جنگ آزادی کا سپاہی طورے باز طرم خان کیسے بنا؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
لوگوں کی اکثریت میں طرم خان کا نام ناقابل شکست حوصلے، بہادری، اور جدوجہد کی مثال سمجھا جاتا ہے۔ اردو زبان میں آپ نے، ’’تو بڑا طرم خان بنتا ہے‘‘ یا ’’ایڈا تو طرم خان‘‘ کے محاورے اکثر سنے ہوں گے۔ ہمارے اردو اور پنجابی ادب میں طرم خان کا نام ایک استعارے اور استہزا کے حوالے سے مشہور ہو گیا ہے۔ اس لئے کہ اب طرم خان ہمارے لئے ایک عام انسان نہیں رہا ہے بلکہ وہ ایک لازوال کردار ہے جو ایک محاورے میں ڈھل کر ہماری لوک داستانوں میں ایک ہیرو کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی آزادی سے پہلے طرم خان طورے باز یا طورہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پشتو زبان میں طورہ تلوار کو کہتے ہیں یوں طورہ یا طورے باز کا مطلب تلوار چلانے والا یا شمشیر زن ہے۔ یہی طورے باز اپنے آغاز میں محض ایک گمنام سپاہی تھا۔ لیکن وہ اپنے استقلال اور شجاعت کی وجہ سے طرم خان کے روپ میں ایک اساطیری کردار بن گیا۔ یہ کہانی جتنی عجیب اور سنسنی خیز ہے، اتنی ہی دلچسپ اور معنوی بھی ہے کہ 1857 ء کی جنگ آزادی کے دوران ریاستِ حیدرآباد دکن کا نواب، جو نظام دکن کہلاتا تھا، وہ برطانوی سامراج کا اتحادی تھا اور اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ کوئی بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن جب انگریز کے خلاف تحریک آزادی کے نعرے ہندوستان کے گلی کوچوں تک پہنچے تو اس کی بازگشت نے نظام حیدر آباد کے در و دیوار کو بھی متاثر کیا۔ یہاں بیگم بازار کا ایک عام سپاہی طورے باز خان نہ صرف باغیوں کی قیادت کرتا تھا بلکہ اس نے چھ ہزار مظاہرین کو لے کر حیدر آباد میں برٹش ریذیڈنسی پر حملہ کر دیا تھا۔ جنگ آزادی کے شعلے جب میرٹھ سے حیدر آباد پہنچے تو حیدرآباد کی مساجد، مندروں، گوردواروں اور چرچوں کی دیواروں پر اشتہارات سج گئے، جن میں نہ صرف انگریز کے خلاف بغاوت کے حق میں نعرے درج تھے بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ نظام بھی اس جنگ میں شریک ہو۔ حالانکہ نظام افضل الدولہ اپنے رفقا، سالارِ جنگ، امرا اور سرداروں کے ساتھ انگریزوں کی حمایت کا اعلان کر چکا تھا، مگر پھر بھی ریاست کے باشندوں نے اس جنگ میں ایک ایسی کہانی رقم کی جس نے انگریزوں کے ساتھ ساتھ نظام کے راج کی چولیں بھی ہلا کر رکھ دیں جس کا سارا سہرا طرم خان پر سجتا ہے.
چھیدا خان اپنے 15 دیگر ساتھیوں کے ساتھ حیدرآباد پہنچا تاکہ وہ نظام کو قائل کر سکے کہ وہ اس جنگ میں شامل نہ ہو لیکن جیسے ہی وہ حیدر آباد پہنچا اسے نظام کے وزیر میر تراب علی خان نے گرفتار کر کے انگریزوں کے نمائندے کے آگے پیش کر دیا جس نے اسے اور ان کے ساتھیوں کو اپنی ہی کوٹھی میں قید کر لیا۔ جب یہ خبر پھیلی تو انگریز کے خلاف عوام میں نفرت پھیل گئی۔ اس موقعے پر طرے باز خان نے باغیوں کی قیادت سنبھال کر بیگم بازار میں، جہاں جمعدار چھیدا خان اور اس کے ساتھیوں کو قید کیا گیا تھا، اپنے پانچ ہزار ساتھیوں کے ساتھ ہلہ بول دیا۔
اس موقعے پر مولوی اللہ الدین بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ طرے باز خان کی حمایت میں پہنچ گیا، مگر نظام کا وزیر میر تراب علی خان انگریز میجر کتھبرٹ ڈیوڈسن کو پہلے ہی باغیوں کے حملے کی اطلاع دے چکا تھا جس کی وجہ سے انگریزوں نے جوابی اقدامات کی تیاری کر لی تھی۔ طرے باز خان اور مولوی اللہ الدین کے ساتھیوں نے انگریز ریزیڈنسی کی دیوار گرا دی اور دروازے کو توڑتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ اندر داخل ہوتے ہی دو طرفہ لڑائی شروع ہو گئی لیکن طرے خان کے ساتھیوں کے پاس ہلکے ہتھیار تھے جو انگریز کی تربیت یافتہ مدراس آرٹلری کے سپاہیوں کے مقابلے پر ناکارہ تھے۔ پھر بھی تمام رات گولیاں چلتی رہیں اور مقابلہ ہوتا رہا۔ بالآخر صبح کے چار بجے باغی پسپا ہو گئے لیکن انہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے باوجود طرے باز خان اس نیت سے فرار ہو گیا کہ وہ زیادہ بڑی طاقت کے ساتھ پھر حملہ کرے گا۔ 22 جولائی 1857 ء کو تراب علی خان کو خبر ملی کہ طرے باز خان ایک بار پھر انگریز ریزیڈنسی پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس نے طرے باز خان کو ہر قیمت پر گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ طرے باز خان بھیس بدل کر روپوش ہو گیا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ طرے باز خان کی ایک پیدائشی شناختی علامت تھی کہ اس کی آنکھ کے قریب ایک تل تھا جس کی وجہ سے نظام کے کھوجیوں نے اشورخانہ کے قریبی جنگلات میں اسے ڈھونڈ نکالا۔ اس پر حیدر آباد کی عدالت میں مقدمہ چلا۔ اس دوران اس سے مولوی اللہ الدین اور دیگر باغیوں کے ٹھکانے پوچھے گئے اور نہ بتانے پر اسے طرح طرح کی صعوبتیں دی گئیں مگر طرے باز خان نے کوئی راز نہ اگلا۔ اسے سزا دے کر عمر بھر کے لئے جزائر انڈیمان (کالا پانی) بدر کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔ لیکن طرے باز خان جیل سے دوبارہ فرار ہو گیا جس کے بعد اس کی تلاش میں انگریز فوج کے ساتھ جھڑپ ہوئی اور وہ مارا گیا۔ اس کی لاش کو شہر میں لایا گیا اور انگریز ریزڈنسی کے سامنے برہنہ کر کے درخت سے لٹکا دیا گیا۔
اس طرح موت کے بعد طورہ پہلے طرے باز خان بنا اور اپنی شجاعت و بہادری کی وجہ سے بعد میں ’’طرم خان‘‘ کے طور پر شہرت دوام حاصل کر گیا جس نے اپنی جان تو دے دی مگر خود کو سرنگوں کیا اور نہ ہی مسلمان مجاہدین کے بارے کوئی راز اگلا۔ آج نہ نظام ہے نہ اس کی ریاست، لیکن طرے باز خان کا نام پہلے طرے باز خان اور پھر طرم خان بن کر اردو ادب میں امر ہو چکا ہے۔ انگریزوں کے ان غلاموں، نوابوں اور جاگیرداروں کو تاریخ میں کوئی نہیں جانتا بلکہ ایسے کرداروں کو عرف عام میں لوگ ’’انگریز کے پٹھو‘‘ کہتے ہیں مگر جنگ آزادی کے ایسے عظیم مجاہد کو لوگوں نے آج بھی طرم خان کے نام سے یاد رکھا ہوا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ساتھیوں کے کے ساتھیوں انگریز کے چھیدا خان کی وجہ سے آزادی کے کے ساتھ کے خلاف کر دیا ہو گیا
پڑھیں:
وزیراعظم نے بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور کرلیا، FBR پر تجربہ کامیاب، تنخواہیں کامیابی سے مشروط
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ملک میں سول سروس کی کارکردگی اور استعداد میں اضافے کیلئے بڑی اصلاحات لائی گئی ہیں اور کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کیلئے ایف بی آر میں ایک نئی پرفارمنس مینجمنٹ اسکیم متعارف کرائی گئی جسے سینٹرل سپیریئر سروسز کی تمام سروسز اور کیڈرز تک وسعت دی جائے گی تاکہ کارکردگی کی جائزہ رپورٹس (پرفارمنس ایویلیوایشن رپورٹس) ’’پی ای آرز‘‘ کے موجودہ ناقص اور ہیرا پھیری پر مبنی نظام کو تبدیل کیا جا سکے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سکیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ایف بی آر کے معاملے میں کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس (جسے انکم ٹیکس گروپ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے) کے 98؍ فیصد افسران کی سابقہ درجہ بندی کو ’’شاندار‘‘ اور ’’بہت اچھا‘‘ کے طور پر کم کر کے صرف 40؍ فیصد کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ نظام کے تحت، کسٹمز اور انکم ٹیکس افسران کی 99؍ فیصد تعداد کو ان کی دیانتداری کے لحاظ سے بہترین (’’اے کیٹگری‘‘) قرار دیا جاتا تھا۔ نئے نظام کے تحت بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو دوسروں کے مقابلے بہتر معاوضہ دیا جائے گا۔ کارکردگی اور اس کے نتیجے میں ملنے والے معاوضے کے پیکیج کا ہر 6؍ ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کہا ہے کہ وہ سینٹرل سپیریئر سروسز کی دیگر تمام سروسز اور کیڈرز کیلئے ایف بی آر کے نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا جائزہ لیکر اس پر عمل درآمد کرے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام ملک کی سول سروسز کی کارکردگی اور اس کے موثر ہونے کو ڈرامائی انداز سے تبدیل کر دے گا۔ نیا نظام موجودہ چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کا آئیڈیا ہے، جنہوں نے اپنی ٹیم کے تعاون سے پوری اسکیم کو ڈیزائن، اس کا تجربہ اور پھر کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے ہر افسر کے گزشتہ 6؍ ماہ کے جائزے کے دوران اسے کامیابی سے نافذ کیا۔
ماضی میں تقریباً ہر افسر کو اس کی ساکھ اور کارکردگی سے قطع نظر ’’شاندار‘‘ ’’بہت اچھا‘‘ اور ’’بہت ایماندار‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب نئے نظام کے تحت، ’’اے‘‘ کیٹیگری سے ’’ای‘‘ کیگٹری تک کی ہر کیٹیگری میں 20؍ فیصد افسران ہوں گے جن کا فیصلہ مکمل طور پر ڈیجیٹائزڈ کارکردگی کے نظام کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس میں افسران کے کام کے معیار اور ان کی ساکھ پر مرکوز رہے گی۔ نہ صرف ہر افسر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا نظام کسی بھی ممکنہ ہیرا پھیری یا مداخلت سے پاک ہے بلکہ بہتر گریڈ میں آنے والوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر معاوضہ بھی دیا جائے گا۔
ایف بی آر کے معاملے میں، اے کیٹگری کے 20؍ فیصد افسران کو چار گنا زیادہ تنخواہ ملنا شروع ہوگئی ہے، بی کیٹگری کے 20؍ فیصد افسران کو تین گنا، سی کیٹگری کے 20؍ فیصد افسران کو دو گنا جبکہ ڈی کیٹگری کے 20؍ فیصد افسران کو ایک اضافی تنخواہ مل رہی ہے۔
ای کیٹگری کے افسران کیلئے کوئی اضافی معاوضہ نہیں۔ اس اسکیم کا ہر 6؍ ماہ بعد انفرادی لحاظ سے کارکردگی کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے گا۔ ایف بی آر کے افسران کے معاملے میں شاید ہی چند ارب روپے کا ہی اضافی بوجھ ہو۔ کارکردگی جانچنے کے اس نئے نظام کو اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں نہ تو کوئی چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے نہ اس میں مداخلت کی جا سکتی ہے۔ کسی فرد، سینئر حتیٰ کہ حکمرانوں کی خواہشات کو بھی پورا کرنا ممکن نہیں۔
اس سسٹم کے تحت، پہلے ہی کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے 1500؍ سے زائد افسران پر تجربہ کرکے اسکیم پر عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ ہر افسران کا 45؍ ساتھیوں (سینئرز، جونیئرز، سول سروس کے ساتھیوں اور بیچ میٹ) کے ذریعے ہر 6؍ ماہ بعد گمنام انداز سے فورسڈ رینکنگ سسٹم کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے۔ فورسڈ رینکنگ سسٹم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ 5؍ کیٹگریز میں ہر ایک میں20؍ فیصد افسران تک محدود رکھا جائے۔
اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی سروس یا کیڈر میں 20؍ فیصد سے زیادہ ’’شاندار‘‘ کارکردگی والے افسران نہیں ہوں گے۔ 45؍ ساتھیوں کی شناخت کو مکمل طور پر گمنام رکھنے کیلئے جدید سائبر سیکیورٹی ٹولز کا استعمال کیا گیا ہے اور سسٹم کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کیا گیا ہے۔ سسٹم تک رسائی چیئرمین ایف بی آر اور ایف بی آر کے تین ممبران کو ہو گی تاہم ان میں سے کوئی بھی شخص کسی افسر کی رپورٹ کو تبدیل یا اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔
ایف بی آر کے تینوں ممبران ڈیٹا تک صرف مشترکہ انداز سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں، اور ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے کسی بھی غیر مجاز حرکت یا سرگرمی کی اطلاع 5؍ مختلف افراد تک پہنچ جائے گی تاہم، رپورٹ میں تبدیلی پھر بھی ممکن نہیں ہوگی۔ 45؍ افراد کو منتخب کرنے کیلئے ایک چار سطحوں پر مشتمل ایک طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ سسٹم ایسے افراد کو منتخب کرتا ہے جو اُس افسر کو ممکنہ طور پر جانتے ہیں جس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ دیانتداری پر نمبر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک تکنیکی ٹیم افسر کے کام کے معیار کا بھی جائزہ لے گی۔ تکنیکی پینل، جس میں ایف بی آر کے ریٹائرڈ افسران اور دیگر ٹیکس پریکٹیشنرز شامل ہیں، ڈیجیٹائزڈ سسٹم کے ذریعے بے ترتیب (رینڈم) انداز سے منتخب کردہ افسران کے کام کے معیار کا جائزہ لے گا۔ ایف بی آر نے نئی حکومت کے تحت گزشتہ 6؍ ماہ سے اپنے تمام افسران کا جائزہ (اسیسمنٹ) کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔
Post Views: 3