امریکہ(نیوز ڈیسک)امریکہ میں ایک خاتون نے اپنی قریبی سہیلی کی شادی میں اس وقت شرکت سے انکار کر دیا جب اسے ایک حیران کن ای میل موصول ہوئی، جس میں شادی کا حصہ بننے کے لیے بھاری رقم ادا کرنے کی شرط رکھی گئی تھی۔ جب اس کی بچپن کی دوست میگن نے اسے اپنی شادی میں مدعو کیا اور برائڈز میڈ بننے کی درخواست کی تو یہ بہت خوش تھی۔

تاہم اس کی خوشی اس وقت حیرت میں بدل گئی جب اسے ایک تفصیلی ای میل موصول ہوئی جس میں ”برائیڈز میڈ پیکج“ کے اخراجات درج تھے۔ نیوز 18 کے مطابق اس ای میل میں ایک سپریڈ شیٹ شامل تھی جس میں مختلف لازمی اخراجات کا ذکر تھا۔ ان میں 500 امریکی ڈالر برائیڈز میڈ کے لباس کے لیے، 300 ڈالر میک اپ اور ہیئر اسٹائلنگ کے لیے، کم از کم 150 ڈالر دُلہن کے تحفے کے لیے اور 100 ڈالر بیچلریٹ پارٹی کے لیے بطور ڈپازٹ شامل تھے۔

اس کے علاوہ ایک اضافی 50 ڈالر ”متفرق اخراجات“ کے تحت بھی درج تھے، جن کی وضاحت نہیں کی گئی تھی۔ یہ ای میل پڑھ کر خاتون ششدر رہ گئی اور اس نے اپنی دوست میگن سے رابطہ کرکے اسے بتایا کہ وہ یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ تعلیمی قرضے اتار رہی ہے اور اپنی بچت پر دھیان دے رہی ہے۔تاہم اس کی حیرانی اس وقت مزید بڑھ گئی جب میگن نے اپنی شرط پر اصرار کرتے ہوئے کہا، ”میں سب کچھ پرفیکٹ بنانے کی کوشش کر رہی ہوں اور یہ اخراجات ضروری ہیں۔ اگر تم میری شادی میں شرکت نہیں کر سکتیں تو میں سمجھ سکتی ہوں، لیکن میں باقی سب کے لیے اپنے منصوبے نہیں بدل سکتی۔

“ اپنی بہترین دوست کی یہ بات سن کر خاتون کو عجیب محسوس ہوا اور اس نے اپنی پریشانی کا اظہار ریڈٹ پر کیا۔ اس نے لکھا کہ وہ ہمیشہ اپنی دوست کے ساتھ کھڑی رہی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ میگن اپنی شادی کو ایک بہانہ بنا کر مہمانوں سے رقم وصول رہی ہے۔اس نے مزید کہا کہ جب اس نے میگن کو بتایا کہ وہ یہ تمام اخراجات برداشت نہیں کر سکتی تو اس کے بعد سے میگن نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

9 مئی ریڈیوپاکستان حملہ کیس؛ رکن اسمبلی سمیت 6 ملزمان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نے اپنی کے لیے

پڑھیں:

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔

صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟

ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔

(جاری ہے)

صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔

چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔

دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔

مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔

پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔

ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔

مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔

صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی کرکٹرپر بھاری جرمانہ عائد کردیا گیا، وجہ بھی سامنے آ گئی
  • ’اداکارہ نہیں بننا چاہتی تھی‘، خوشبو خان اس فیلڈ میں پھر کیسے آئیں؟
  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • آئندہ مالی سال 26-2025 کیلئے 7 ہزار 222 ارب روپے کا وفاقی بجٹ خسارے کا تخمینہ
  • بھارت، مدھیہ پردیش میں بڑھتی ہوئی ہندو مسلم کشیدگی، فورسز کی بھاری نفری تعینات
  • پی ٹی آئی دورمیں محکمہ صحت پنجاب میں 6 ارب 23 کروڑ کی مبینہ خوردبرد
  • حماس کے مکمل خاتمے تک غزہ میں جنگ جاری رہے گی، نیتن یاہو
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • آئی پی پیز ہر سال اربوں ڈالر کا چونا حکومت کو لگا رہے ہیں، خواجہ آصف