Daily Ausaf:
2025-04-22@14:18:58 GMT

خودمختاری اور آزادی کا خواب

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

روزنامہ اوصاف کی پچیس مارچ کی ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر جناب عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ آج کوئی بھی آزاد نہیں ہے۔ اس پر ان کے دادا فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم و مغفور یاد آگئے جنہوں نے اس حوالے سے بہت کچھ فرمایا تھا مگر ہم قومی طور پر اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کی بجائے چھ عشروں کے بعد بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے فروری ۲۰۰۹ء کے دوران شائع ہونے والا ایک کالم دوبارہ پیش خدمت ہے۔
پاکستان کے بعض سیاستدانوں کے ساتھ امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی ملاقات اور گفتگو نے بہت سی پرانی باتوں کی یاد ذہن میں تازہ کر دی ہے۔ ہالبروک کو شکوہ ہے کہ اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود پاکستانیوں میں امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس پر مجھے ایک بہت پرانا پڑھا ہوا ناول یاد آگیا ہے جو انقلابِ فرانس سے پہلے کے جاگیردارانہ ماحول کے حوالے سے تھا۔ ناول اور اس کے کرداروں کے نام تو یاد نہیں رہے مگر اس کا ایک پلاٹ ذہن کے کسی کونے کے ساتھ چپکا رہ گیا تھا جو ہالبروک کے اس شکوے کے ساتھ ہی اسکرین پر ابھر آیا ہے۔ کہانی کے مطابق ایک فرانسیسی جاگیردار بگھی پر اپنے کسانوں اور مزارعوں کی بستی سے گزر رہا تھا، راستے میں ایک جگہ بچے کھیل رہے تھے کہ اچانک ایک بچہ بگھی کے سامنے آگیا۔ لیکن بگھی کے کوچوان نے رفتار کم کرنے کی بجائے اس بچے کے اوپر سے بگھی گزار دی جس سے بچہ کچلا گیا۔ اس کا باپ قریب ہی کھڑا تھا وہ غصے اور صدمے کی حالت میں بگھی کی طرف لپکا اور اس کو روکنے کی کوشش کی۔ جاگیردار جو یہ سارا منظر اپنی سیٹ پر بیٹھا دیکھ رہا تھا، اس نے کسان کو غصے میں دیکھ کر جیب سے ایک سکہ نکالا اور اس کی طرف پھینک دیا۔ کسان نے وہ سکہ غصے سے پکڑا اور اسے واپس بگھی کی طرف اچھال دیا جس پر جاگیردار نے انتہائی نفرت سے اس کسان کو گالی دیتے ہوئے اپنے کوچوانوں سے پوچھا کہ یہ اور کیا چاہتا ہے؟
سچی بات یہ ہے کہ مسٹر ہالبروک کا یہ شکوہ پڑھ کر مجھے کم از کم ربع صدی قبل پڑھے ہوئے ناول کا یہ حصہ بے ساختہ یاد آگیا ہے مگر حسرت یہ رہی کہ پلاٹ کے باقی سارے کردار پورے تھے مگر سکہ بگھی کی طرف واپس اچھال دینے کا خانہ خالی نظر آیا۔ خدا جانے یہ حسرت کب پوری ہوگی؟ دراصل یہ مسٹر ہالبروک کا قصور نہیں ہے، مغربی استعمار کی قیادت اور دانش ابھی تک اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ امریکہ کے خلاف غصہ صرف اس وجہ سے ہے کہ غصہ کرنے والے غریب لوگ ہیں جنہیں امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں کے پاس دولت کی کثرت دیکھ کر غصہ آتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی اس دولت میں سے حصہ دیا جائے۔ اس لیے کم و بیش ہر مغربی حکمران اور دانشور اس بات پر زور دے رہا ہے کہ ان غریب لوگوں کو پیسے دیے جائیں اور کچھ ڈالر ان کی طرف پھینکے جائیں تاکہ یہ خاموش رہیں، بلکہ ڈالر پھینکے جانے پر اپنے ’’آقاؤں‘‘ کا شکریہ ادا کریں اور ان کی وفاداری کا دم بھرتے رہیں۔
اکانومی اور معیشت کے چکر میں الجھی ہوئی اس سرمایہ دارارنہ ذہنیت اور جاگیردارانہ مزاج کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ غصہ صرف پیسوں کی کمی پر نہیں آیا کرتا، اس کے اسباب اور بھی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر مشرقی اقوام اور ان میں سے بھی خصوصاً مسلم اقوام کے ہاں غصہ کے دیگر اسباب زیادہ مؤثر اور متحرک ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے مذہب کی توہین پر غصہ آتا ہے، قرآن کریم کی بے حرمتی پر غصہ آتا ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر غصہ آتا ہے، بیت اللہ اور بیت المقدس کی توہین پر غصہ آتا ہے، دنیا کے کسی حصے میں مسلمان بھائیوں کے مارے جانے پر غصہ آتا ہے، اور اپنے ملکوں اور اسباب و عوامل پر دوسرے لوگوں کے ناجائز تسلط اور جبر و استبداد پر بھی غصہ آتا ہے۔ اس غصے کا جب کوئی مداوا نہیں ہوتا اور اسے کم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی، بلکہ اسے طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہی غصہ بڑھتے بڑھتے نفرت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پھر یہ غصہ ڈالروں کی بارش سے نہیں دبتا اور نہ ہی زبانی لیپاپوتی سے اس میں کوئی کمی آتی ہے۔
مسٹر ہالبروک سے گزارش ہے کہ وہ مسلمانوں کے غصے اور امریکہ کے خلاف ان کے جذبات کو ڈالروں کے پیمانے سے نہ ماپیں بلکہ اس کے اصل اسباب کی طرف نظر کریں۔ کیونکہ جب تک مسلمانوں اور پاکستانیوں کے غصے اور نفرت کے اصل اسباب کو سنجیدگی کے ساتھ دور کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، ڈالروں کی جھنکار اور نوٹوں کی کھڑکھڑاہٹ سے اس غصے اور نفرت کو کم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔
اس گفتگو میں ایک پاکستانی سیاستدان نے مسٹر ہالبروک سے کہا کہ امریکہ ہمارا آقا نہ بنے بلکہ دوست بنے اور دوستوں کی طرح ہمارے ساتھ معاملات کرے۔ یہ بات بھی صدائے بازگشت ہے پاکستان کے سابق صدر جناب محمد ایوب خان مرحوم کے اس رد عمل کی جو انہوں نے پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ دوستی کی پرخلوص کوششوں اور امریکہ کی طرف سے اس کے کم از کم الفاظ میں غیر مثبت جواب پر ظاہر کیا تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل جو کتاب شائع کی اس کا نام ہی ’’آقا نہیں دوست‘‘ ہے۔ Friends Not Master کے عنوان سے لکھی جانے والی اس کتاب میں انہوں نے امریکہ کو یہی پیغام دیا تھا جو مسٹر ہالبروک کو ایک پاکستانی سیاستدان نے کم و بیش نصف صدی کے بعد دیا ہے۔ مسٹر ہالبروک کے ساتھ پاکستانی سیاستدانوں کی اس ملاقات کی رپورٹ اخبارات میں پڑھنے کے بعد میں نے ایوب خان مرحوم کی یہ کتاب تلاش کی۔ یہ کتاب جو کبھی فٹ پاتھوں پر آسانی سے مل جایا کرتی تھی اب مجھے دوران سفر ٹیکسلا میں ایک دوست حافظ محمد رفیق کی لائبریری سے دستیاب ہوئی۔ سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم نے اپنی خارجہ پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے امریکہ اور بھارت کے ساتھ اپنے معاملات کے مختلف مراحل بیان کیے ہیں جن کی چند جھلکیاں قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایوب خان مرحوم پر غصہ ا تا ہے محمد ایوب خان کے ساتھ غصے اور کرنے کی ہے کہ ا کی طرف اور اس

پڑھیں:

تعلیم پر روزانہ 59 ہزار روپے خرچ کرنیوالی جاپانی گلوکارہ

جاپانی گلوکارہ کی جانب سے تعلیم سے لگن کا انوکھا مظاہرہ سامنے آیا ہے، جنہوں نے روزانہ 4 گھنٹے سفر اور تقریباً 59 ہزار پاکستانی روپے خرچ کر کے اپنا خواب پورا کیا۔

جاپان کی مشہور پاپ گلوکارہ اور گرل گروپ ساکورا زاکا 46 (Sakurazaka46) کی 22 سالہ رکن یوزوکی ناکاشیما نے اپنی تعلیم اور فنی کیریئر کو بیک وقت سنبھالنے کی حیران کن کہانی سے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق ناکاشیما ہر روز صبح 5 بجے بیدار ہو کر ٹوکیو سے فوکواوکا یونیورسٹی جانے کے لیے تقریباً 4 گھنٹے کا سفر کرتی ہیں، جس پر ان کا روزانہ کا خرچ تقریباً 59 ہزار پاکستانی روپے بنتا ہے۔

ناکاشیما کا دن صبح 5 بجے شروع ہوتا ہے، وہ صبح 6 بجے ہنیڈا ایئر پورٹ روانہ ہوتی ہیں جہاں سے وہ کٹاکیوشو کے لیے پرواز کرتی ہیں، صبح ساڑھے 9 بجے یونیورسٹی پہنچنے کے بعد وہ کیمپس جانے کے لیے ٹیکسی یا بس کا استعمال کرتی ہیں، سفر کے دوران وہ مطالعہ اور ہوم ورک مکمل کرتی ہیں۔

ایک طرف کا سفر 2 گھنٹے سے زائد کا ہوتا ہے اور اس پر تقریباً 29 ہزار پاکستانی روپے خرچ آتا ہے، یوں روزانہ کا کل سفری خرچ تقریباً 59 ہزار پاکستانی روپے تک پہنچ جاتا ہے۔

کلاسز مکمل کرنے کے بعد ناکاشیما واپس ٹوکیو روانہ ہوتی ہیں تاکہ شام کے وقت گروپ کی پرفارمنس ٹریننگ میں حصہ لے سکیں۔

یہ معمول صرف چند دنوں کی بات نہیں بلکہ یوزوکی ناکاشیما نے پورے 4 سال تک یہی سخت روٹین اپنائے رکھا، اپنے گلوکاری کے خواب کی تکمیل کے لیے انہوں نے ماضی میں پارٹ ٹائم ملازمت بھی کی تھی، اب وہ اپنی تعلیم مکمل کر چکی ہیں اور باضابطہ طور پر ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔

ناکاشیما نے اپنی طالب علمی کی زندگی کو دورانِ تعلیم عوامی نگاہوں سے دور رکھا، مگر گریجویشن کے بعد انہوں نے اپنی محنت اور قربانیوں کی داستان کو ایک ’اہم زندگی کا سنگِ میل‘ قرار دیتے ہوئے مداحوں کے ساتھ شیئر کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی خواب ہے تو چاہے وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ لگے، حوصلہ کریں اور اس کی طرف بڑھیں، اپنے خواب کی تلاش میں گزرا ہر لمحہ آپ کی زندگی کی قیمتی یادوں میں تبدیل ہو جائے گا۔

یوزوکی ناکاشیما کی کہانی نے سوشل میڈیا پر مداحوں کی زبردست پزیرائی حاصل کی ہے، مداحوں نے ان کی محنت، ہمت اور عزم کو سراہتے ہوئے انہیں سپر ویمن قرار دیا ہے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • حج کی سعادت کا خواب! خواہشمند پاکستانیوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی داؤ پر لگ گئی
  • ٹیرف جنگ کے تناظر میں اتحادیوں کا امریکہ پر اعتماد انتہائی کم ہو چکا ہے، چینی میڈیا
  • وفاقی حکومت نے پاکستان کے نوجوانوں کی سماجی و معاشی خودمختاری کے لیے درجنوں پروگرامز شروع کیے ہیں،چیئرمین یوتھ پروگرام رانا مشہود
  • تعلیم پر روزانہ 59 ہزار روپے خرچ کرنیوالی جاپانی گلوکارہ
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • امریکہ اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر اندھا دھند محصولات عائد کر رہا ہے، چینی وزارت تجارت
  • یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  •  او آئی سی انجمن غلامان امریکہ ہے، یمن اور ایران مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، مشتاق احمد