توانائی کے قابل تجدید ذرائع معیشتوں کے لیے سود مند، یو این چیف
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 27 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات پر زور دیتے ہوئے رکن ممالک سے فعال طور پر آگے بڑھنے اور اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے۔
برلن میں منعقدہ 16ویں 'پیٹرز برگ موسمیاتی مکالمے' کے موقع پر اپنے خطاب میں سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں کشیدہ حالات کے باوجود گزشتہ سال ریکارڈ تعداد میں قابل تجدید توانائی پیدا ہوئی۔
بجلی کے 92 فیصد نئے ذرائع کا تعلق قابل تجدید توانائی سے تھا جو کہ برازیل اور جاپان میں استعمال ہونے والی مجموعی بجلی کے برابر ہے۔ یورپ میں قابل تجدید اور ماحول دوست توانائی کی پیداوار میں 9 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جرمنی میں ایک چوتھائی تناسب سے ترقی دکھی گئی اور براعظم افریقہ میں ماحول دوست توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں تقریباً سات فیصد اضافہ ہوا۔(جاری ہے)
Tweet URLسیکرٹری جنرل نے کہا کہ ان حقائق سے 21ویں صدی کی اس سچائی کی عکاسی ہوتی ہے کہ قابل تجدید توانائی سے معیشتوں کی تجدید ہو رہی ہے اور اس سے ترقی میں اضافے کے ساتھ نئے روزگار تخلیق ہو رہے ہیں، بجلی پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی آ رہی ہے اور ماحول صاف ہو رہا ہے۔
اس اجلاس میں دنیا کے 40 ممالک کے وزرا شریک ہوئے جو قابل تجدید توانائی کے میدان میں پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے رواں سال پہلا سب بڑا موسمیاتی فورم ہے۔ امسال پیرس معاہدے کو بھی 10 سال مکمل ہو رہے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک نے اپنے آئندہ موسمیاتی اقدامات سے متعلق منصوبے بھی اسی سال اقوام متحدہ کو جمع کرانا ہیں۔
قابل تجدید توانائی کا فروغسیکرٹری جنرل نے بتایا کہ 2010 کے بعد ہوائی توانائی کے حصول پر اٹھنے والے اخراجات میں 60 فیصد کمی آئی ہے اور شمسی توانائی کا حصول 90 فیصد تک سستا ہو گیا ہے۔
2023 میں ہونے والی معاشی ترقی میں ماحول دوست توانائی کا کردار نمایاں رہا۔ انڈیا کے جی ڈی پی کی ترقی میں اس کا حصہ پانچ فیصد، امریکہ میں چھ فیصد اور یورپی یونین کی معاشی ترقی میں ماحول دوست توانائی کا حصہ ایک تہائی رہا۔
بے عملی کی بڑھتی قیمتسیکرٹری جنرل نے کہا کہ موسمیاتی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ عالمی حدت میں اضافہ نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔
دنیا میں کمزور آبادیاں ان حالات سے کہیں زیادہ متاثر ہو رہی ہیں جنہیں خوراک اور انشورنس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، نقل مکانی اور عدم تحفظ کا سامنا ہے۔عالمی موسمیاتی ادارے نے گزشتہ سال دسمبر میں بتایا تھا کہ 2024 میں پہلی مرتبہ عالمی حدت میں اضافے نے قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.
رکن ممالک نے اپنے ہاں موسمیاتی اقدامات کے منصوبے ستمبر 2025 میں اقوام متحدہ کو جمع کرانا ہیں جنہیں 1.5 ڈگری کے ہدف کے مطابق ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں دنیا کو 2035 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 2019 کے مقابلے میں 60 فیصد کمی لانا ہو گی۔ جی 20 کا شمار بڑے صنعتی ممالک میں ہوتا ہے اور یہی ملک سب سے زیادہ مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی وعدے کے تحت پہلے ہی 100 ممالک کو آئندہ موسمیاتی منصوبوں کی تیاری میں مدد دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں رواں سال ستمبر میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے علاوہ مزید اقدامات کے لیے بھی کوششیں کی جائیں گی۔
مالی وسائل بڑھانے کا مطالبہخطاب کے آخر میں سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے 'کاپ 29' میں طے پانے والے مالیاتی معاہدے پر عملدرآمد بہت ضروری ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ کاپ 29 اور کاپ 30 کے صدور 2035 تک اس مقصد کے لیے 1.3 ٹریلین ڈالر مہیا کرنے کا قابل اعتبار لائحہ عمل دیں گے۔
سیکرٹری جنرل نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں رواں سال کے آخر تک بڑے پیمانے پر اضافے کے لیے بھی زور دیا اور ترقی یافتہ ممالک سے نقصان و تباہی کے فنڈ میں سنجیدہ طور پر حصہ ڈالنے کو کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے حکومتوں، معاشروں اور تمام شعبوں میں مضبوط اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ماحول دوست توانائی قابل تجدید توانائی سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ توانائی کا کے لیے ہے اور
پڑھیں:
تبسم تنویر کی انسانیت کے لیے خدمات قابل تحسین،مقررین ،sosویلیج میں تقریب، سوانح عمری کی رونمائی
اسلام آباد ( ملک نجیب ) ایس او ایس چلڈرن ویلج کی کو چیئرپرسن تبسم تنویر کی سوانح عمری کی تقریب رونمائی کا انعقاد ایس او ایس چلڈرن ویلج میں کیا گیا ۔ تقریب میں کتاب کے مصنف یونس حسرت ، ڈی جی سول سروسزاکیڈمی فرحان عزیز خواجہ ، انرویل کلب کی بانی صدر ثریا محی الدین ، چیئرپرسن انرویل کلب روبینہ ہارون ، روٹری کلب کے سابق صدر انوار اللہ شیخ ، موٹیویشنل سپیکر عرفان مصطفی ، آن ٹی وی کے سی ای او ڈاکٹر احسن اور سماجی و سیاسی شخصیات سمیت سول سوسائٹی کے ارکان سمیت کثیر تعداد میں شرکاءموجود تھے ۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن سے کیا گیا ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عرفان مصطفی نے کہا کہ جہاں اب ذاتی مفاد کو فوقیت دی جاتی ہے وہاں تبسم تنویر ( روزی بھابھی ) کا کام انسانیت کے لئے روشن مثال ہے ۔ ان کا ایمان تھا کہ دوسروں کا خیال رکھنا چاہئے ۔ انہوں نے غریبوں کا سہارا بننا مقصد بنا لیا ، ان کا نظریہ ہے پوری انسانیت ایک خاندان ہے ، ان کا یقین ہے ہمدردی میں طاقت ہے اور انہوں نے ایسا ثابت کیا ان کی غیر معمولی جدوجہد کو کتاب کی شکل دینے کے متعلق سوچا ، انہوں نے دنیا کو بتایا کہ اپنی ذات سے بلند ہو کر دوسروں کی مدد کریں ، ہر کوئی یہ طاقت رکھتا ہے کہ کسی کی تاریکی کو روشنی میں بدل سکے ۔ کتاب کے مصنف یونس حسرت نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاشرہ نیک لوگوں کے بل پر قائم ہے ، تبسم آپا کی انسانیت کے لئے خدمات کو دیکھوں تو یہ بات درست ہے کہ معاشرہ نیک لوگوں کی وجہ سے قائم ہے ۔ عرفان مصطفی نے کتاب لکھنے کا کہا اور تبسم آپا کا غائبانہ تعارف کرایا ، مجھے نہیں یقین تھا کہ یہ کتاب کی شکل میں بنے گی ۔ آجکل مارکیٹ میں جیسا مواد مل رہا ہے لوگوں کو اسی طرح کا مواد چاہئیے اور المیہ یہ ہے کہ نئی نسل نے کتاب پڑھنا ہی چھوڑ دی ہے ۔ ان کے انٹرویوز میں چند ایسی چیزیں ملیں جس نے یہ کام آسان کر دیا ۔ میں نے دیکھا کہ وقت کی مینجمنٹ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ ایک ساتھ ساری چیزوں کو لے کر چلنا اور پھر احسن انداز میں اپنے فرائض انجام دینا آسان کام نہیں ہے ۔ یہ کتاب نئی نسل اور خصوصی طور پر بچیوں کو ضرور پڑھنی چاہیئے ۔ یونس حسرت نے کہا کہ تبسم تنویر 74 برس کی ہیں اور میں انہیں 47 کا سمجھتا ہوں ۔ تبسم آپا کتاب کی تیاری کے لئے رضا مند نہیں تھیں ، اس کتاب کو پڑھ کے سوشل ورک میں لوگ آئیں گے ۔ لوگوں کا خدمت خلق کا جذبہ بڑھے گا ۔ ڈی جی سول سروسزاکیڈمی فرحان عزیز خواجہ نے کہا کہ آج ہم تبسم تنویر کی کتاب کے لئے جمع ہیں ، میں عرفان مصطفی اور یونس حسرت کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے روزی کو کتاب کے لئے راضی کیا ۔ ان کی زندگی کو دیکھیں تو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے انہوں نے گھر سنبھالا، ادارہ سنبھالا اور انسانیت کی خدمت میں دن رات محنت کی ہے اور انتہائی جوانی کی عمر میں تمام چیزوں کو مینج کیا ، یہ اپنی ذمہ داریاں سمجھ چکی تھیں ۔ انہوں نے سول سوسائٹی کو متحرک کیا یہ ریسورس اور ڈویلپمنٹ کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں لیڈر شپ کا فقدان ہے ، میں سمجھتا ہوں تبسم تنویر ایک عظیم لیڈر ہیں اور نوجوان بچے بچیوں کو ان کی زندگی کو پڑھ کر سبق سیکھنا چاہیئے کہ کس طرح انسانیت کی خدمت کر کے اپنا مقام بنایا جا سکتا ہے ۔ انرویل کلب کی چیئرپرسن ثریا محی الدین نے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں کوئٹہ میں تھی اور تبسم پنڈی کی تھی ۔ میں اسلام آباد آئی تو روٹری کلب کی ممبر بنی جہاں پر تبسم سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور ہماری دوستی مضبوط ہوتی گئی ۔ تبسم پر ایک نہیں کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔ کتاب لکھنے والوں کو مبارکباد دیتی ہوں ۔ ثریا محی الدین نے کہا کہ انرویل کلب میں بچیوں کو سلائی کڑھائی کا کام سکھایا جاتا ہے ، محی الدین سکول میں بھی امداد کی جاتی ہے اور دیگر اداروں کی بھی مدد کرتی ہیں ، باغبانی ہو یا ایس او ایس کو سجانے کا کام ہو تبسم تنویر نے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ۔ تبسم کو گولڈن ایوارڈ ملا ہے یہ پورے پاکستان کے لئے ایوارڈ ہے ، تبسم کی بیٹی نہیں لیکن بیٹیوں کی شادیاں کرانے کا بہت شوق ہے ۔ چیئرپرسن انرویل کلب روبینہ ہارون نے کہا کہ ہارون سلمان روٹیرین تھے وہ صدر منتخب ہوئے ۔ انہوں نے مجھے کہا خواتین کے لئے کلب بنا سکتے ہیں ، پھر میں کلب کی چارٹرڈ صدر بنی اور تبسم ممبر تھیں ۔ تبسم تنویر نے سماجی خدمت کو نہ صرف مقصد بنایا ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، وہ امید ، سہارا اور رہنمائی کا ذریعہ بنی رہیں ۔ ڈائریکٹر ایس او ایس ویلج حور فاطمہ نے کہا کہ یہاں 25 سال سے کام کر رہی ہوں اور تبسم سے 25 سالوں کا رشتہ ہے ، بیٹیوں کو رخصت کرنا سب سے کٹھن کام ہوتا ہے ، بیٹیوں کی شادیوں کے لئے تبسم نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ایس او ایس کی تزئین و آرائش کا سہرا تبسم کے سر ہے ۔ روٹری کلب کے سابق صدر انوار اللہ شیخ نے کہا کہ روٹیرین ہوں ، روٹری کلب کی وجہ سے تبسم کو جانتا ہوں ، انرویل کے لئے تبسم نے بہت کام کیا ، جو ایوارڈ اور اعزاز انہیں ملے وہ کسی کو نہیں ملے ، روٹری کا کام لوگوں کی مدد کرنا ہی ہے ۔ میں روٹری کلب کا ڈپٹی گورنر اور صدر رہا ، 35 سال سے ایس او ایس کے ساتھ ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایک بات کہی گئی کہ تبسم 74 کی نہیں 47 کی ہیں میں کہتا ہوں عمر کا تعین دل اور دماغ سے ہوتا ہے اور تبسم ٹین ایجر ہیں ، لوگوں کی مدد کرنا ان کا شوق ہے ۔ پاکستان میں اس وقت تین ہاتھ ہیں ۔ ایک دینے والا ہاتھ ، ایک لینے والا اور تیسرا ہاتھ ہے چھیننے والا ۔ جہاں چھیننے والے ہاتھ زیادہ ہوں وہاں دینے والے کم ہو جاتے ہیں ۔ تبسم بچوں بچیوں کی مدد کر کے خوش ہوتی ہیں ، ان کا مقصد رب کو راضی کرنا ہے ، حقوق اللہ معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے ہم نے حقوق العباد کو چھوڑ دیا ہے ۔ کچھ کھا کے خوش ہوتے ہیں کچھ کھلا کے خوش ہوتے ہیں یہ کھلانے والوں میں سے ہیں اور کھلانے والے اللہ والے ہوتے ہیں ۔ تبسم تنویر کی بھتیجی بیرسٹر زینب عالمگیر نے کہا کہ میں تنویر خان کی بھتیجی ہوں ، ایس او ایس چلڈرن ویلج تائی امی کے لئے دوسرے گھر کی اہمیت رکھتا ہے ، میں خوش قسمت ہوں کہ اپنی ماں کے علاوہ کئی مائیں ملی ہیں ۔ تائی اماں سے سیکھا ہے کہ لوگوں کو اور صورتحال کو کیسے مینج کرنا ہے ۔ جنگ گروپ کے جلیل الرحمن کی اہلیہ یاقوت جمیل نے کہا کہ تبسم کو مبارک دینا چاہتی ہوں ہماری ایک بچی اس مقام تک پہنچی ہے جس کو ایوارڈ ملا ہے ۔ ان کو تربیت اپنی ماں سے ملی ہے جذبہ حب الوطنی ہر کسی کا بس نہیں ہوتا ، ہر چیز جب روانی میں جا رہی ہوتی ہے تو آپ خوش ہوتے ییں جب مشکل آتی ہے تو وہ اصل صورتحال ہوتی ہے جب آپ کا جذبہ معلوم ہوتا ہے کہیں آپ ڈگمگا تو نہیں گئے ۔ ہمارے غم اور خوشی میں برابر کی شریک رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک این جی اوز کے سر پہ چل رہا ہے ، انہی این جی اوز کی بدولت غریب لوگ چل رہے ہیں اور انسانیت پروان چڑھ رہی ہے۔ تبسم تنویر کے صاحبزادے خرم خان نے آخر میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام شرکاءکا شکریہ ادا کرتا ہوں جو یہاں پر والدہ کے لئے آئے ، اپنے والد کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے والدہ کو آزادی سے کام کرنے کا موقع دیا ، والد خود بھی روٹیرین تھے ۔ عرفان صاحب اور یونس صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ان کی زندگی پر کتاب لکھی ۔ تقریب کے آخر میں کیک کاٹا گیا اور کتاب کی رونمائی کی گئی ۔ اس موقع پر شرکاءنے کتاب کا مطالعہ کیا اور تبسم تنویر کی خدمات کو سراہا ۔ تقریب کے شرکاءکے لئے پرتکلف دعوت کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔
Post Views: 4