عدالت نےفیصل جاوید کا نام پی این آئی ایل اور پی سی ایل سے نکالنے کا حکم دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
پشاور ہائیکورٹ نے رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فیصل جاوید کا نام پروویژنل نیشنل آئڈینٹیفکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) اور پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (پی سی ایل) سے نکالنے کا حکم دے دیا۔عدالت نے فیصل جاوید کی درخواست پر مختصر فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ درخواست گزار کو عمرہ ادائیگی پر جانے دیا جائے، نام 2024 کے درج 3 مقدمات کی وجہ سے لسٹ میں شامل کیا گیا، پی این آئی ایل اور پی سی ایل سے نکالا جائے۔
درخواست پر سماعت جسٹس صاحبزادہ اسداللہ اور جسٹس اورنگزیب نے کی۔ دوران سماعت جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ جن ایف آئی آرز میں آپ کا نام پی این آئی ایل پر ڈالا وہ ہمیں بتا سکتے ہیں۔ اس پر فیصل جاوید نے بتایا کہ جی ہمارے پاس ہیں اسلام آباد کے کیسز ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنااللہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے خلاف 6 ایف آئی آرز ہیں جو 2024، 2023، 2022 میں درج ہوئیں۔ پر جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ ان کیسز میں جو نام لسٹ میں ڈالا تھا کیا اب اس میں ان کا نام نکالا ہے؟
ثنا اللہ نے بتایا کہ ان کیسز میں ان کا نام لسٹ سے نکالا ہے، 3 میں نام پی این آئی ایل میں ڈالا اور پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں بھی ہے، ان کیسز میں 7 اے ٹی اے بھی لگا ہے، ان کیسز میں یہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے استفسار کیا کہ کتنے کیسز بچے جن میں ان کا نام لسٹ میں نہیں ڈالا۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 6 ایسی ایف آئی آرز ہیں جن میں ان کا نام لسٹ میں نہیں ڈالا۔
اس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ کسی اور ایف آئی آر میں ان کا نام لسٹ میں ڈال دیں گے۔ جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے استفسار کیا کہ فیصل جاوید اب کہا پر رہتے ہیں؟ تو پی ٹی آئی رہنما نے خود بتایا کہ صوابی کا رہائشی ہوں اسلام آباد میں رہتا تھا، ایک سال سے پشاور میں ہوں۔
جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ آپ کا عمرہ کا ویزہ اب ہے یا ایکسپائر ہوگیا ہے؟ وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ ویزہ میں ابھی ٹائم ہیں، یہ پشاور سے عمرہ کیلیے جائیں گے، نومبر 2024 کے کیسز ہیں اور لسٹ میں نام 6 مارچ 2025 کو ڈالا جاتا ہے، سیاسی بنیادوں پر کسی کا نام لسٹ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ دونوں لسٹ میں نام ڈالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دونوں کی قانونی حیثیت مختلف ہیں، 5 مارچ 2025 کو اسلام آباد پولیس کی سفارش پر نام لسٹ میں ڈالا، وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کو فیصل جاوید کا نام لسٹ میں ڈالنے کیلیے خط لکھا، پی سی ایل پر نام 5 سال کیلیے ڈال سکتے ہیں۔
ثنا اللہ نے بتایا کہ ان کا نام کیٹگری اے میں ہے، یہ عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہے، 26 نومبر کو جو ہوا وہ اسٹیٹ کے خلاف تھا، یہ وہاں پر عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہے، عدالت نے اشتہاری قرار دیا، لیٹر کو سیکشن آفیسر نے بھیجا اور متعلقہ افسر نے ہی نام لسٹ میں ڈالا، یہ وہاں پیش ہو کر ضمانت لیں پھر عدالت آ جائیں کہ جانے دیا جائے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اس عدالت نے درخواست گزار کو 15 اپریل تک حفاظتی ضمانت دی ہے، جس لیٹر پر نام لسٹ میں شامل کیا گیا وہ متعلقہ افسر نے نہیں کیا۔عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ میں ان کا نام لسٹ پی این ا ئی ایل کا نام لسٹ میں درخواست گزار ان کیسز میں نے بتایا کہ فیصل جاوید ایف ا ئی ا پی سی ایل میں ڈالا عدالت نے
پڑھیں:
شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں، کہاں بھاگ کر جائیں گے: سپریم کورٹ
—فائل فوٹوپنجاب حکومت نے سابق وفاقی شیخ رشید کی بریت کی اپیل پر شواہد پیش کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے وقت مانگ لیا۔
جی ایچ کیو حملہ کیس میں شیخ رشید کی بریت کی اپیل پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس اشتیاق ابراہیم بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
دورانِ سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ہے کہ التواء مانگنا ہو تو آئندہ اس عدالت میں نہ آنا، التواء صرف جج، وکیل یا ملزم کے انتقال پر ہی ملے گا۔
سابق وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہا ہے کہ میں پہلے دن سے مذاکرات کا حامی ہوں، لیکن ایسا نہ ہو مذاکرات کے نام پر مذاق رات نہ بن جائیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ کچھ ملزمان کے اعترافی بیانات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شیخ رشید کے خلاف کیا شواہد ہیں؟
شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ جن اعترافی بیانات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ فائل کا حصہ ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں، کہاں بھاگ کر جائیں گے۔
شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ حکومت مہلت خود مانگتی ہے، الزام عدالتوں اور ملزمان پر لگاتی ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اس عدالت میں صرف قانون کے مطابق ہی فیصلہ ہو گا، زمین گرے یا آسمان پھٹے، عدالت میں قانون سے ہٹ کر کچھ نہیں ہو گا، آئندہ ہفتے مقدمہ لگ جائے گا اس کی پرواہ نہ کریں۔