Express News:
2025-04-22@07:12:04 GMT

حفاظت کہاں ہو رہی ہے

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اپنے بعض وزیروں اور اہل خانہ کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کر کے وطن واپسی پر ایف بی آر کی طرف سے 24 گھنٹوں کے اندر 34.5 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے پر ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سمیت پوری قوم اس پر ایف بی آر کی شکر گزار ہے جس کی وجہ سے قومی خزانے کو فائدہ ہوا، یہ کارکردگی قابل ستائش ہے، میں اور پوری قوم قومی خزانے کی ایک ایک پائی کی حفاظت کریں گے یہ وصولی اچھی شروعات ہے۔

واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر حکم امتناع ختم ہونے سے ملک کے مختلف بینکوں سے ساڑھے 34 ارب روپے خزانے میں منتقل ہوئے تھے جس کے لیے وزیر اعظم نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی ملاقات کی تھی اور چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ سندھ اور لاہور ہائی کورٹس میں حکم امتناعی کے باعث ایف بی آر مذکورہ رقم کی وصولی نہیں کر پا رہی اور حکومتی معاملات متاثر ہو رہے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد ونڈ فال ٹیکس پر بینکوں کی درخواستوں پر سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر 23 ارب اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خاتمے پر 11.

5 ارب روپے قومی خزانے میں منتقل ہوئے تھے۔

وزیر اعظم نے ایک ماہ قبل چیف جسٹس پاکستان کو ایف بی آر کی مشکلات سے آگاہ کیا تھا کہ اگر عدالتوں سے حکم امتناع ختم ہو جائے تو اربوں روپے قومی خزانے میں آجائیں گے اور حکومت یہ رقم صحت، تعلیم اور عوامی فلاحی منصوبوں پر خرچ کرے گی۔

جس روز یہ رقم قومی خزانے میں منتقل ہوئی اسی روز وزیر اعظم سعودی عرب کے دورے پر تھے اسی روز حکومت نے وفاقی وزیروں، وزرائے مملکت اور مشیروں کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں 188 فی صد تک اضافے کا اعلان کر دیا۔ قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی تھی جب کہ اس سے قبل تنخواہوں میں اضافے کے لیے ایکٹ1975 میں حکومت نے ترمیم کرکے دو ماہ قبل اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھائی تھیں اور ارکان پارلیمنٹ نے اپنے مالی مفاد کے اس فیصلے کی منظوری متفقہ طور پر دی تھی۔

ساڑھے 34 ارب روپے قومی خزانے میں آنے کے روز ہی وزیروں کی تنخواہوں میں دگنے سے بھی زیادہ اضافہ کیا جب کہ ایک ہفتہ قبل ہی حکومت نے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی پر ملک میں پٹرولیم مصنوعات سستی کرکے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے پٹرولیم لیوی میں ساٹھ سے ستر فی صد اضافہ کرکے عوام کو اس جائز ریلیف سے بھی محروم کر دیا تھا مگر ساڑھے 34 ارب روپے قومی خزانے میں آتے ہی وزیروں، مشیروں کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کیا کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ وفاقی وزیر کی تنخواہ دو لاکھ اور وزیر مملکت کی ایک لاکھ 80 ہزار سے بڑھا کر 5 لاکھ 19 ہزار روپے کی گئی ہو۔ وزیروں کے الاؤنس، گاڑی، دفتری اخراجات علاوہ ہوں گے۔

وزیر اعظم ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے دوست ملکوں کے دورے کرکے ان سے قرضے اور مراعات حاصل کر رہے ہیں اور انھوں نے گزشتہ دنوں ہی اپنی کابینہ میں بڑی توسیع بھی کی تھی۔ وزیر اعظم نے عمرے اور سعودیہ کے سرکاری دورے سے واپسی پر اپنے عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ عوام کی ایک ایک پائی کی حفاظت کے لیے جس قدر ہو سکا کوشش کریں گے۔

وزیر اعظم نے سعودیہ جانے سے قبل پٹرولیم مصنوعات پر عوام کو ریلیف دینے کی بجائے پرانی قیمتیں برقرار رکھی تھیں اور ایک ہفتے بعد ہی سپریم کورٹ کی مہربانی سے ملنے والے ساڑھے 34 ارب روپے قومی خزانے میں آتے ہی اپنے وزیروں کو ضرورت سے زیادہ ریلیف دے دیا جب کہ میاں شہباز شریف حکومت کے ڈھائی سالوں میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا اور اس رقم کی قومی خزانے میں منتقلی پر تعریف و ستائش اعلیٰ عدلیہ کی کرنے بجائے وزیر خزانہ، ایف بی آر کے بڑے افسروں اور قانونی ٹیم کی کی گئی جب کہ یہ منتقلی عدلیہ کے فیصلے سے ممکن ہوئی ہے، مگر ساڑھے 34 ارب روپے سے عوام کو ریلیف دینے کا کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوا مگر وزیروں اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں ضرور بڑھا دی گئیں، جو پہلے ہی امیر ترین ہیں اور ایک سال قبل کروڑوں روپے خرچ کرکے پارلیمنٹ میں آئے تھے۔ ارکان پارلیمنٹ اور وزیروں کی تنخواہیں بڑھانے کے فیصلے حکومت، قائمہ کمیٹیوں اور پارلیمنٹ میں متفقہ طور ہوتے ہیں۔

موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ کو جعلی قرار دینے اور تسلیم نہ کرنے والی بڑی جماعت پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی سمیت کسی اپوزیشن رکن پارلیمنٹ اور وفاقی وزیروں نے بھی تنخواہیں بڑھانے کے حکومتی فیصلوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا کیونکہ سب کا اس میں فائدہ تھا۔

ڈیڑھ سال سے جیل میں قید بانی پی ٹی آئی جو اس بار پارلیمنٹ میں بھی نہیں ہیں، انھوں نے بھی حکومت کے تنخواہیں بڑھانے کو دل سے تسلیم کیا اور اپنے ارکان سے یہ نہیں پوچھا کہ انھوں نے اس حکومت کا فیصلہ کیوں مانا؟ اور تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ متفقہ کیوں ہونے دیا۔ قومی خزانہ عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے اور وزیر اعظم نے ساڑھے 34 ارب روپے ملنے کے بعد عوام کے ایک ایک پائی کی خود حفاظت کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

اس سے قبل اعلیٰ عدلیہ کی تنخواہیں بڑھائی جا چکی ہیں اور اب عوام اور صرف ایف بی آر افسران ہی محروم رہ گئے ہیں جن کی وزیر اعظم نے تعریف بھی کی ہے مگر وہ پہلے ہی تنخواہ کے محتاج نہیں مگر ریلیف سے محروم عوام کو حکومت نے ریلیف کیا دینا تھا ان کی تو تعریف بھی نہیں ہوئی جو اپنا پیٹ کاٹ کر قومی خزانہ بھرتے ہیں جس کی حفاظت تنخواہیں بڑھا کر کی جا رہی ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ارب روپے قومی خزانے میں ساڑھے 34 ارب روپے تنخواہوں میں کی تنخواہیں ہائی کورٹ ایف بی آر حکومت نے عوام کو کے لیے

پڑھیں:

World Earth Day ; ماحول اور زمین کی حفاظت ہم پر قرض، رویے بدلنا ہوںگے!!

ماحولیاتی آلودگی، جنگلات کی کٹائی، گلوبل وارمنگ، پانی کی قلت اور فضائی آلودگی جیسے مسائل نے زمین کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے لہٰذا اس کے پیش نظر ہر سال 22 اپریل کو دنیا بھر میں ارتھ ڈے منایا جاتا ہے جس کا مقصد زمین کے ماحول، قدرتی وسائل، حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں شعور اجاگر کرنا اور زمین کو محفوظ بنانا ہے۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم سب اس زمین کے ذمہ دار مکین ہیں اور ہمیں اپنے طرزِ زندگی کو اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ زمین کے وسائل محفوظ رہیں۔اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

کنول لیاقت

(پارلیمانی سیکرٹری برائے انوائرنمنٹ پروٹیکشن اینڈ کلائمیٹ چینج پنجاب)

فرش سے عرش تک، قدرتی وسائل کا تحفظ ہم پر قرض بھی ہے اور فرض بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات اور زمین کو وسائل سے مالال کیا ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے فطرت کو تباہ کر دیا۔ اللہ نے ہر چیز میں توازن قائم کیا مگر ہم نے یہ توازن خراب کر دیا، بے دردی سے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جس پر ہم خود پریشان بھی ہیں اور شرمندہ بھی۔ اب دنیا بھر میں اس پر کوششیں ہو رہی ہیں کہ کس طرح دنیا کو آفات سے بچایا جائے اور انسانوں کیلئے سازگار ماحول بنایا جائے۔

ماحولیاتی مسائل کا حل پنجاب حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنی پہلی تقریر میں ماحولیاتی مسائل کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ ہم اس حوالے سے نہ صرف بڑے منصوبے لا رہے ہیں بلکہ آگاہی کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے۔یہ کہنا درست ہوگا کہ اس وقت ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے جتنا کام ہو رہا ہے، پنجاب کی تاریخ میں اس کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں کوئی ماحول کی وزارت لینے کو تیار نہیں ہوتا تھا، اس وزارت اور محکمے کو معمولی سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت سینئر وزیر خود یہ وزارت دیکھ رہی ہیں اور ان کی خصوصی کاوشوں اور دلچسپی سے پنجاب کے ماحولیاتی مسائل دور کرنے کیلئے خاطر خواہ کام ہو رہا ہے۔

اس وقت صوبہ میں پنجاب کی تاریخ کی پہلی کلائمیٹ چینج پالیسی بنائی گئی ہے جوماحولیاتی مسائل کے حل میں حکومت کی کمٹمنٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ماحولیاتی مسائل سنگین ہوچکے ہیں اگر ہم نے اب بھی ان کے حوالے سے کام نہ کیا تو آنے والے وقت میں مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت زیر زمین صاف پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے، یہ صورتحال تشویشناک ہے، اگر ہم پانی کا اسی طرح بے دریغ استعمال کرتے رہے تو آئندہ برسوں میں پانی کی قلت پیدا ہوجائے گی ۔ اسی طرح فیکٹریوں اور گاڑیوں کا دھواں ماحول کو آلودہ کر رہا ہے، اس میں اینٹوں کے بھٹے، فصلوں کی باقیات کو جلانے جیسے عوامل بھی شامل ہیں۔ اب تو ایبٹ آباد جیسے ضلع میں بھی سموگ کا مسئلہ پیدا ہوچکا ہے۔

لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 2 ہزار تک چلا گیا جو شہریوں کے لیے شدید نقصاندہ تھا۔ ہمیں لوگوں کے تحفظ کیلئے سکولز اور تعلیمی ادارے بند کرنا پڑے۔ چھٹی ہونے سے پارکوں اور شاپنگ مالز میں رش بڑھ گیا اور پھرہمیں گرین لاک ڈاؤن لگانا پڑا۔ لوگوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ افسوناک ہے۔ سموگ جیسے مسائل پر قابو پانے کیلئے پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے نہ صرف سموگ مٹی گیشن پلان بنایا بلکہ اس پر کام بھی کیا۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انوائرمینٹل پروٹیکشن فورس بنائی گئی ہے جو صوبے بھر میں ماحولیاتی تحفظ کیلئے کام کرے گی۔ ہم محکمہ تحفظ ماحولیات کی کپیسٹی بلڈنگ کر رہے ہیں اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ ہم اس محکمے کو ڈیجیٹلائز کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ڈرونز کی مدد سے سرویلنس کرکے فیکٹریوں کا دھواں کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کا نظام بھی سادہ اور آسان کر دیا گیا ہے جس کا آغاز وزیراعلیٰ پنجاب کی گاڑی سے کیا گیا۔ ان کی گاڑی کو چیک کرکے فٹنس مکمل ہونے پر سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے اینٹوں کے بھٹوں کو بھی جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے۔ جو بھٹے بار بار وارننگ کے بعد بھی اس پر منتقل نہیں ہوئے، انہیں مسمار کر دیا گیا، ہم چند افراد کے روزگار کی خاطر لاکھوں افراد کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتے، ہمیں سانس لینے کیلئے بہترین اور صاف فضا قائم کرنی ہے۔ پانی کا ضیاع روکنے کیلئے ہم نے کار واش سٹیشنز کے ساتھ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لازمی قرار دے دیا ہے اور نئے کار واش سینٹرز پر پابندی لگا دی ہے۔ پلاسٹک زمین اور ماحول کیلئے نقصاندہ ہے۔

حکومت نے 75 مائیکرون سے کم والے پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی لگائی ہے، اسے آئندہ مرحلے میں 100 مائیکرون کیا جائے گا اور بتدریج 300مائیکرون تک لے کر جائیں گے۔ ہم جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے بھی اقدامات کر رہے ہیں۔ جنگلی حیات کے غائب ہونے کا مطلب ہے کہ ماحولیاتی مسائل سنگین ہیں۔ حکومت پنجاب نے 60 ہزار ماہانہ وظیفہ دے کر 2 ہزار کلائیٹ چیمپئن بنائے ہیں جو اپنے اپنے علاقوں سے ماحولیاتی مسائل کا خاتمہ کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔

ماحولیاتی مسائل کی کوئی سرحد نہیں، ہم ہمسایہ ممالک سے کلائمیٹ ڈپلومیسی پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ بارڈر کے اطراف موجود عوام کو صاف اور بہترین ماحول فراہم کیا جاسکے۔ زمین کا تحفظ ماحولیاتی تحفظ سے جڑا ہے۔حکومت اکیلے ماحولیاتی مسائل سے نہیں نمٹ سکتی۔ ہماری ول اور نیت موجود ہے، اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں مگر سب سے اہم عوام ہیں جنہیں ذمہ داری شہری ہونے کا ثبوت دینا ہوگا اور ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ایمانداری سے ادا کرنا ہوگا۔ اگر عوام اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تو اس کی بھاری قیمت سب کو ادا کرنا پڑے گی اور خصوصاََ ہماری آنے والی نسلیں بدترین مسائل کا شکار ہوں گی۔

شاہنواز خان

(نمائندہ سول سوسائٹی)

اللہ تعالیٰ نے دنیا کو توازن سے بنایا مگر ہم نے اس زمین کے ساتھ زیادتی کی اور توازن خراب کر دیا۔ ہم نے لالچ اور آسائش کے لیے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا، درختوں کی بے جا کٹائی کی، پانی ضائع کیا اور ماحول بھی تباہ کر دیا جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں لہٰذا اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو آنے والا وقت مزید سخت ہوگا۔ہمارا پورا ماحول بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ اسلام آباد میں ژالہ باری کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، حال ہی میں وہاں ژالہ باری ہوئی،زلزلے بھی آرہے ہیں، ہمیں اپنی غلطیوں کی وجہ سے قدرتی آفات کا سامنا ہے ۔

گزشتہ اپریل کی نسبت اب اسلام آباد کا درجہ حرارت 10 ڈگری زیادہ ہے، ایئر گنڈیشنز سے نکلنے والی گیس، ٹریفک اور فیکٹریوں کا دھواں ماحول کو آلودہ کر رہا ہے۔ اسی طرح پلاسٹ بیگز سے سیورج کا نظام تباہ ہوچکا ہے لہٰذا ہمیں ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے من حیث القوم کام کرنا ہوگا اور اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ موجودہ حکومت ماحولیاتی تحفظ کے لیے اچھے اقدامات کر رہی ہے، پنجاب میں تاریخ کا پہلا کلائمیٹ ایکشن پلان بنایا گیا ہے جو خوش آئند ہے لہٰذا اب ضرورت یہ ہے کہ کلائمیٹ ایکٹ بنا کر بڑے پیمانے پر کام کیا جائے اور قانون سازی کے ذریعے لوگوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ماحول کو صاف کریں۔

ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے آگاہی بہت ضروری ہے لہٰذا تعلیمی نصاب میں خصوصی مضامین شامل کیے جائیں اور لوگوں کو آگاہی دی جائے۔عالمی سطح پر ہمیں یہ با ر بار باور کرانا چاہیے کہ ماحول کو خراب کرنے میں ہمارا کردار ایک فیصد بھی نہیں لیکن ہم اس سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہیں لہٰذا دنیا کو ہماری مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارا حق بھی ہے اور ضرورت بھی، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارے ہاں ماحولیاتی مسائل مزید بڑھیں گے اور اس کے لیے جتنے وسائل درکار ہونگے، وہ پیدا کرنا مشکل ہوجائے گا۔

احمر شہزاد

(پراجیکٹ منیجر، پاک مشن سوسائٹی)

ہم گزشتہ 5 برس سے ماحولیاتی مسائل پر کام کر رہے ہیں اور پنجاب کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک کا حصہ بھی ہیں۔ ہم نے اب تک محکمہ تحفظ ماحولیات، لاہور اور راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کمپنیز، کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پاک ای پی اے کے ساتھ کام کیا اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ ہم گراس روٹ لیول پر ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ہم نے اسلام آباد میں ہریالی ہب بنایا ہے جہاں آبادیوں سے اکٹھا کر کے اسے ری سائیکل کیا جاتا ہے اوراس سے خواتین کو جیولری و دیگراشیاء بنانا سکھائی جاتی ہیں۔ اس طرح ہم کچرے کو کاروبار اور کارآمد بنا رہے ہیں۔

ہم کلائمیٹ ایکشن پراجیکٹ کے تحت بچوں اور خواتین کی تربیت کر رہے ہیں اور انہیں آگاہی بھی دی جا رہی ہے تاکہ معاشرے سے ماحولیاتی مسائل کا خاتمہ ہوسکے۔ ہم سکولز میں بھی آگاہی کیلئے کام کرر ہے ہیں، اس حوالے سے مختلف سکولوں میں گرین کلبز بنائے گئے ہیں تاکہ گرین مائنڈز کو فروغ دیا جاسکے۔ اس وقت 25 سکولز میں ہمارے پراجیکٹس چل رہے ہیں جن کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ ہم طلبہ اور اساتذہ کی کپیسٹی بلڈنگ کر رہے ہیں، ان کی ٹریننگ کرائی جاتی ہے، فیلڈ وزٹ ہوتے ہیں جن سے ان کی لرننگ ہوتی ہے۔

ہم نوجوانوں کیلئے بھی کام کر رہے ہیں، ہم قومی اور صوبائی سطح پر ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے پنجاب کلائمیٹ ایکشن پلان پر بھی حکومت کو اپنی سفارشات پیش کیں، ہم ایڈوکیسی رول بھی ادا کر رہے ہیں۔ زمین ہمارے لیے بنائی گئی لیکن ہم نے اپنے غلط رویوں سے اس کو تباہ کر دیا لہٰذا اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے رویے درست کرکے زمینی مسائل حل کریں۔

معظم احمد

(ایمبیسیڈر گرین کلب )

ہمارے ماحولیاتی مسائل سنگین ہیں مگر صد افسوس سکولوں میں طلبہ کو آگاہی نہیں ہے لہٰذا انہیں ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے آگاہی اور تربیت دی جائے، تعلیمی نصاب میں خصوصی مضامین شامل کیے جائیں اور ایسی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے جن سے زمین اور ماحول کی حفاظت ہوسکے۔ میرا تعلق گرین کلب سے ہے، یہ طلبہ اور اساتذہ پر مشتمل 15 رکنی کلب ہے جو ویسٹ مینجمنٹ، بجلی اور پانی کا بچاؤ، ماحولیاتی آلودگی و دیگر حوالے سے طلبہ کی تربیت کرتا ہے، ہم آگاہی کیلئے سکولز اور لائبریریز میں آگاہی پوسٹرز بھی لگاتے ہیں۔ہم نے اپنے سکول کی کینٹین کو گرین کر دیا ہے، یہ پلاسٹک فری ہے۔ ہم نے کچرے کیلئے سکول میں ’تھری بن‘ سسٹم متعارف کرایا ہے۔ ہم نہ صرف اپنے سکول میں آگاہی دے رہے ہیں بلکہ یہ پیغام طلبہ کے ذریعے گھروں میں بھی پہنچ رہا ہے جس سے علاقے میں خاطر خواہ فائدہ ہو رہا ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں بھاگ کر کہاں جائیں گے، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ریمارکس
  • World Earth Day ; ماحول اور زمین کی حفاظت ہم پر قرض، رویے بدلنا ہوںگے!!
  • پانی معاملہ صرف سندھ نہیں پنجاب کا بھی مسئلہ ہے، نیئر بخاری
  • عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں
  • شہباز خدا کا خوف کرو، کلمہ پڑھتے ہو اور 25 کروڑ عوام کے حق پر ڈاکہ ڈال کر بیٹھے ہو، محمود اچکزئی
  • ’آج پی آئی اے اپنے قدموں پر کھڑی ہے‘ قومی ایئرلائن کی لاہور سے باکو کے لئے پروازوں کا آغاز
  • پی ٹی آئی حکومت میں 6 ارب 23 کروڑ کہاں گئے؟ محکمہ صحت کا حیران کن انکشاف
  • وفاقی حکومت کسی وقت بھی گرسکتی: پیپلز پارٹی رہنما شازیہ مری
  • فلسطین  پر امت کوفیصلہ کن اقدامات کرنا ہونگے: ایاز صادق
  • بلوچوں کا مطالبہ سڑکوں کی تعمیر نہیں لاپتہ افراد کی بازیابی ہے، شاہد خاقان عباسی