پنجاب کابینہ: اسپیشل افراد، بزرگوں اور طلبہ کے لیے مفت سفر کی منظوری
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
پنجاب کابینہ نے صوبے میں اسپیشل افراد، بزرگوں اور طلبہ کے لیے مفت سفر کی سہولت کی منظوری دے دی۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا 24واں اجلاس اجلاس ہوا، جس میں اہم فیصلے کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں وفاق کے بعد پنجاب کابینہ میں بھی توسیع، نئے وزرا کون ہوسکتے ہیں؟
اجلاس میں پنجاب میں اسپیشل افراد، بزرگوں اور طلبہ کے لیے مفت سفر کی سہولت کی منظوری دے دی گئی، جبکہ طلبہ کے لیے ٹرانسپورٹ کارڈ جاری کرنے کی تجویز کا جائزہ لیا گیا۔
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے چکن کے نرخ کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کی ہدایت کی۔
اجلاس میں جنسی جرائم کے لیے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹس کے قیام کی منظوری دے دی گئی، جبکہ ریپ کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی۔
کابینہ اجلاس میں بھکر اور بہاولنگر میں ایئرپورٹ بنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا، جبکہ ضلع بھکر میں ایئر ایمبولینس سروس کے لیے ایئر اسٹرپ کی تعمیر کے فنڈز کی منظوری دے دی گئی۔
اجلاس میں پنجاب کی ایئر لائن سروس کے آغاز کی تجویز کا جائزہ بھی جائزہ لیا گیا۔
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے ٹریفک چالان اور جرمانے کی وصولی یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ جرمانے کی عدم ادائیگی پر زیروٹالرنس پالیسی اپنائی جائے۔
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے لیگل ریفامز کے لیے پلان طلب کرلیا، جبکہ کابینہ میں نئے ایڈووکیٹ جنرل امجد پرویز کی تعیناتی کا خیر مقدم کیا گیا۔
اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہاکہ حکومت آتے ہی سفارشوں کی لائن لگ گئی تھی لیکن کسی بھی سفارش پر عمل نہیں کیا۔
انہوں نے کہاکہ لا آفیسرز کی 100 فیصد میرٹ پر تعیناتی ہونی چاہیے، تاکہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ زیادتی کے واقعات کا سن کر سرشرم سے جھک جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پنک سالٹ پاکستان کا ہے صرف پیکجنگ کرکے فائدہ دوسرے ممالک اٹھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ شہریوں نے نگہبان رمضان پر نہایت مثبت رسپانس دیا ہے۔
مریم نواز نے کہاکہ 25 لاکھ 64 ہزار گھرانوں کو نگہبان رمضان 2025 کے چیک مل چکے ہیں، خوشی ہوئی کہ وفاق اور دیگر صوبوں نے پنجاب کے رمضان پیکج کو فالو کیا۔
انہوں نے کہاکہ جلد 1.
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے عیدالفطر پراشیائے خورونوش کے نرخ پر کنٹرول رکھنے کی کڑی ہدایت کی۔
انہوں نے کہاکہ پہلی بار رمضان میں قیمتیں کنٹرول میں رہیں، لائنز نہیں لگی اور دھکم پیل نہیں ہوئی، 15 سال میں سب سے سستا رمضان بازار لگانے پر سلمیٰ بٹ اورپوری ٹیم کو شاباش دیتی ہوں۔
صوبائی کابینہ نے 40 ہزار اسپیشل طلبہ کو وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی طرف سے عید گفٹ دینے پر خراج تحسین پیش کیا۔
اجلاس میں طلبہ کے لیے گریڈ نگ سسٹم کے لیے ورلڈ بینک سے معاہدہ سائن کرنے کی منظوری دے دی گئی، جبکہ پنجاب فرٹیلائزر کنٹرول ایکٹ کی خلاف ورزی پر جرمانے بڑھا دیے گئے۔
اجلاس میں ناجائز اسلحہ کے تدارک کے لیے پنجاب آرمز آرڈیننس کی خلاف ورزی پر جرمانے اور سزا مزید سخت کردی گئی۔ جبکہ پیدائش اور ڈیٹھ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کی فیس ایک سال کے لیے معاف کر دی گئی۔
اجلاس میں نادار اور مستحق افراد کو مفت قانونی امداد یقینی بنانے کے لیے پنجاب لیگل ایڈ رولز میں ترمیم کی منظوری دے دی گئی۔
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے پنجاب میں چاول کی دو فصلیں کاشت کرنے کی پابندی کی تجویز کو مسترد کردیا۔
اجلاس میں 664 بصارت سے محروم افراد (VIPs) کو ڈیلی ویجز پر ایڈجسٹ کرنے کی منظوری دے دی گئی، جبکہ بصارت سے محروم افراد (VIPs) کی مزید سماجی شمولیت کے لیے تجاویز کی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں پنجاب کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ میں 3904 آسامیوں کے قیام کی منظوری دی گئی، جبکہ شیخ زید میڈیکل کالج، رحیم یار خان کے نئے کارڈیک سینٹر کے لیے ایڈہاک، کنٹریکٹ بنیادوں پر بھرتیوں کی اجازت کی منظوری دے دی گئی۔
اجلاس میں پنجاب لائف انشورنس کمپنی (PLIC) میں کلیدی عہدوں پر بھرتی کے لیے سلیکشن کمیٹی کی منظوری دے دی گئی۔
اجلاس میں محکمہ خزانہ کے اسپیشلائزڈ یونٹ میں خالی آسامیوں پر نئی بھرتیوں کی منظوری دے دی گئی۔
اجلاس میں نواز شریف سینٹر آف ایکسی لینس فار ارلی چائلڈ ایجوکیشن، چلڈرن لائبریری کمپلیکس لاہور کے لیے 32 نئی آسامیوں کے قیام کی منظوری دے دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں پنجاب کابینہ کا احتجاج میں زخمی اور شہید پولیس اہلکاروں کے لیے امدادی پیکج کا اعلان
اجلاس میں فسادات سے نمٹنے کے لیے 2 ہزار نفری پر مشتمل رائٹ مینجمنٹ (Riot Management) پولیس کے قیام کی منظوری دے دی گئی، جبکہ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے قیام کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اہم فیصلے پنجاب کابینہ مریم نواز مفت سفر وزیراعلٰی پنجاب وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اہم فیصلے پنجاب کابینہ مریم نواز مفت سفر وی نیوز کی منظوری دے دی گئی کے قیام کی منظوری مریم نوازشریف نے اجلاس میں پنجاب انہوں نے کہاکہ پنجاب کابینہ طلبہ کے لیے مریم نواز کرنے کی مفت سفر
پڑھیں:
آدرشی بزرگوں کی آخری کڑی
آئی پی ایس سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وقت نہیں مل سکتا۔ یہ قابل فہم تھا کیوں کہ پروفیسر خورشید احمد نہ کسی عام عالم کی طرح عالم تھے، نہ عام سیاست دان کی طرح سیاست داں اورنہ وہ ہمارے دیکھے بھالے پارلیمنٹیرینز جیسے تھے۔ میں مایوس تو ہوا لیکن ہمت نہ ہاری، جماعت اسلامی کے اجتماع عام منعقدہ مینار پاکستان پہنچ گیا اور اس کے انٹرنیشنل سیشن کے بعد پروفیسر صاحب کا پیچھا کرتا ہوا رہائشی علاقے میں داخل ہو گیا۔ انھیں بھی شاید احساس ہو گیا تھا کہ کوئی ان کے ’نقش قدم‘پر چلتا آرہا ہے۔ بس، اس نادر موقع سے فایدہ اٹھا کر اپنی رفتار بڑھائی اور ان کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے عرض کی:
’آپ کے چند منٹ درکار ہیں۔‘
’کس موضوع پر۔‘
جیسے جیسے ان کی عمر بڑھ رہی تھی، ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کی تعداد اورگفتگو کی رفتار میں بھی اضافہ ہو رہا تھا، اس وجہ سے پہلی بار ملنے والوں کی سمجھ میں ان کی بات ذرا دیر سے آتی تھی۔ میرے پوچھے گئے سوال کی رفتار بھی اگرچہ تیز تھی لیکن خوش قسمتی سے نہ صرف الفاظ کم تھے بلکہ ان کا لہجہ بھی میرا دیکھا بھالا تھا، اس لیے مجھے بات سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور میں نے کہا کہ صلاح الدین صاحب کے بارے میں۔ فوراً رک گئے اور کہا:
’آؤ، یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔‘
انھوں نے ایک خالی خیمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ دو قدم بڑھا کر ہم اس میں داخل ہو گئے۔ ایک پر ہجوم اجتماع میں یہ پر سکون گوشہ تھا جس کے عین وسط میں جا کر وہ شخص بے تکلفی سے دری پر بیٹھ گیا، کچھ روز پہلے تک جس کے بارے میں مجھے خیال تھا کہ اس سے شاید کبھی وقت نہ مل سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاثر اور حقیقت ہمیشہ ایک سے نہیں ہوتے۔ میں نے خود اپنے آپ کو بتایا۔
’صلاح الدین‘
وہ آلتی مار کر بیٹھ گئے اور انھوں نے ’تکبیر‘کے شہید بانی کا نام لیا، لحظہ توقف کیا پھر کہا:
’محض صحافی نہ تھے۔‘
اپنی عادت کے برعکس انھوں نے پھر توقف کیا اور کہا کہ فی الاصل ایک استاد تھے، ان کی صحافت کو نہیں سمجھا جا سکتا اگر ان کی شخصیت کے اس پہلو کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔یوں لگا جیسے ایک جھپاکا سا ہوا ہے اور مجھ پر کوئی نیا پہلو منکشف ہو گیا ہے۔ یہ کوئی راز تو نہیں تھا کہ صلاح الدین صاحب نے اپنے کیریئر کا آغاز اسکول ٹیچر کی حیثیت سے کیا تھا۔
یہ بات بتائی بھی جاتی تھی کہ صلاح الدین صاحب اصلاً تو ایک محنت کش تھے جو زینہ بہ زینہ آگے بڑھے لیکن ان کی صحافت کو سمجھنے کے لیے اس پس منظر پر توجہ دینا بھی ضروری ہے، یہ بات صرف خورشید صاحب نے کہی۔ یوں اس روز میں نے معاملات کو سمجھنے کا ایک نیا قرینہ سیکھا۔ اس روز میری سمجھ میں یہ بھی آیا کہ بڑا آدمی صرف وہ نہیں ہوتا جس سے ملنا مشکل ہو بلکہ وہ ہوتا ہے جس سے ملاقات ہو تو کچھ سیکھنے کو بھی ملے۔’ایسی خوبیاں کسی شخص میں کیسے پیدا ہو سکتی ہیں؟‘میں نے خود پروفیسر خورشید احمد کی میتھاڈولوجی کے تحت اس سوال پر غور کیا پھر میرے سامنے حیرت کا ایک جہاں کھلتا چلا گیا۔
نذیر احمد قریشی نے غیر منقسم ہندوستان کے چھوٹے سے شہر جالندھر کا ماحول اپنی تجارت کے لیے ناکافی پایا تو وہ دلی منتقل ہو گئے ۔ وہ بے چینی کا زمانہ تھا جیسے تحریک خلافت اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی جو بہ تدریج تحریک پاکستان میں منقلب ہوئی۔ نذیر احمد قریشی کے تعلقات ان تحریکوں کی صف اول کی قیادت کے ساتھ تھے جیسے حکیم اجمل خان مرحوم، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی۔ بعد کے برسوں میں ان کے دوستوں میں ایک اور دانش ور کا اِضافہ ہوا تھا جنھیں لوگ ابو الاعلیٰ کے نام سے جانتے تھے۔
بعد کے برسوں میں علامہ اقبالؒ کے مشورے سے انھوں نے پنجاب منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور پٹھان کوٹ میں دارالاسلام کے نام سے ایک ادارہ بنایا تو ان مراحل میں ابوالاعلیٰ کو قریشی صاحب کے مشورے اور تعاون بھی حاصل تھا۔ان ہی قریشی صاحب کے یہاں بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں ان کے منجھلے بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام انھوں نے خورشید احمد رکھا۔ ہند اسلامی تہذیب میں جیسا کہ ہوتا تھا، بچوں کی تربیت کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی نشست و برخاست پر بھی توجہ دی جاتی اور بزرگوں کی نشستوں کی پچھلی صفوں میں بچوں اور نوعمروں کو جگہ دی جاتی تاکہ نہ صرف یہ کہ اپنے ماحول اور تہذیب سے وابستہ رہیں بلکہ ان مقاصد کو بھی سمجھ سکیں، آئندہ زندگی میں جن کے لیے انھیں کام کرنا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد نذیر احمد قریشی کا خاندان کراچی منتقل ہوا تو اس زمانے میں معاشیات کے ہونہار طالب علم خورشید احمد کیوں نمایاں ہوئے اورکیسے ان کی شخصیت میں وسعت اور کشادگی پیدا ہوئی جیسے طلبہ سیاست میں دل چسپی، تصنیف و تالیف اور صحافت، اس کے ساتھ ساتھ ادارہ سازی۔ نذیر احمد قریشی صاحب کی تہذیبی، علمی اور سیاسی دل چسپیوں پر توجہ دی جائے تو پھر یہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ خورشید احمد جیسی شخصیت کیسے وجود میں آئی۔ ندا فاضلی مرحوم کا ایک شعر ہے :
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
یہ شعر پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت پر پوری طرح صادق آتا ہے۔
پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت کا مجموعی تاثر ایک عالم اور دانش ور کا ہے۔ ایسے لوگ سنجیدہ، نفیس اور لیے دیے سے ہوتے ہیں، اگر وہ اپنے لیے سیاست کی وادی پرخار کاانتخاب کریںبھی کریں تو ان کی سرگرمیوں میں بالائی طبقے کا رکھ رکھاؤ نمایاں دکھائی دیتا ہے لیکن پروفیسر خورشید احمد کی کتاب ’تذکرہ زنداں ‘بتاتی ہے کہ اس عالم اور دانش ور نے اپنے مقصد زندگی کو پانے کے لیے سیاست کو منتخب کیا تو اس نے اس راستے کی تمام سختیاں بھی ایک عام سیاسی کارکن کی طرح برداشت کیں۔ ایک متمول تاجر کے لخت جگر میں یہ صلاحیت کیسے پیدا ہوئی، علی برادران سے لے کر ابو الاعلی مودودیؒ تک نذیر احمد قریشی کے دوستوں کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ راز آسانی کے ساتھ کھل جاتا ہے۔
پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کا دست و بازو یقیناً اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے بنے ہوں جسے مسلم برصغیر کے زعما اور مفکرین دیکھتے آئے ہیں یعنی ایک ایسے آئیڈیل معاشرے کا قیام جس میں استحصال کو دخل نہ ہو لہٰذا پروفیسر خورشید احمد کی علمی سرگرمیوں کے بیش تر حصے پر یہی پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ اپنے طویل علمی سفر کے دوران میں انھوں نے یقیناً محسوس کیا ہو گا کہ یہ ایک آدمی کا کام نہیں لہٰذا انھوں نے ادارہ سازی پر توجہ دی۔ ممتاز تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)کے قیام کے پس پشت بھی ابتدا میں یہی مقصد کار فرما تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دل چسپی کے دائرے میں وسعت آتی چلی گئی۔
جامعیت کی یہی کیفیت خود پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا ایک سبب ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی میں نمایاں حیثیت رکھنے کے باوصف عالمی سطح پر اسلام کا فروغ اور مسلم دنیا کے سیاسی مسائل انھیں یقینا متوجہ کرتے ہوں گے یا جماعت اسلامی ان سے توقع رکھتی ہوگی لہٰذا ان کی پہلی علمی دل چسپی یعنی معاشیات سے جنم لینے والی علمی سرگرمیوں کا دائرہ بہ تدریج وسیع ہوتا چلا گیا یوں ان کی شناخت مسلم دنیا کے اور نمایاں اور وژنری دانش ور کے طور پر مضبوط ہوتی چلی گئی۔
ایسی کیفیات حالات کے جبر سے پیدا ہوتی ہیں۔ حالات کے اس جبر نے پروفیسر خورشید احمد کی بنیادی دل چسپی یعنی اسلامی معاشیات کے موضوع کو متاثر کیا یا نہیں، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی لیکن اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ پروفیسر خورشید احمدبرصغیر کے آدرشی بزرگوں کی وہ آخری کڑی تھے جس کی چکا چوند نے ہماری آنکھیں خیرہ کیں اور اس بزرگ نے ایک بامقصد اور خوب صورت زندگی بسر کر کے آنے والی نسلوں کے لیے کام کرنے کے راستے کا تعین کردیا۔