آئی ایم ایف معاہدہ ، عوام ریلیف سے محروم
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ طے پاگیا ہے۔ پاکستان کو اس پروگرام کے تحت حاصل رقم مجموعی طور پر2 ارب ڈالر ہو جائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگراموں سے معاشی استحکام تو آتا ہے لیکن قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ پچھلے تین ہفتوں میں 34 ارب روپے خزانے میں آئے، یہ وہ رقم تھی جو بینکوں کی جانب سے عدالت سے اسٹے آرڈر لینے کے نتیجے میں پھنسی ہوئی تھی۔
اقتصادی ماہرین نے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے اور اس پیش رفت کو مثبت قرار دیا ہے۔ دراصل یہ معاہدہ معیشت کو ٹریک پر رکھے گا جب کہ ادائیگیوں کے توازن اور معاشی اصلاحات کو یقینی بناتا ہے۔ جب تک حکومت آئی ایم ایف کی شرائط سے انحراف نہیں کرتی، اس وقت تک معیشت پٹری پر رہنے کی توقع ہے۔
بلاشبہ اقتصادی اشاریے بہتر ہوگئے ہیں اور مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ شرح سود میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے اور 23فیصد شرح سود کم ہوکر 12 فیصد تک آگئی ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم پاکستان کی شب وروز کی کوششوں سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آرہی ہے، جو معاشی استحکام کے لیے خوش آیند امر ہے۔
پاکستان میں خطے کی مہنگی ترین بجلی معیشت کے لیے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، جنوبی افریقہ اور کینیا جیسے ممالک میں بجلی پاکستان کے مقابلے میں سستی ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری ان ممالک میں جا رہی ہے اور پاکستان پیچھے رہ گیا ہے۔ گو حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے ایک مضبوط پیکیج تیار کر رہی ہے، جس کا جلد عوامی سطح پر اعلان کیا جائے گا، تاہم اس میں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔
توقع کی جا رہی تھی کہ وزیراعظم 23 مارچ کو قوم سے خطاب میں بجلی کے نرخوں میں 8 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کریں گے، تاہم کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ حکومت نے 15 مارچ کو اعلان کیا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھا جائے گا حالانکہ اوگرا نے پٹرول کی قیمت میں 13 روپے فی لیٹر کمی کی تجویز دی تھی۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ اس ممکنہ مالیاتی مارجن کو بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
بعد ازاں حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے اضافے کا فیصلہ کیا۔ دنیا بھر میں بجلی کے نرخ کم ہیں، تو پاکستان میں بجلی اتنی مہنگی کیوں ہے؟ اگر بجلی کی بنیادی قیمت میں کمی کردی جائے اور بلوں پر لگائے گئے 13 قسم کے ٹیکسوں کے خاتمے کردیے جائیں تو عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔
آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی سے اچھی خاصی بچت شروع ہو چکی ہے، لیکن یہ بچت عوام تک ریلیف کی شکل میں منتقل ہونا تا حال شروع نہیں ہوئی۔ بجلی کے ٹیرف اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کیے بغیر معیشت کا پہیہ کسی صورت نہیں چل سکتا اور نہ ہی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔ عوام کے لیے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا حکومت اپنے وعدے پر عمل کر پائے گی یا یہ محض ایک اور سیاسی اعلان ثابت ہوگا؟ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ بجلی کے نرخوں میں کمی حقیقت بنے گی۔
اس وقت عوام سے پٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر متعدد ٹیکس وصول کیے جارہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ ٹی وی لائنسس فیس تک شامل ہے۔ 70 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی اور 20 روپے فی لیٹر تک کسٹمز ڈیوٹی بھی شامل ہے، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلرز مارجن سمیت دیگر چارجز اس کے علاوہ ہیں۔ اگر ٹیکس اور ڈیوٹیاں ختم ہو جائیں تو پٹرول عوام کو 120روپے فی لیٹر مل سکتا ہے مگر حکمرانوں نے حکومت چلانے کے لیے بجلی گیس کے بلوں کی ساتھ ساتھ پٹرول کا سہارا لے رکھا ہے، جس کے باعث غریب عوام پس رہے ہیں۔
ملک بھر میں ادویات کی قیمتوں میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے باعث عام شہریوں کے لیے علاج مزید مہنگا ہوگیا ہے۔ مختلف دواؤں کی قیمتوں میں 200 فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ ایول انجکشن کی قیمت میں دیکھا گیا، جس کی قیمت 432 روپے سے بڑھا کر 1500 روپے کردی گئی یعنی 233 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ صرف دوائیں ہی نہیں بلکہ نیوٹراسیوٹیکل اور سرجیکل آلات کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، جس نے عام آدمی کے لیے علاج مزید مشکل بنا دیا ہے۔
جن افراد کو بلند فشار خون، حرکت قلب اور شوگر سمیت دیگر امراض لاحق ہیں اور ان امراض کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات روز بہ روز مہنگی ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کے لیے ان دواؤں کا خریدنا مشکل تر ہوگیا ہے۔ حکومت زندگی بچانے والی دواؤں کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کرے جو کہ کم آمدن مریضوں کی قوت خرید سے باہر ہو رہی ہیں۔ غریب کی تنخواہ کا نصف سے زائد حصہ دواؤں کی خریداری اور علاج معالجے و طبی ٹیسٹوں کی مد میں چلاجاتا ہے جس کی وجہ سے گھر کے روز مرہ اخراجات پورے کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ملک میں مہنگائی بڑھنے کی رفتار ضرور کم ہوئی ہے مگر مہنگائی میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی رفتار ایک علیحدہ چیز ہے جو یہ ظاہرکرتی ہے کہ مہنگائی کس طرح بڑھ رہی ہے، مگر مہنگائی کم ہونا دوسرا پہلو ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ چیزوں کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوئی ہے جو بظاہر نظر نہیںآتا۔ مہنگائی کو قابو کرنا خالصتاً ایڈمنسٹریشن کا معاملہ ہے جس میں ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ وغیرہ کا تدارک کیا جاتا ہے۔
یہ تمام معاملات گڈ گورننس میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں گڈ گورننس کا یہ حال ہے کہ متبرک ماہ رمضان میں قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ جس کے لیے ذخیرہ اندوز مافیاز باقاعدہ منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حکومتی مشینری کے پاس اس کا کوئی توڑ نہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا میکانزم موجود ہی نہیں ہے۔
نہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو دیکھا جاتا ہے اور نہ گزشتہ ماہ کی قیمتوں کے ساتھ تقابل کیا جاتا ہے۔ اس وقت پھلوں کی پیداوار میں کمی نہیں ہوئی مگر ا ن کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے کیونکہ فروخت کنندہ پر کوئی چیک نہیں، وہ منہ مانگی قیمتیں مانگ رہے ہیں۔ چینی کی ایکسپورٹ سے قبل شوگر ملز نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مقامی منڈی میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ملکی کھپت کے لیے مقامی اسٹاک موجود ہے مگر اب چینی کی قیمت ایک سو تیس روپے کی بجائے ایک سو ستر روپے فی کلو ہوگئی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ شوگر ملز نے چند مقامات پر اپنے اسٹالز لگا کر شناختی کارڈ پر ایک سو تیس روپے فی کلو چینی دینے کا اعلان کیا ہے، جو صرف اشک شوئی کے علاوہ کچھ نہ ہے۔
ہم کب تک ان سستے بازاروں اور سبسڈی کے چکر میں پھنسے رہیں گے۔ کیا ہماری بیوروکریسی کو عوام کو لائنوں میں کھڑا کروا کر اشیائے ضروریہ فروخت کروانے میں دلی تسکین حاصل ہو تی ہے؟ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ریوینو اور ٹیکس ادا کرنے کے لیے بھی شہریوں کو لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ شہریوں کے ٹیکسوں پر پلنے والی بیورو کریسی ان شہریوں کے لیے سہولت کیوں نہیں پیدا کرتی۔
مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامی صلاحیتوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ملکی سطح پر قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہو رہی۔ پنجاب میں حکومت نے گزشتہ سال کسانوں سے گندم کے اسٹاکس نہیں خریدے اور مارکیٹ میں گندم کی قیمت بہت کم رہی۔ حکومت نے تندور پر روٹی کی قیمت 14 اور 15روپے میں مقرر کی مگر مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کم ہونے کے باوجود آٹے سے تیار شدہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے اگر ایک مرتبہ بڑھ گئے تو پٹرول کے نرخ کم ہونے کے باوجود کرائے کم نہیں کیے جاتے۔ بجلی کی قیمت میں حکومت اگر کوئی ریلیف دیتی ہے تو اس کے اثرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ تمام عوامل گڈ گورننس کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت میں اتنا دم ہے کہ حکومت چاہے تو عوام کو اچھا خاصا ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جاسکتی ہے‘اسی طرح بجلی کے نرخ بھی کم ہو سکتے ہیں‘ اگر حکومت اپنے اخراجات کو نہ بڑھاتی تو با آسانی عوام کو ریلیف دیا جا سکتا تھا۔ لیکن حکومت نے اچھا خاصا بجٹ پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں ‘مراعات میں صرف کر دیا۔اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یہی ریلیف عوام کو ٹرانسفر کیا جا سکتا تھا ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی قیمتوں میں کمی روپے فی لیٹر ا ئی ایم ایف حکومت نے کو ریلیف میں بجلی نہیں ہو جاتا ہے حکومت ا ہوئی ہے عوام کو بجلی کے کی قیمت کیا جا گیا ہے ہے اور رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
بلوچوں کا مطالبہ سڑکوں کی تعمیر نہیں لاپتہ افراد کی بازیابی ہے، شاہد خاقان عباسی
نجی ٹی وی کے مطابق عوام پاکستان پارٹی کے خواتین ونگ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ گرینڈ الائنس کی بات نہیں کی، اپوزیشن اتفاق رائے پیدا کرکے آگے بڑھے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے، تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ گرینڈ الائنس کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق عوام پاکستان پارٹی (اے پی پی) کے خواتین ونگ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انہوں نے کبھی گرینڈ الائنس کی بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن اتفاق رائے پیدا کرکے آگے بڑھے، جے یو آئی (ف) اور پی ٹی آئی کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے، جب کہ پی ٹی آئی کو اپنی سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔
شاہد خاقان عباسی نے بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہونے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہ کرنے پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کے بجائے اضافی آمدنی کو بلوچستان میں سڑکوں کے منصوبوں کے لیے استعمال کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام سڑکوں کی تعمیر کا مطالبہ نہیں کر رہے، بلکہ چاہتے ہیں کہ حکومت لاپتا افراد کا مسئلہ حل کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے نوجوان مایوس تھے اور ان کی آواز نہیں سنی گئی، پاکستان اور بلوچستان کو درپیش مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں احساس محرومی ہے، جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی، ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت میں کمی نہ کرنے کا فیصلہ بھی غلط تھا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی تاکہ بجلی سستی کی جا سکے، اگر آنے والے دنوں میں بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرول مہنگا ہوا تو حکومت بجلی کیسے سستی کرے گی؟۔ انہوں نے عوام کو مہنگائی سے کچھ ریلیف دینے کے لیے اچھی اقتصادی پالیسیوں پر زور دیا۔ نئی نہروں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کو عوام کو حقائق بتانے چاہئیں۔ نئی نہروں کی تعمیر کے منصوبوں کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے لیے پانی کی دستیابی ایک چیلنج رہے گی، کیونکہ دریاؤں میں پانی بتدریج کم ہو رہا ہے، اس معاملے پر سندھ میں بدامنی کا ماحول ہے۔
انہوں نے نہروں کے مسئلے پر سندھ میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افراتفری سے بچنے کے لیے عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ سابق وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ معدنیات صوبائی موضوع ہیں اور وفاقی حکومت اپنی پالیسی بنا کر اسے چھیننا چاہتی ہے۔ قبل ازیں عوام پاکستان پارٹی کے شعبہ خواتین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ترقی اور آئین کی بالادستی کے لیے موثر سیاسی نمائندگی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین پاکستان کے عوام کو موثر نمائندگی فراہم کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں خواتین کی نمائندگی کے ذریعے سیاسی نظام کو مزید مستحکم کیا جائے گا۔