Daily Ausaf:
2025-04-22@09:51:17 GMT

مسلمانوں کا لہو اتنا سستا کیوں ؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
حضرت عباد بن صامت رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا’’ جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور یہ قتل کرنا ظلما تھا (قصاص وغیرہ کی وجہ سے نہ تھا) تو اللہ تعالیٰ اس کا نہ نفلی عمل قبول فرمائیں گے نہ فرض۔یحییٰ بن یحییٰ غسانی مذکورہ حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں’’ وہ لوگ جو فتنہ کے وقت میں قتل وقتال کریں گے پس ان میں سے کوئی ایک قتل کرے گا اور یہ سمجھتا ہوگا کہ وہ ہدایت پر ہے۔
خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ واقعہ آتا ہے کہ جب ان کا بلوائیوں نے محاصرہ کرلیا تو انہوں نے ان کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کا خون کرنا حلال نہیں، سوائے تین وجہوں میں سے کسی ایک وجہ کے پائے جانے کے، یا تو اسلام کے بعد کافر ہوجانے سے ،یاشادی شدہ ہونے کی صورت میں زنا کرنے سے، یا کسی کو بغیرحق کے قتل کرنے سے۔پس اللہ کی قسم میں نے توجاہلیت اوراسلام کی حالت میں کبھی زنا نہیں کیا اور نہ میں نے اپنے دین کو بدلنے کو پسند کیا، جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور نہ میں نے کسی کو قتل کیا، پس یہ لوگ مجھے کس وجہ سے قتل کرنے کے درپے ہیں؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان کا خون کرنا حلال نہیں، سوائے تین وجہوں میں سے کسی ایک وجہ کے پائے جانے کے، یا تو کسی کو بغیرحق کے قتل کیا ہو، یاشادی شدہ ہونے کی صورت میں زنا کیا ہویا پھر اسلام کے بعد کافر ہوگیا ہو۔اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا آج کل جو باہم قتل وقتال کا سلسلہ ہے اس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے کے جوازکا کوئی سبب نظر نہیں آتا بلکہ یہ باہمی خانہ جنگی کی مختلف صورتیں ہیں اور جو لوگ اس میں مبتلا ہیں بدقسمتی سے ان میں بہت سے اسے کارِثواب سمجھ کر اپنی جان کی قیمت پر بیسیوں بے گناہ و معصوم زندگیوں سے کھیل جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کتنی مائوں کی گودیں روز اجڑ رہی ہیں، کتنی سہاگنوں کے سہاگ لٹ رہے ہیں، کتنے بچے بے آسرا ویتیم ہو رہے ہیں اور جو سخت جان، جان کی بازی ہارتے ہارتے بچ جاتے ہیں وہ عمر بھر کیلئے معذور واپاہج ہوکر زندگی کے کاندھوں پر ایک بوجھ بن جاتے ہیں اور روزمرتے جیتے ہیں، اس کے نتیجے میں گھر گھر، قریہ قریہ، شہر شہر ایسے المیے جنم لے رہے ہیں جو ہماری اجتماعی اور معاشرتی زندگی کو جو پہلے ہی دیمک زدہ ہوچکی ہے، مزید روگ لگا کر ناسور بنادے گی۔
اس قسم کے قتل وقتال کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا’’جس نے اندھے جھنڈے کے نیچے قتال کیا، عصبیت کی طرف بلاتے ہوئے یا عصبیت کی وجہ سے غصہ کرتے ہوئے تو اس کا قتال کرنا جاہلیت والا ہے‘‘۔ مذکورہ حدیث میں امت کیلئے ایسے قتل وقتال کے غلط ہونے اور اس میںریک ہونے سے بچنے کی تعلیم ہے۔ایک حدیث شریف میں حضورﷺ نے فرمایا”’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک لوگوں پر ایک زمانہ ایسا نہ آجائے کہ قاتل کو معلوم نہیں ہوگا کہ اس نے کس وجہ سے قتل کیا اورمقتول کو بھی معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کس وجہ سے قتل کیا گیا۔‘‘ نبیﷺ سے عرض کیا گیا کہ ایسا کیونکر ہوگا؟ تو فرمایاھرج (یعنی قتلِ عام کا فتنہ رونما ہونے) کی وجہ سے ،جس میں قاتل اورمقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔جہنم میں جانے کی یہ وعید ایسے قاتل ومقتول کیلئے ہے کہ دونوں کا ایک دوسرے کو قتل کرنے کا ارادہ ہو۔حضرت طلحہ بصری رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ عنقریب تم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا(راوی کو شک ہے کہ آپﷺ نے یا یہ فرمایا کہ) تم میں سے کچھ لوگ ایسا زمانہ پائیں گے کہ وہ کعبے کے پردوں کی طرح کے (مہنگے اور اعلیٰ ) لباس پہنیں گے اور صبح اور شام تم پر مختلف قسم کے برتنوں میں(طرح طرح کے) کھانے پیش ہوں گے، صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! ہم اس وقت (اور ان حالات) میں بہتر ہوں گے یا آج (اِن حالات) میں بہتر ہیں؟ حضورﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ تم آج (اِن حالات میں) بہتر ہو۔‘‘
حضرت ابوطفیل سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے فرمایا ’’مجھے اپنے اور تمہارے اوپر دجال کے (فتنے کے) علاوہ بھی (ایک فتنہ کا) خوف ہے، ابوطفیل کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ اے ابو سریح( یہ حضرت حذیفہ کی کنیت ہے) وہ کیا ہے؟ تو حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ گویا کہ اندھیری رات کو تہ بتہ تاریکیوں کی طرح کے فتنے ہوں گے، ابو طفیل کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ ان فتنوں میں کون لوگ برے ہوں گے؟ تو حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ ہرفتنوں پر ابھارنے والا فصیح وبلیغ (گرج دار آواز والا شعلہ بیان) خطیب اور ہرتیز رفتار سوار۔ابوطفیل کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ ان فتنوں میں کون لوگ بہتر ہوں گے؟ تو حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ ہر پوشیدہ مالدار(کہ جس کو کم یا زیادہ فارغ البالی میسر ہو اور اس حالت پرقناعت کرکے ان فتنوں سے یکسو وگمنام ہوکر زندگی کے دن پورے کرے)۔حادیث کے پیشِ نظر بطورِ خاص اہلِ علم حضرات کو مسلمانوں کے باہمی قتل وقتال کے فتنے کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں اور اس موقع پر اہلِ علم حضرات کے کاندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کو اس فتنے سے آگاہ فرمائیں تاکہ لاعلمی کی وجہ سے وہ ان ایمان شکن وکفرافروز فتنوں کا حصہ بننے کو ایک مقدس ومبارک عمل سمجھ کر ان میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نے فرمایا کہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ حضرت حذیفہ نے عرض کیا کی وجہ سے قتل کرنے قتل کیا ہیں اور ہیں کہ ہوں گے کو قتل سے قتل

پڑھیں:

پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟

ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر کے مطابق کراچی کے 80سال کے ایک بزرگ نے کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع ’’کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین‘‘ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم کے لئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالب علم کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد(مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آرا پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی)ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح ’’ایکسپرٹ‘‘ ہو جاتا ہے۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، ’’سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا‘‘ یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، ’’بہادر شاہ ظفر کو اردو شعرا کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور علامہ اقبال ؒنے ’’اسلامی عقیدے کی تشکیل نو‘‘ کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور ’’اسلامی مملکت خداداد‘‘ وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع ’’لوٹا کریسی‘‘ ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل؛ کنگز کے آل راؤنڈر عامر جمال پر جرمانہ، مگر کیوں؟
  • فلم ’جوش‘ میں کاجول اور عامر خان نے شاہ رخ کیساتھ کام کرنے سے کیوں منع کردیا تھا؟
  • وقت وقت کی بات ہے
  • پاکستانی یوٹیوبرز کے بینک اکاؤنٹس کیوں بند ہوئے، اصل سبب کیا بنا؟
  • حیا
  • پاکستان میں کون اتنا طاقتور ہے جو صحافیوں کو اسرائیل بھیج رہا ہے:حافظ نعیم الرحمن
  • کوفہ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف: کامران ٹیسوری کی روضہ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ پر حاضری
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟