار انتشار ہے اور ہمارا سب سے بڑا ہتھیار اتفاق و اتحاد ہے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور آپ کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں، یہ انسانی تاریخ کا تاریخی نسل کشی ہے، جسے ہر انسان اپنے موبائل اور ٹی وی پر دیکھ رہا ہے، چند دن پہلے یو این نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل نے چار ہزار مائوں کے پیٹ میں موجود بچوں کو شہید کیا ہے، یہ ایک تاریخی نسل کشی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اسرائیل نے نسل کشی کے ساتھ تیس لاکھ درخت بھی کاٹے ہیں تاکہ زندگی کے آثار ختم کیے جا سکیں، یحیٰ سنوار، سید عباس موسوی اور سید حسن نصراللہ کے ماننے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں، آج غزہ جیت چکا ہے، سید حسن نصراللہ جیت چکا ہے، یحیٰ سنوار جیت چکا ہے، امریکہ اسرائیل اور اُن کے حواریوں کی شکست ہوگی، علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں آج کے یحیٰ سنوار سید حسن نصراللہ کو مرد حر سے یاد کیا ہے، جو صرف خدا سے ڈرتا ہے اور کسی سے نہیں ڈرتا، آج پوری دنیا کے مسلمان سر جھکائے کھڑ ے ہیں لیکن یہ سر اُٹھائے کھڑے ہیں۔ او آئی سی انجمن غلامان امریکہ ہے۔
ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے اسلام آباد میں منعقد کربلائے عصر فلسطین سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے مزید کہا کہ آج کے مسلمانوں نے بیت المقدس کو فروخت کردیا ہے لیکن ان شہداء نے اپنے خون سے ایک تاریخ رقم کردی ہے، اگر خدانخواستہ غزہ ختم ہوگیا تو بیت المقدس ختم ہو جائے گا اور بیت اللہ بھی نہیں بچے گا، کیا آج جہاد حماس، حزب اللہ، ایران اور یمن پر فرض ہے یا باقی ستاون ممالک پر بھی فرض ہے، آج جہاد واجب ہو چکا ہے اور خاموش تماشائی ممالک اللہ اور اُس کے رسول کے نزدیک مجرم ہیں، مسلم ممالک کی غیرجانبداری کا مطلب دشمن کی صفوں میں موجودگی ہے، آج ہم سوگ، غم اور ماتم کی حالت میں ہیں، لاشیں ہمارے گھر میں ہیں لیکن مصر اور اُردن کہتا ہے کہ ہمیں مزاحمت سے پیچھے ہٹنا ہوگا، ہم کبھی بھی مزاحمت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، جب ایران نے اسرائیل پر پہلا حملہ کیا تو رات کو ایک بجے موبائل پر دیکھا کہ ایران نے حملہ کیا اور اُردن نے ڈرون کے ذریعے مقابلہ کیا ہے، میں نے اُردن کے بادشاہ کو غدار ابن غدار لکھا حالانکہ مجھے لوگ روکتے رہے لیکن میں نے کہا کہ ہم مزاحمت کے ساتھ ہیں، شاہ عبداللہ کے ذریعے سے ہمیں جنگی سازو سامان ملتا ہے اس سے ہمارے تعلقات خراب ہوتے ہیں، میں نے کہا کہ فلسطین ہماری روح ہے اور روح برائے فروخت نہیں ہے ہم کبھی اپنی روح کا سودا نہیں کریں گے۔
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ہم پاکستان میں کسی کو اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے، پاکستان سے گیارہ افراد نے شراکہ کے تعاون سے اسرائیل کا دورہ کیا ہے، میرا مطالبہ ہے کہ ان کے چہرے اور پاسپورٹ سامنے لائے جائیں انہوں نے ملک کے ساتھ غداری کی ہے لیکن ابھی تک حکومت ان کو منظرعام پر نہیں لائی، حکومت افغانستان سے کمانڈر کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر سکتے ہیں تو ان گیارہ ملک دشمنوں کے نام سامنے کیوں نے نہیں لاتے اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی سپورٹ ان ملک دشمنوں کو حاصل ہے۔
پاکستان میں غیرملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے پر مقدمات درج کیے جارہے ہیں، اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے رہنما دانیال کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، آپ نے اسلام آباد کو اسرائیل کے لیے غزہ بنادیا ہے، اس وقت امریکی و اسرائیلی لابی متحرک ہے، مجھ پر اور میری بیوی پر سات دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں اور مجھے اڈیالہ جیل میں بند کیا گیا ہے، میرا قصور اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنا ہے، 5 اپریل کو یو این میں پیش ہونے والی قرارداد کی پاکستان نے حمایت کی ہے، آنکھیں کھولیں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ حق کا ساتھ دیں، دشمن کی سازشوں کو سمجھو، اگر یہ حکمران خود کچھ نہیں کر سکتے توکم از کم بارڈر کھول دیں، ہمارے حکمران نہ خود اسرائیل کے خلاف لڑتے ہیں نہ ہمیں لڑنے دیتے ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد نے مزید کہا کہ اب یمن اور ایران پر امریکہ کی مدد سے حملے کی منصوبہ ہو رہی ہے اور جو اس منصوبے میں مدد کرے وہ رسول اللہ کا دشمن ہوگا، آج ایران اور یمن کو فلسطینی حمایت کی سزا دی جارہی ہے، ہم ایران اور یمن کے ساتھ کھڑے ہیں، فوری طور پر غزہ جنگ بندی کی جائے، غزہ کی بحری، فضائی اور زمینی راستے سامان، خوراک پہنچائی جائے، غزہ کے تحفظ کے او آئی سی اپنی افواج غزہ میں بھیجے، حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام آباد سے امریکی سفیر کو بیدخل کیا جائے، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اور فلسطینیوں کی حمایت کرو اور عطیات جمع کرو، اسلام آباد میں موجود امریکی سفارتخانے باہر پُرامن دھرنا دیا جائے۔