بیجنگ : چین کے نائب وزیر اعظم ڈنگ شوئی شیانگ نے صوبہ ہائی نان کے ساحلی شہر بوآؤ میں بوآؤ ایشیائی فورم کے سالانہ اجلاس 2025 کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بے مثال تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، اور دنیا بھر میں عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال واضح طور پر بڑھ رہی ہے۔

انھوں نے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے ، عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور ایشیا اور دنیا کے لئے ایک بہتر مستقبل کی تشکیل کے لئے مربوط کوششوں پر زور دیتے ہوئے ایک چار نکاتی تجویز پیش کی۔انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے، ایشیائی ممالک کو زیادہ سے زیادہ باہمی اعتماد کے ذریعے یکجہتی اور تعاون کو مضبوط کرنا چاہئے، کیونکہ مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایشیائی برادری کی تعمیر کے لئے اعلی درجے کا باہمی اعتماد ضروری ہے۔ دوسرا، ایشیائی ممالک کو کھلے پن اور انضمام کے ذریعے اقتصادی گلوبلائزیشن کو فروغ دینا چاہئے۔ تیسرا یہ کہ ایشیائی ممالک باہمی فائدے اور باہمی تعاون کے ذریعے خوشحالی اور ترقی کو فروغ دیں۔چوتھا، ایشیائی ممالک کو پرامن بقائے باہمی کے ذریعے امن اور استحکام کا تحفظ کرنا چاہیے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ایشیائی ممالک کے ذریعے

پڑھیں:

مسلم دنیا کو عصر حاضر کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے فکر اقبال سے رجوع کرنا ہوگا

28 برس کی عمر کے اقبال نے بازار حکیماں میں منعقدہ ایک مشاعرے میں جب یہ شعر پڑھا :

مو تی سمجھ کہ شانِ کریمی نے چن لیئے

قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے

تو مشاعرے میںموجود تمام اساتذہ سکتے میں آگئے تھے۔ ، اس شعر میں اقبال نے اللہ تعالیٰ کے سامنے ندامت سچی توبہ کی اہمیت کو یوں بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ماتھے پر پشیمانی اور ندامت کی وجہ سے آنے والے پسینے کے قطروں کو موتی کی طرح قیمتی جان کر چن لیا۔ اقبال کی نو جوانی میں ذہنی فکری ارتقا کی منازل کا تعین کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ زمانے کے کسی بھی بڑے شاعر دانشور ، فلسفی کے مقابلے میں بڑے دکھائی دیتے ہیں۔

بی اے کی تعلیم کے دوران جب اقبال کی گفتگو فیض الحسن سہارنپوری سے ہو تی تھی تواس سے اقبال کی فکری توانائی میں اضافہ ہو تا رہا، لیکن اقبال جلد اس منزل سے بھی آگے نکل گئے اور اب اُن کو پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ ملے اُن کی قربت سے اقبال مغربی فلسفے کی گہرائیوں پر بحث کے قابل ہو گئے تھے اور اس فکری ہمسفری میں وہ ایک جانب تو آرنلڈ کے ساتھ فکری سطح پر گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنی پُر اثرپرجوش اور فکری شاعری سے اُس زمانے میں کروڑوں افراد خصوصاً مسلمانوں کومتاثر کرتے ہیں اور یہ اثر نہ صرف آج تک برقرار ہے بلکہ روز بروز اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔

انسان زبانوں کی بنیاد پر علم شاعری ادب کو سمجھتا ہے اقبال تیس برس کی عمر میں اردو اور فارسی کے قدآور شعرا میں شمار ہونے لگے تھے جبکہ عربی اور انگریز ی زبانوں پر بھی اُن کو عبور حاصل تھا۔ مارچ 1899 ء میں علامہ اقبال نے ایم اے فلاسفی کر لیا تھا۔1904 ء کو جب پر وفیسر آرنلڈ برطانیہ چلے گئے تو علامہ اقبال نے فکری ارتقائی عمل میں پروفیسر آرنلڈ کی جدائی کو شدت سے محسوس کیا۔ 1903 ء میں علامہ اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہو گئے تھے۔

بعد میں یہاں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے۔ یہاں سے یکم اکتوبر1905 ء میں علامہ اقبال نے بر طانیہ جا کر کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینٹی کالج میں داخلہ لیا۔ آپ یہاں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے داخل ہو ئے تھے، اس لیے آپ پر ہوسٹل میں رہنے کی پا بندی نہیں تھی۔ یہاں آئے ہو ئے ابھی ایک مہینہ نہیں ہو اتھا کہ آپ نے بیرسٹری کے لیے لنکنز ان میں داخلہ لے لیا۔ یہاں ان کی ملاقات پرو فیسر براؤن جیسے قابل اسکالر سے ہوئی۔ بعد میونخ یونیورسٹی سے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ، لندن میں قیام کے دوران پرو فیسر آرنلڈ ’جو لندن یو نیورسٹی میں عربی پڑھاتے تھے‘ اقبال باقاعدگی سے اُن سے ملنے جا یا کرتے تھے۔

سر عبدالقادر بھی اُس زمانے میں یہیں تھے۔ اقبال کو کیمبرج کے اساتذہ میں وائٹ ہیڈ،میگ ٹیگرٹ، وارڈ، براؤن ، اور نکلسن جیسی عظیم ہستیاں اساتذہ کی صورت میں ملیں۔ اِن میں سے بیشتر پروفیسروں سے اقبال کی دوستی ہو گئی۔ پروفیسر نکلسن ’جو فارسی اور عربی زبانوں کے ماہر بھی تھے، اُنہوں نے علامہ اقبال کی فارسی مثنوی ،،اسرار خودی،، کا انگریز ی ترجمہ بھی کیا تھا جس سے برطانیہ سمیت یورپ میں اقبال بطور مشرقی شاعر متعارف ہو گئے تھے۔ 4 نومبر 1907 ء کو علامہ اقبال کو میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔ 1908 ء میں علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی مقالہ ( ایران میںمابعد الطبیعیات کا ارتقا ) پہلی مرتبہ لندن سے شائع ہوا۔

انتساب پروفیسر آرنلڈ کے نام تھا۔ لندن میں قیام کے دوران علامہ اقبال نے مختلف موضو عات پر لیکچروں کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا جیسے اسلامی تصوف، مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر ،اسلا می جمہوریت ، اسلام اور عقلِ اسلامی ، وغیرہ بد قسمتی سے اِن درجنوں لیکچروں میں سے ایک بھی دستیاب نہیں ، واضح رہے کہ ایک ذہین فطین اسکالر اپنے فکری ارتقا کی منازل طے کر تا کئی ایسے نظریا ت میلانات ، رحجانات کو ترک بھی کر تا جا تا ہے جن کو وہ شروع میں بہت دلچسپی اور لگاؤ سے اپنا تا ہے۔

علامہ اقبال کا علمی اور فکری ارتقا بر طانیہ اور جرمنی کے قیام کے دوران جوئے کہستان کی طرح سمتیں بدلتا رکاوٹوں کو توڑ تا آگے بڑھا اور اِ ن کے دو بنیادی خیالات یہاں گہرے مطالعے، تجربات، مشاہدے اور تجزیے کے بعد بدل گئے وہ شروع میںوطنیت اور واحدت الوجود کی طرف میلان رکھتے تھے جس سے متعلق اُن بہت پُر اثر اشعار بانگ درا میں ملتے ہیں ، مثلاً بانگ ِ در ا کی نظم ( نیا شوالہ ) میں وطنیت کے نظریے میںوہ اس حد تک آگے نکل جا تے ہیں ۔

اپنوں سے بیر رکھنا تُو نے بتوں سے سیکھا

جنگ و جدل سیکھایا واعظ کو بھی خدا نے

تنگ آکے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا

واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے

پتھر کی مورتوں میں ، سمجھا ہے تُو خدا ہے

خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرا دیوتا ہے

اسی طرح ترانہ ہندی جس کو آج بھی ہندوستان کی حکومتیں مسلمانوں میں بھی وطنیت کا درس دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں اس میں اقبال نے کہا کہ

سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اِس کی یہ گلستان ہمارا

 اقبال نے جب وطنیت سے نکل کر دین ِاسلام کے نظریہ امت،، قومیت ،، کو اپنایا تو اپنے ہی ہندی ترانے کو بدل کر ملی ترانہ کہا۔ اس ترانے میںیہ اعلان کر دیا

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہیں سارا جہاں ہمارا

باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم

سو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کے فکری رحجان اور میلان میں تبدیلی رو نما ہو تی ہے جب 1908 ء میں وہ یورپ میں اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کر چکے تھے تو ایک تو وہ وطنیت کے نظریے سے دستبر دار ہوئے گئے تھے۔ تصوف میں روائتی پیر پرستی پر تنقید کرتے ہیں اور وحدت الو وجود پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ پھر اُنہوں نے یورپ کی تہذیب و تمدن کو قریب سے دیکھا یہ وہ دور تھا جب کارل مارکس کے اشتراکی نظریات سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر ایک دوسرے کے متضاد یعنی آمنے سامنے کھڑے تھے وہ چین اور روس میں آنے والی اِن تبدیلیوں کو دیکھ چکے تھے۔

یہ تمام چیزیں اُن کی شاعری میں بھی ملتی ہیں۔ پھر علامہ اقبال دین اسلام کو اِن دونوں عالمی نظاموں کے مقابلے میں بہتر قراردیتے ہیں ، علامہ اقبال کی نگاہ دنیا کی سیاست ،سیاسی نظریات، عالمی معیشت ، مغربی جمہوریت ، کیمونزم ، سوشلزم ، مذاہب عالم ، اور تاریخ پر بہت گہری تھی۔ اقبال اسلامی تاریخ کو اپنی شاعری میں پُر جوش انداز میں بھی بیان کرتے ہیں اور اسلامی تاریخ میں جو جو غلطیاں سرد ہو ئیں اُن کا بھی ذکر تنقید کے ساتھ ملتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اقبال اسپین کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اُن کی نظم کے چند اشعار دیکھیں

( اند لس کے میدان میں طارق کی دعا)

یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے

جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوق ِ خدائی

دونیم اِن کی ٹھوکر صحرا و دریا

سمٹ کر پہاڑ اِن کی ہیبت سے رائی

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

دو عالم سے کر تی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذتِ آشانائی

 طارق بن زیاد کی قیادت میں اسپین کی فتح دنیا کی عسکری تاریخ کی اہم ترین فتح تسلیم کی جاتی ہے اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں آج کشتیاں جلادینے کی ضرب المثل استعمال ہو تی ہے۔ اس نظم میں اُس جذبے کو بیان کیا ہے جہاں مومن کا ایمان کامل ہو تا ہے اور وہ مادیت کی حقیقت کو بھی پہچانتا اور حق کی بھی پوری معرفت رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ اسپین میں مسلمانوں نے پانچ سو سال مستحکم انداز میں حکومت کی اور پھر رفتہ رفتہ زوال آمادہ ہو ئے اور آخر کار اسپین چار ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔ اقبال تاریخ میں خلافت راشدہ کے دور کا گہرا مطالعہ اس کاموازانہ وہ اپنے عہد کے تمام حکومتی نظاموں سے کر چکے تھے وہ یہ جا نتے تھے کہ دنیا کی تاریخ کبھی ایک سی نہیں رہتی ہے اور اگرقوم کو امت کو یہ احسا س اور شعور ہو کہ اُن کے زوال کی وجوہات کیا ہیں تو وہ تاریخی عمل کے دوران پیدا ہو نے والے کسی موقع کو ضائع نہیں کرتی، وہ مسلمان قوم کو مایوس بھی نہیں ہو نے دیتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ جب بغداد کو ہلاکو خان نے تاراج کیا اور مسلمان بالکل برباد ہو گئے تو پھر اِن ہی منگولوںمیں اسلام قبول کر نے والے پید اہو ئے اور ہلاکو کی تین چار نسلوں بعد ہی امیر تیمور جیسا فتح پید ا ہواجس پر اقبال کہتے ہیں ۔

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

 جب علامہ اقبال 1905 ء میں پڑھنے کے لیے یورپ جارہے تھے اور 1908 میںاپنی تعلیم کے مکمل ہو نے تک خلافت عثمانیہ جو سلطنت عثمانیہ تھی اس قدر زوال پزیر تھی کہ اُس کی وہ حکومت جو کبھی ایشیا افریقہ اور یورپ تینوں بر اعظموں کے ملکوں میں تھی اب سکڑ رہی تھی اور مردم بیمار کہلاتی تھی یہ دورحکومت مغربی نو آبادیا تی نظام کے عروج کا دور تھا اُن کے سامنے 1912-13 میں بلقان کی جنگ میں ترکی کو شکت ہو ئی طرابلس کی جنگ میں بھی اٹلی کے مقابلے میں مسلمانوں کو شکست ہو ئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہاں لیبیا ،، طرابلس میں مجاہدین بہت بہادری سے لڑے اور اٹلی کو سخت مقابلے کر نے پڑے 1912 ء میں اقبال نے شہکار نظم فاطمہ بنت عبداللہ لکھی یہ عرب لڑکی مجاہدین کو پانی پلاتے ہو ئے طرابلس کے میدان میں شہید ہو ئی تھی اقبال اِس لڑکی کو یوں خراج عقیدت پیش کر تے ہیں ۔

( نظم۔ فاطمہ بنت عبداﷲ)

فاطمہ ! تُو آبروئے امتِ مرحوم ہے

ذرا ذرا تیری مُشت ِ خاک کا معصوم ہے

یہ سعادت حورِ صحرائی تری قسمت میں تھی

غازیانِ دین کی سقائی تری قسمت میں تھی

یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ وسپر

ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر

یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی

ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خا کستر میں تھی!

اپنے صحر ا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں

بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!

فاطمہ ! گوشبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے

نغمہ ء عشرت بھی اپنے نالہء ماتم میں ہے

رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے

ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے

ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں

پل رہی ہے ایک قوم ِتازہ اس آغوش میں

بے خبر ہوں گرچہ اُن کی وسعت ِ مقصد سے میں

آفرینش دیکھتا ہوں اُن کی اس مرقد سے میں

تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور

دیدِ انساں سے نا محرم ہے جن کی موج ِ نور

جو ابھی ابھرے ہیں ظلمت خانہ ایام سے

جن کی ضو ناآشنا ہے قید ِ صبح وشام سے

جن کی تابانی میں انداز ِ کہن بھی نَو بھی ہے

اور تیرے کوکبِ تقدیر کا پر تو بھی ہے

 اس نظم میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب طربلس میں جنگ جاری تھی تو اس نظم میں اقبال کی آنکھ جو دیکھ رہی تھی وہ عام لوگوں کو دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کس کو معلوم کہ 35 سال بعد نو آبادیات کا خاتمہ شروع ہو جا ئے گا پھر اقبال نے یہ بھی دیکھا کہ 1914 ء سے 1918 ء تک پہلی جنگِ عظیم ہو ئی جس میں لاکھوں فوجی ہندوستان سے بھرتی ہو کر مختلف محاذوں پر لڑے اسی دوران ہند وستان میں ایک جانب 1905 ء میں انگریز سرکار نے بنگال جیسے بڑے صوبے میں انتظامی معاملات کو بہتر کرنے کے لیے بنگال کو مشرقی اور مغربی بنگال دو حصوں میں تقسیم کر دیا تو اس پر ہندووں نے سخت درعمل کیا کیونکہ اس تقسیم سے مسلمانوں کو فائدہ ہورہا تھا اور ہندو تاجروں کو نقصان تھا۔ لیکن جنگ عظیم اوّل سے قبل ہی انگریز ہندووں کے دباؤ کو برداشت نہ کر سکے اور انگریزوں نے 1911 ء میں تقسیم بنگال کا فیصلہ منسوخ کر دیا اقبال نے اس کے چند مہینوں بعد ہی 1912 ء میں لاہور مو چی دروازے پر اس کے خلا ف احتجاجی جلسے میں شرکت کی۔ یہ علامہ اقبال کی جانب سے ہندوستان کی عوامی سیاست میں پہلی باقائدہ شرکت تھی علامہ اقبال نے اس جلسے سے پُر جوش خطاب یوں کیا۔

’’مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاؤں مارنے چاہیں ، ہندوںکو اب تک جو کچھ ملا ہے محض اپنی کوششوں سے ملا ہے، اسلام کی تاریخ دیکھو وہ کیا کہتی ہے ، عر ب کے خطے کو یورپین معماروں نے ردی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کریہ کہا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہو سکتی ہے ، ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا ، اور خدا کی قسم !روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی ،یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بَل پر کھڑی ہوئی۔!اقبال کی اس تقریر میں جذبات بھی ہیں اور تاریخٰ حقائق پر اُن کی نظر بھی ہے۔ اقبال تنسیخ تقسیم بنگال کے مرحلے پر ہی ہند وتنگ نظری کو بھانپ گئے تھے۔

1916 ء میں قائد اعظم کی کوششوں سے کانگریس اور مسلم لیگ کے اجلاس لکھنو میں منعقد ہو ئے تھے اور یہاں میثاق لکھنو ( لکھنو پیکٹ ) مسلم لیگ اور کانگریس میں طے پا گیا تھا جس میں ہندوں نے ہندوستان میںجداگانہ طریقہ انتخاب اور پارلیمنٹ اور سرکاری ملازمتوں میں ہندو ستان کی کل آبادی میں 30 فیصد تناسب رکھنے والے مسلمانوں کے حصے اور مسلم شناخت کے مطابات کو تسلیم کر کے معاہد ہ بھی کر لیاگیا علامہ اقبال ایک جانب مغربی جمہوریت کیمونزم کے نظاموں کی کمزوریوں اور خامیوں کا پورا پورا ادراک رکھتے تھے تو دوسری جانب وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کو بر طانوی ہند میں انگریز سرکار سے آزادی حاصل کر نے کے لیے مسلمانوں کو جمہوری سیاست کے حوالے صر ف قائداعظم ہی حقوق دلوا سکتے ہیں۔

پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد دنیا تبدیل ہو چکی تھی۔1918 ء میں جب پہلی جنگ عظیم ختم ہو ئی تو دنیامیں سلطنت عثمانیہ جیسی سلطنت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ روس میں زار شاہی سلطنت ختم ہو گئی تھی اور سوویت یونین میں اشتراکتی کا نظام تھا۔ برطانیہ کی نو آبادیات دنیا کی 25 فیصد آبادی اور 24 فیصد رقبے پر مشتمل تھی مگر اب برطانیہ کے لیے اس رقبے اور آبادی پر مشتمل نو آبادیا ت کو کنٹرول میں رکھنا مشکل سے مشکل تر ہو تا جارہا تھا۔ امریکہ اب سپر پاور تھا جو آزادانہ تجارت ، آزادی ِرائے اور جمہوریت کا چیمپین بھی کہلاتا تھا۔ یہ دور علامہ اقبال کی جد وجہد اور شاعری میں انتہائی فکری ارتقا کا دور دکھا ئی دیتا ہے۔ دنیا کے ذہین فطین انسان سرمایہ اور سرمایہ دارامریکہ منتقل ہو رہے تھے اور دنیا نے یہ جان لیا تھا کہ دنیا کا مستقل امریکہ ہے۔

اگر چہ اقبال نے امریکہ کا دورہ نہیں کیا تھا مگر وہ سر مایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کو اس طرح کی مادر پدر آزادی کے ساتھ یورپ میںدیکھ چکے تھے، اس لیے وہ امریکہ کی تیز رفتار ترقی سے زیادہ متا ثر نہیں تھے۔ 1925 ء میں لینن کی وفات کے بعد اسٹالن نے سختی اور ظلم کے ساتھ اشتراکیت کو سابق سوویت یونین میں نافذ العمل کیا۔ اسی سال جرمنی میں نازی پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور 1925 ہی میں ہندوستان میں ہندو معتصب تحریک اور تنظم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ(RSS ) ناگپور میں وجود میں آئی جس کے بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوار تھے۔ یہ وہ دور ہے جب انگریز یہ کوشش کر رہا تھا کہ ہندوستان میں مقامی طور پر کچھ اختیارات کسی نیم جمہوری ڈھانچے کی بنیاد پر کانگریس اور مسلم لیگ جیسی سیاسی پارٹیوں کی بنیادوں پر منتقل کئے جائیں کانگریس اگرچہ خود کو ایک لبرل اورسیکولر،جماعت قرار دیتی تھی مگر اس میں اکثریت ہندو تعصب کے زیراثر تھی اور اس کو سب سے پہلے علامہ اقبال نے 1911-12 ء میں ہی محسوس کر لیا جب تنسیخ بنگال ہو ئی تھی۔ اقبال کو جنگ عظیم اوّل کے فوراً بعد جلیا نوالہ باغ کے واقعہ نے متاثر کیا تھا جب 13 اپریل 1919 ء کو رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے پر قتل عام کیا تھا۔ پھر 6 مئی 1919 ء تا 8 اگست1919 ء تیسری اینگلو افغان جنگ جاری رہی اس دور میں علامہ اقبال ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی بنیاد پر سیاست میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔

علامہ اقبال یہ جانتے تھے کہ ہندوستان پر انگریز کی آمد سے قبل ایران افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے تہذیبی ، تمدنی ، مذہبی ، ثقافتی تاریخی اثرات نمایاں رہے ہیں۔ پھر سکھوں او ر انگریزوں کے خلاف افغانستان ہی سے مزاحمت کا سامنا بھی رہا ہے ، دوسری جانب ہندو ہندوستان میں ہندو راج چاہتے تھے۔ ہندو ستان میں 540 سے زیادہ ریاستیں تھیں ۔ وائسرائے ہند جو شہنشاہ برطانیہ کا برصغیر میں نائب تھا کانگریس اور مسلم لیگ کو انتخابات کی بنیاد پر ایک پارلیمانی نظام کے تحت نچلی سطح پر شریک ِ اقتدار کر نے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ انگریز یہ اندازہ کرچکا تھا کہ اب اس اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے پارلیمانی طرز کی اصلاحات ضروری ہیں۔ یوں ہندوستان میں انگریز اس کے لیے ایک آئین تشکیل دینا چاہتا تھا اور یہ آئین وہ برطانیہ کی پارلیمنٹ سے تیار کروانا چاہتا تھا۔ البتہ اس کے لیے مشاورت مسلم لیگ اور گانگریس جاری تھی کبھی برطانیہ سے وفد ہندوستان آئے تو کبھی گول میز کانفرنسیں لندن میں ہوئیں۔

اس دوران اقبال اور قائد اعظم کو کانگریس کی طرف سے اُس وقت دھچکا لگا جب 1928 ء میں کانگریس کے موتی لال نہرو نے مسلم لیگ سے بغیر مشورہ کیے میثاق لکھنو کو مسترد کرتے ہو ئے نہرورپورٹ پیش کردی، جس میں ہندوستان میں ہندو اکثریت کی بنیاد پر انگریز سے حکومت کا پورا حق مانگا گیا۔ مسلمانوں کے ا قتصادی، سیاسی تحفظ کی ضمانت اور جداگانہ انتخاب کو مسترد کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں قائداعظم نے1929 ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کئے۔ قائد اعظم نے ایک بار پھر یہ کوشش کی کہ ہندوستان میں انگریز کے خلاف ہند و مسلم اتحاد کو بچایا جائے مگر اس کے مقابلے میں علامہ اقبال نے ہندو ذہنیت کو پہنچاتے ہوئے 1930 ء الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہو ئے پاکستان کا تصور پیش کر دیا۔ دوسرے سال ہی اقبال 1931 ء میں لندن میں ہو نے والی دوسری گو ل میز کانفرنس میں قائدا عظم کے ہمراہ روانہ ہو ئے۔

واضح رہے کہ 1930-32 ء دنیا میں عظیم عالمی کساد بازاری کا دور تھا جب پوری دنیا کی میں بے روزگاری اور اقتصادی بحران تھا 1930 ء جرمنی میںہونے والے انتخابات میں نازی پارٹی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن چکی تھی اور 1933 ء میں ہٹلر برسر اقتدار آگیا تھا۔ جب علامہ اقبال دوسری گول میز کانفرنس کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو بمبئی میں اٹلی کے سفارت خانے کے ڈائریکٹر نے علامہ سے گذارش کی کہ میسولینی سے ملاقات کریں۔ جس پر اقبال نے آمادگی ظاہر کی اور پھر یہ ملاقات ہو ئی جس میں میسو لینی کو اقبال نے بہت متاثر کیا، جبکہ ہندو ستان سے 1926 ء میں ر ابندر ناتھ ٹائیگور میسولنی کی دعوت پر 30 مئی سے22 جون تک اُن کے سرکاری مہمان رہے تھے۔

بعد میں اِ ن کے چاہنے والے افسوس کر تے رہے اور خود ٹائیگور نے یہ اعتراف بھی کیا کہ مسولینی کی دعوت پر اٹلی جانا اُن کی غلطی تھی، مگر اقبال کی گفتگو ریکارڈ پر ہے جس میںاُنہوں ایک تو نبی کریم ﷺ کے حوالے سے بتایا تھا کہ شہروں کو بڑا کر نے کی بجائے مزید چھوٹے شہر آباد کئے جا ئیں۔ دوسرا اٹلی کا موازانہ ایران سے تہذیب اور تمدن کے اعتبار سے کیا تھا اور مسولینی کو اِن کی پالیسیوں کے کمزور پہلووں سے آگاہ کیا تھا۔ اس لیے اقبال یا اقبال کے پر ستار کبھی بھی میسولینی اور اقبال کی ملاقات پر افسوس کاا ظہار نہیں کرتے۔ اقبال نے واپسی پر فلسطین اور مصر کا دورہ بھی کیا 1932 ء میں اقبال اسپین گئے اورشہکار نظم ( مسجدِ قر طبہ ) لکھی جس میں وقت کو بنیاد بنا کر اپنے افکار پیش کئے ہیں ، چند اشعار

( نظم مسجدِ قر طبہ )

سلسلہ ء روز وشب نقش گر حادثات

سلسلہء روز وشب اصل حیات وممات

سلسلہء روز و شب تار حریر دورنگ

جس بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

سلسلہء روزو شب ساز ازل کی فغاں

جس سے دکھاتی ہے ذات زیروبم ممکنات

تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ

سلسلہء روز وشب صیرفی کائنا ت

توہو اگر کم عیار میں ہوں اگر کم عیار

موت ہے تیری برات موت ہے میری برات

تیر ے شب وروز کی اور حقیقت ہے کیا

ایک زمانے کی رو جس میں دن ہے نہ رات

اقبال 1933 ء میں افغانستان کے بادشاہ محمد نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان کی تعلیمی پالیی کی تشکیل کے لیے افغانستان گئے تھے اس دورے کی تفصیلات اور اٹلی میں مسولینی سے گفتگو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اقبال کی نظر میں آج کے پاکستان ، ایران ، افغانستان ،ترکمنستان ، آزربائجان ، تاجکستان ، کرغیزستان ،ازبکستان ، قازستان،وغیرہ ایک بلاک کی صورت میں تھے۔ وہ تاریخ میں یہ دیکھ رہے تھے کہ یورپ کو اٹھارویں صدی سے عروج حاصل ہوا ہے، اور ابن خلدون کے نظریے کے مطابق دیکھ رہے تھے کہ جس طرح ایک انسان بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی منازل طے کرتا موت سے ہم آغوش ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ مسلمانوں کی نشائتہ ثانیہ کو دیکھ رہے تھے وہ مغرب کی ترقی کے اعتبار سے پیش گوئی کر چکے تھے

تماری تہذیب اپنے خنجرسے آپ ہی خود کشی کرئے گی

جو شاخ ِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

میرے خیال میں 1973 ء کی اسرائیل عر ب جنگ کے بعد پاکستان میں 1974 ء کی اسلامی کانفرنس ایک جنبش تھی اور اس کے مقابلے کے لیے سابق سوویت یونین اور امریکہ اور یورپ نے اپنے اپنے طور پر مختلف اسٹرٹیجی بنائی تھی جس میں سوویت یونین 1990 ء شکست کھا گیا۔ اب امریکہ جیسا ملک جو آزادیِ اظہار جمہوریت اور آزادانہ تجارت کا علمبردار آج صدر ٹرمپ کی قیادت خود اس کی نفی کر ہا اور یورپ ، کینیڈا امریکہ کے آپس کے تضاد ات ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔

بھارت ، چین ، روس ، برازیل ، جنوبی افریقہ ، سنٹرل ایشیا ،ایران اپنے اپنے طور پر زمانے کی گردش کے تحت مغرب ڈھائی سو سالہ بوڑھے بھیڑے کے خود کشی کرنے کے عمل کو دیکھ کر اپنی پوزیشنیں مستحکم کر رہے ہیں آج خود یورپی، امریکی دانشور ماہرین اقتصادیات امریکہ اور یورپ کے زوال اور ایشیا کے عروج پر ٹھوس دلائل دے رہے ہیں اور ہمیں علامہ اقبال کی بصیرت تاریخی حقیقت کی صورت دکھائی دے رہی ہے۔  

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان
  • اسحاق ڈار اور امارات کے نائب وزیراعظم کی ملاقات، باہمی تعلقات مزید مضبوط بنانے پر زور
  • چین اور گبون نے سیاسی باہمی اعتماد کو گہرا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، چینی صدر
  • بچوں کے روشن مستقبل کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائیگا :  پولیو کے مکمل خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے : وزیراعظم : لاہور سے باکو پیآئی اے کی براہ ست پر وازوں کا آگاز سفارتی فتح قرار
  • پاکستان‘ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری و تجارتی خلاء دور کرنا ہو گا: شافع حسین
  • مسلم دنیا کو عصر حاضر کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے فکر اقبال سے رجوع کرنا ہوگا
  • پاکستان کی سنگاپور میں منعقد ہونے والے ’’تھنک ایشیا‘‘فورم میں شرکت
  • پاکستان اور افغانستان کا روابط برقرار رکھنے اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ
  • کابل؛ اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، امن وامان کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
  • چینی صدر کا ویتنام،ملائیشیا اور کمبوڈیا کا دورہ کامیاب رہا ہے، چینی وزیر خارجہ