Juraat:
2025-04-22@06:49:47 GMT

کوئٹہ میں پولیس کی گاڑی کے قریب دھماکا 3 جاں بحق، 19 زخمی

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

کوئٹہ میں پولیس کی گاڑی کے قریب دھماکا 3 جاں بحق، 19 زخمی

 

دھماکا ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے کیا گیا، ڈھائی کلو بارودی مواد استعمال کیا
دھماکا خیز مواد جائے وقوعہ پر کھڑی موٹر سائیکل میں نصب تھا، پولیس ذرائع

کوئٹہ میں ڈبل روڈ کے قریب پولیس کی گاڑی کے قریب دھماکے میں 3افراد جاں بحق جبکہ 19زخمی ہوگئے ۔پولیس کے مطابق صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ڈبل روڈ پر واقع بڑیچ مارکیٹ کے سامنے پولیس گاڑی کے قریب دھماکا ہوا، دھماکا خیز مواد جائے وقوعہ پر کھڑی موٹر سائیکل میں نصب تھا، دھماکا ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے کیا گیا، ڈھائی کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا، دھماکے سے پولیس وین کو بھی نقصان پہنچا۔ترجمان محکمہ صحت بلوچستان کے مطابق دھماکے کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق جبکہ 19 زخمی ہوئے ہیں، زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، زخمیوں کو طبی امداد کیلئے سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے ، جاں بحق ہونے والوں میں ایک شخص کی شناخت جبار کے نام سے ہوئی۔ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے کر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے ۔ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے پولیس گاڑی کے قریب دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے ناپاک عزائم ناکام بنائیں گے ، واقعہ میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کوئٹہ ڈبل روڈ پر پولیس موبائل کے قریب دھماکے کی مذمت کی اور جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ جاں بحق افراد کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔انہوں نے کہا کہ دھماکے کے زخمیوں کی صحتیابی کیلئے دعاگو ہیں، دشمن قوتیں بلوچستان کو ٹارگٹ کر رہی ہیں، عدم استحکام پیدا کرنے کی گھناؤنی سازش کو ناکام بنائیں گے ۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

بات ہے رسوائی کی

یہ خبر حیران کن اور توجہ طلب تھی کہ جب برطانیہ میں ہسٹری کی ایک ٹیچر پچاس سالہ وینیسا براؤن کو چھبیس مارچ کو دو آئی پیڈز چوری کرنے کے الزام میں جیل میں ساڑھے سات گھنٹے گزارنے پڑے، یہ آئی پیڈز کسی اور کے نہیں بلکہ ان کی اپنی بیٹیوں کے تھے جو وینیسا نے صرف اس لیے چھپائے تھے کہ ان کی بیٹیاں اپنے اسکول کے کام پر توجہ دیں۔

یہ ترغیب دلانے کا انداز تو روایتی ماؤں والا ہی تھا لیکن ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن گیا، صرف یہی نہیں بلکہ انھیں پابند بھی کر دیا گیا ہے کہ جب تک یہ مقدمہ خارج نہیں ہوجاتا وہ اس تفتیش کے حوالے سے نہ صرف اپنی بیٹیوں بلکہ کسی سے بھی بات نہیں کرسکتیں۔

ایک استاد کو جو دوسرے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، اپنے ہی بچوں کی پڑھائی کی خاطر اس اقدام کی وجہ سے جس کوفت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اس تجربے کو انھوں نے ناقابل بیان تباہی اور صدمہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان کی تمام تر توجیہات بے اثر ثابت ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ آئی پیڈز ان کے بچوں کے تھے اور وہ انھیں ضبط کرنے کی حق دار تھیں۔ پولیس نے مذکورہ آئی پیڈز ان کی والدہ کے گھر سے برآمد کیے تھے۔ایک ماں خاص کر جب وہ استاد کے رتبے پر بھی فائز ہو، دہری ذمے داریوں کی حامل ہوتی ہے۔

اسے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے علاوہ اس کے اردگرد کے ماحول کو بھی دیکھنا پرکھنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس کی اولاد کے لیے موافق ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے بچوں کی راہ سے کانٹے چننے کی اہل ہوتی ہے جس کے لیے انھیں پولیس کی مدد اور معاونت کی ضرورت نہیں، لیکن بدقسمتی سے مغربی ممالک میں حقوق کی علم برداری کے بڑے جھنڈے گڑھے ہوتے ہیں، جو ایک ماں سے اپنی اولاد کے حقوق تک چھین لیتے ہیں۔

ایک ماں کو اپنی اولاد کے لیے کیا تحفظات ہوتے ہیں، وہ پڑھے لکھے، صحت مند اور تندرست رہے،کھیل کود بھی کرے اور اپنی دوسری ذمے داریاں بھی نبھائے، اس تمام کے لیے اس کا ذہن صحت مند سوچ رکھنے کا حامل پہلی ترجیح ہوتا ہے۔

ماں بری سوچ سے اپنی اولاد کو الگ رکھنا چاہتی ہے۔آج کل بچوں کے ہاتھ میں بالشت بھر موبائل ساری حشر سامانی لیے ہر دم موجود اور تازہ دم تیار رہتا ہے۔ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی نظر سے چھپ کر برا اور غلیظ مواد بھی دیکھ سکتے ہیں۔ فحش مواد دیکھنے سے ذہن کس طرح اثرانداز ہوتا ہے، کینیڈا کی لاوال یونیورسٹی کی ایک محقق ریچل اینی بارر نے ایک تحقیق کی جس میں انھوں نے بتایا۔

’’دنیا بھر میں کروڑوں افراد انٹرنیٹ کو مثبت کی بجائے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، خصوصاً فحش مواد یا پورن سائٹس پر وقت گزارتے ہیں، یہ عادت دماغ کے اہم ترین حصے کو چاٹ لیتی ہے اور کند ذہن یا تعلق بچگانہ ذہنیت کا مالک بنا سکتی ہے ۔‘‘

دراصل غیر اخلاقی مواد کو دیکھنا عادت بنا لینے والے افراد کے دماغی حصے پری فرنٹل کورٹیکس کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس اہم حصے قوت ارادی جسمانی حرکات اور اخلاقیات کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایک تحقیق تو فحش مواد اور فلموں کے دیکھنے والوں کے متعلق کہتی ہے کہ ان کے دماغ سے منسلک ’’ریوارڈ سسٹم‘‘ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔

جرمنی کی اس سائنسی تحقیق کی مصنفہ زیمونے کیون کا کہنا ہے ’’باقاعدگی سے فحش فلمیں دیکھنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کم یا زیادہ آپ کا دماغی ریوارڈ سسٹم ضایع ہوتا جاتا ہے۔‘‘دماغ میں موجود عصبی ڈھانچوں کے مجموعے کو ریوارڈ سسٹم کہتے ہیں اور عصبی ڈھانچے خوشی فراہم کرتے ہوئے دماغی رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔

اس تحقیق کے لیے چونسٹھ لوگوں کا انتخاب کیا گیا جن کی عمریں اکیس سے چونسٹھ سال کے درمیان تھیں۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ جو لوگ فحش فلمیں دیکھتے ہیں ان کے دماغ کا ’’اسٹریم‘‘ نامی حصہ چھوٹا ہو جاتا ہے، ریوارڈ سسٹم کا یہ اہم جز جنسی تحریک کا اہم کردار ہے۔فحش مواد دیکھنے والوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ریسرچ کی ایک طویل فہرست ہے اس لیے کہ آج کی دنیا کا یہ اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے، بچے اور بڑے، خواتین اور مرد فحش مواد کو دیکھنے کے باعث منفی رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں زیادتی، تشدد، مار پیٹ، خود غرضی اور قتل بھی شامل ہیں۔

ایسے افراد سرد مہری اور ظلم و جبر کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں باالفاظ دیگر وہ عام انسانوں کے برخلاف زیادہ تلخ، کرخت اور بدمزاج ہو جاتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو کسی بھی حد تک پورا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہم اس قسم کے لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں آسانی سے پہچان بھی سکتے ہیں کیونکہ ان کے رویے اور جذبات عام انسانوں کے مقابلے میں مختلف ہوجاتے ہیں۔

برقی تاروں سے پوری دنیا میں نجانے کیا کچھ دیکھا جا رہا ہے جو دیکھنے والوں کا قیمتی وقت تیزی سے برباد کرتا چلا جاتا ہے اب چاہے وہ طالب علم ہو یا گھریلو خواتین اور عام لوگ۔ یہ ایک ایسا سحر ہے جو اپنے اندر سب کچھ اتارتا چلا جا رہا ہے لیکن ماں باپ اور اساتذہ کے حوالے سے ایک بہت بڑا امتحان وہ غلیظ مواد ہے جو معاشرے کے نہ صرف معماروں کو بلکہ معمر شہریوں کی دماغی استعداد پر اثرانداز ہوتا ہے۔

ہمارے اپنے ملک میں اسلام کے حوالے سے روایتیں تو سخت ہیں لیکن درحقیقت اب جو کچھ کھلے عام اس انٹرنیٹ کے حوالے سے چل رہا ہے شرم انگیز ہے۔ کیا سب کچھ اسکرین پر لگا دینا ہماری اقدار کے ساتھ انصاف کرتا ہے؟ محبت،ایک اور لفظ کے اضافے سے جوکچھ مختصر ترین چند منٹوں میں دیکھا تو عقل ماتم کرنے لگی کہ یہ کمائی کا خوب اچھا طریقہ ہے۔

نجانے کون لوگ اس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر و لکھاری تھے، پر نامعقولیت میں اول تھے۔ مرکزی کردار درمیانی عمر کے کردار ادا کرتے آنکھوں میں وحشت بھرے اداکار تھے۔ لوگ تنقید بھی کر رہے تھے اور تعریف بھی۔ ہمارے معاشرے میں، تو شاید یہ کہنا فضول ہی ہوگا کہ برطانیہ میں ہسٹری کی استاد کو اپنی ہی بچیوں کا آئی پیڈ چھپانے کی سزا جیل میں کیوں بھگتنی پڑی؟ اس لیے کہ تاریخ کی استاد جانتی تھی کہ ماضی میں عیش و عشرت اور فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے قومیں کیسے برباد و خوار ہوئیں۔

متعلقہ مضامین

  • جامشورو: تھانہ بولاخان کے قریب مسافروں سے بھرا ٹرک کھائی میں گر گیا، 16 افراد جاں بحق
  • جام شورو: مسافر گاڑی کو المناک حادثہ، 16 جاں بحق، 30 زخمی
  • جامشورو: تھانہ بولاخان کے قریب مزدا ٹرک حادثے میں ہلاک افراد کی تعداد 14 ہو گئی
  • کراچی: تیز رفتار آئل ٹینکر موٹر سائیکل سوار کو روند دیا
  • لاہور؛ گاڑی کھڑی کرنے پر جھگڑا، دو افراد زخمی، فائرنگ کی ویڈیوز سامنے آگئی
  • کراچی: جسٹس (ر) مقبول باقر پر حملے کا ملزم عدم شواہد پر 12 سال بعد بری
  • مدینہ کے قریب عمرہ زائرین کی بس کو حادثہ، 4 پاکستانی جاں بحق 9 زخمی
  • مدینے کے قریب عمرہ زائرین کی بس کو حادثہ، 4 پاکستانی جاں بحق 9 زخمی
  • بات ہے رسوائی کی
  • کراچی: فائرنگ کے مختلف واقعات میں پولیس اہلکار سمیت 5 افراد زخمی