Islam Times:
2025-04-22@14:40:26 GMT

یوم القدس اہم کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

یوم القدس اہم کیوں؟

اسلام ٹائمز: 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے ہمیں دو اہم حقائق کا سامنا ہے ایک طرف صہیونی جارحیت اور فلسطینی عوام کی نسل کشی ہے جو مغربی طاقتوں اور امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ جاری ہے، دوسری طرف حماس کی مزاحمت ہے جو خاص طور پر جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے بعد اپنی گہری بنیادوں اور ناقابل تسخیر قوت کا مظاہرہ کر چکی ہے، وہی اسرائیلی اتحاد جو کبھی حماس کو ختم کرنے کی بات کرتا تھا، آج اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر مجبور ہو چکا ہے۔ تحریر: مظہر برلاس

اسلام آباد میں قائم ایرانی سفارت خانے کی جانب سے بدھ کے روز ایک بڑے ہوٹل میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا، دراصل یہ تقریب یوم القدس کے حوالے سے تھی، ایرانی سفارت خانے کا مقصد یہ تھا کہ یوم القدس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ ویسے تو آپ سب کو پتہ ہے کہ یوم القدس کا آغاز امام خمینی نے کیا تھا، اس روایت کو پوری امت مسلمہ نبھاتی ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایرانی بڑھ چڑھ کر اہتمام کرتے ہیں۔ یوم القدس کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے پیر حیدر علی شاہ، جمعیت اہل حدیث کے سربراہ سید ضیاء بخاری، ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس، سینیٹر مشاہد حسین سید، سابق وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری، ممتاز مسلم لیگی رہنما راجہ ظفر الحق، جماعت اسلامی کےرہنما لیاقت بلوچ، سابق چیئرمین سینیٹ سید نیئر حسین بخاری، ممتاز مذہبی اسکالر طیبہ بخاری، سابق وفاقی وزیر علی محمد خان اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن، ممتاز عالم دین علامہ سید افتخار حسین نقوی نے خطاب کیا۔ ان تقاریر میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بھرپور گفتگو کی گئی اور غزہ میں جدوجہد کرنے والے عالم اسلام کے عظیم سپوتوں کی جرات کو سلام پیش کیا گیا۔

سب سے جاندار تقریر علی محمد خان نے کی، انہوں نے اپنی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کی یاد دلا دی، ان کی تقریر پر ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ اس تقریب میں سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق، شہر یار آفریدی، زمرد خان، اجمل وزیر، اخوند زادہ حسین، مفتی گلزار نعیمی، مظاہر شگری سمیت دانشوروں اور اکابر کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی سفیر رضا امیری مقدم نے کہا کہ ’’میں عالمی یوم القدس کی مناسبت سے منعقدہ اس اجتماع میں آپ کی شرکت پر دلی تشکر پیش کرتا ہوں، فلسطینی عوام سے یکجہتی کے اظہار کیلئے امام خمینی نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا، تب سے ہر سال یہ دن دنیا بھر میں نہ صرف منایا جاتا ہے بلکہ اس کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، یہ دن امت مسلمہ کے اتحاد کی علامت بن چکا ہے، جس میں دنیا کے تمام حریت پسند اور انصاف پرور افراد فلسطینی عوام کی حمایت کا عہد دہراتے ہیں۔

7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے ہمیں دو اہم حقائق کا سامنا ہے ایک طرف صہیونی جارحیت اور فلسطینی عوام کی نسل کشی ہے جو مغربی طاقتوں اور امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ جاری ہے، دوسری طرف حماس کی مزاحمت ہے جو خاص طور پر جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے بعد اپنی گہری بنیادوں اور ناقابل تسخیر قوت کا مظاہرہ کر چکی ہے، وہی اسرائیلی اتحاد جو کبھی حماس کو ختم کرنے کی بات کرتا تھا، آج اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر مجبور ہو چکا ہے۔ بطور سفیر مجھے فخر اور اعزاز حاصل ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ فلسطینی کاز اور غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ بھرپور اور غیر متزلزل یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم اس راہ پر القدس الشریف کی مکمل آزادی تک ثابت قدم رہیں گے۔

چند حکومتوں کی خاموشی، بے عملی اور مصلحت پسندی کے باوجود دنیا بھر میں اسرائیلی ریاست کی وحشیانہ نسل کشی کے خلاف شعور بیدار ہو رہا ہے اور اس کے حامیوں کو انسانی ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے کئی ممالک اب بھی سازگار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں لبنان سے یمن تک امت مسلمہ مصائب اور مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے جس جذبے، جرات اور اصولی موقف کے ساتھ فلسطینی کاز کا دفاع کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ پاکستان کے میڈیا اور بااثر شخصیات نے بھی عالمی سطح پر اس ظلم کے خلاف شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں اس موقع پر پاکستانی حکومت اور عوام کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے فلسطینی عوام کے حق میں مضبوط اور غیر متزلزل مؤقف اپنایا۔میں عالمی یوم القدس کے موقع پر میں زور دیتا ہوں کہ امت مسلمہ کا اتحاد اور یکجہتی ہی صہیونی جارحیت اور غاصبانہ قبضے کے خلاف کامیابی کی کلید ہے۔

اس جمعہ کے روز دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ فلسطینی عوام اور غزہ کے مظلوموں کے حق میں اپنی آواز بلند کریں۔ آخر میں میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس بامقصد اجتماع میں شرکت کی۔ آئیے! ان بابرکت لمحات میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تمام مظلوم مسلمانوں کو ظالموں کے تسلط سے نجات عطا فرمائے اور القدس الشریف کو جلد از جلد آزاد فرمائے‘‘۔ تقریب کے اختتامی لمحات میں علامہ افتخار حسین نقوی نے احادیث کی روشنی میں القدس پر روشنی ڈالی اور القدس کی آزادی کیلئے دعا کی۔ ایک طرف فلسطینیوں پر موت، بم بن کر گر رہی ہے تو دوسری طرف فلسطینیوں سے محبت کرنا استعماری طاقتوں کے نزدیک جرم ہے۔ اس پر اسلم گورداسپوری کا شعر یاد آتا ہے کہ
اس سرزمیں کے ساتھ محبت کے جرم میں
جو عاشقوں کے ساتھ ہوا کچھ نہ پوچھیے

یہ تحریر جنگ اخبار میں شائع ہوئی
https://jang.

com.pk/news/1455362

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینی عوام یوم القدس کے کے ساتھ کے بعد

پڑھیں:

جمہوریت کی مخالفت کیوں؟

گزشتہ دنوں میرے ایک دوست جو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، میری ان سے ملاقات ہوئی۔ میرے یہ دوست جمہوریت کے سخت ترین مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک ہماری تمام تر سیاسی نظام کی خرابیوں کی جڑ پاکستان میں رائج یہ جمہوری نظام ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا سیاسی نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔

اپنے اس دوست کی سوچ کے برعکس راقم التحریر جمہوری نظام کی تمام تر خرابیوں کے باوجود اس کا حامی رہا ہے۔ میرے نزدیک ہماری تمام سیاسی نظام میں خرابیوں کی وجہ جمہوری نظام کا تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہنا ہے۔

بار بار کے مارشل لا اور سیاست میں مداخلت کے نتیجے میں یہ خرابیاں پیدا ہوئیں اور عوام جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے محروم رہے۔ مجھے دینی اور مذہبی موضوعات پر اپنی کم علمی اورکم فہمی کا ہمیشہ احساس رہا ہے، اس لیے میں عموماً دینی اور مذہبی موضوعات پر علمی گفتگو سے گریز کرتا ہوں۔ تاہم جب جمہوریت کا موضوع ہمارے درمیان دوران گفتگو آیا تو اس گفتگو نے مکالمے کی صورت اختیار کر لی۔

جمہوریت کی مخالفت کے حوالے سے میرے دوست کا کیا موقف ہے، اسے اپنے اسلوب میں بیان کر رہا ہوں۔ میرے دوست کے نزدیک ایک صالح اور مہذب حکومت وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد اخلاقی اقدار اور تصورات پر قائم ہو۔

دنیا کے سیاسی نظاموں میں اخلاقی اقدارکی کوئی جگہ نہیں، اس میں نمایندگی کا اہل وہی شخص تصورکیا جاتا ہے جو ڈپلومیٹک اور چرب زبان ہو، چاہے اخلاقی حوالے سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ ہو۔ یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق شہری کا حق ہے۔ لازمی اس قانون سازی میں انسانی خواہشات کو اولین حیثیت حاصل ہوگی اس طرح انسان کی روحانی زندگی تباہ ہو جائے گی اور انسان نفس کا غلام بن کر رہ جائے گا۔

اسلام میں نسلی اور مذہبی گروہ بندی جائز نہیں۔ جمہوری طریقہ انتخاب میں نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو ابھارکر عوامی جذبات کو استعمال کرکے اسے اپنی کامیابی کا زینہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

جمہوریت کی بنیادی خوبی محض عددی برتری تصورکی جاتی ہے یہ منطقی لحاظ سے درست نہیں،کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ 200 کے مقابلے 201 کی رائے زیادہ درست اور دانش مندانہ ہے۔ اس نظام میں افراد کی گنتی کی جاتی ہے انھیں تولا نہیں جاتا، یعنی صلاحیت اور قابلیت کی اس نظام میں کوئی اہمیت نہیں۔

جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کا مزاج سیکولر ہے، یہی وجہ ہے کہ جو مذہبی اور دینی جماعت اس میں حصہ لیتی ہے، اس کا مزاج سیکولر ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں کامیابی کے لیے تمام طبقات کی حمایت درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ جماعتیں مصلحت کا شکار ہو کر خدائی احکامات کے نفاذ کے بجائے انسانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں یہ طرز عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔

میرے دوست کی یہ تمام باتیں جزوی طور پر درست ہیں کلی طور پر نہیں۔ میرا موقف یہ تھا کہ انسانی معاشرے کو مہذب اور تمدنی معاشرہ کہلانے اور عوام الناس کو اجتماعیت کے دائرے میں رکھنے کے لیے کسی نہ کسی نظام حکومت کی ضرورت لازمی طور پر ہوتی ہے اب یہ نظام حکومت کیسے وجود میں آئے گا، اس نظام کے خد و خال کیا ہوں گے؟

حکومت کرنے والوں کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی، ان کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا اور سیاسی استحکام کس طرح پیدا ہوگا۔ اس حوالے سے مختلف زمانے میں مختلف تجربات سامنے آئے ہیں، اس میں ایک تجربہ جمہوری نظام بھی ہے۔ دنیا نے اب تک کے تجربات سے جمہوری نظام کو اس کی بہت سی خرابیوں کے باوجود ایک بہتر نظام سیاست پایا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوا۔

اگر آپ جمہوری نظام کو اس کی چند خرابیوں کی بنیاد پر مسترد کرتے ہیں تو آپ کو دنیا کے سامنے ایک واضح سیاسی نظام پیش کرنا ہوگا۔ محض ہوا میں قلعے بنانے سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔

جہاں تک اسلام کے نظام حکومت کی بات ہے تو ہمیں اسے تاریخی پس منظر میں سمجھنا ہوگا۔ اسلام کے سیاسی نظام میں خلاف راشدہ کے دور کو رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دور حکومت 30 سال کے عرصے پر محیط ہے، اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے چاروں خلفا کا تقرر چار مختلف طریقوں سے ہوا۔ اس کے بعد جو ماڈل سامنے آیا اسے خاندانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔

اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اس پس منظر میں چلتی رہی، اسی پس منظر میں مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ اس میں زیادہ تر حکمران وہی تھے جو خاندانی حکومت کے اصول کے تحت حکمران بنے تھے۔ یہ خاندانی ماڈل خلافت راشدہ کے رول ماڈل سے مختلف تھا لیکن کیونکہ اس ماڈل میں اہل اسلام کو امن اور حفاظت کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام بخوبی انجام پا رہا تھا، اس لیے عوام الناس نے اس نظام کو قبول کیا عرب کے بعض ممالک میں یہ نظام آج بھی رائج ہے۔

اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے۔ اسلام کسی لگے بندھے نظام کی تجویز یا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ ایسے بنیادی اصول قائم کرتا ہے جو کسی حکومت کے عمومی خدوخال کی تشکیل کرتے ہیں وقت اور حالات کے تحت طرز حکومت کیسا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے یہ میری ناقص رائے ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار مذہبی اسکالر اور علما دین ہی کر سکتے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس وقت دنیا میں جمہوری نظام کامیابی سے جاری ہے۔ جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسا نظام حکومت ہے جس میں حکومتی مدت پوری ہوتی ہے اس میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ موجود ہے۔

عوامی رائے عامہ کے ذریعے اسے قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے اس لیے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دینا درست عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسے مغربی طرز حکومت کا نام دیا جانا چاہیے۔ بعض لبرل اور سیکولر عناصر سیاست میں دینی اور مذہبی جماعتوں کی شمولیت کے خلاف ہیں میری ذاتی رائے میں اگر ملک کی اکثریت کسی نظام حیات کو قبول کرکے اس کے نفاذ کی کوشش کرتی ہے تو اس کے اس جمہوری حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اسے تسلیم کیا جانا جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔

یہ ہے دونوں جانب کا نقطہ نظر، کون درست ہے کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل؛ کنگز کے آل راؤنڈر عامر جمال پر جرمانہ، مگر کیوں؟
  • فلم ’جوش‘ میں کاجول اور عامر خان نے شاہ رخ کیساتھ کام کرنے سے کیوں منع کردیا تھا؟
  • پاکستانی یوٹیوبرز کے بینک اکاؤنٹس کیوں بند ہوئے، اصل سبب کیا بنا؟
  • گلگت، آئی ایس او طالبات کے زیر اہتمام صیہونی مظالم کیخلاف احتجاجی ریلی
  • اسرائیلی مظالم پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی ،بے حسی افسوسناک :زوار بہادر  
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • انوشے اشرف کے ولیمے کی تصاویر اور ویڈیوز چھا گئیں
  • فلسطین  پر امت کوفیصلہ کن اقدامات کرنا ہونگے: ایاز صادق
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • فلسطین کے معاملے پر امت مسلمہ کو فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے ،اسپیکر ایاز صادق