یوم القدس، اہلسنت کے درمیان دشمنوں کا پروپیگنڈہ اور حقیقت کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امام خمینیؒ کی نظریاتی جنگ سے لیکر قاسم سلیمانی، عباس موسوی اور عماد مغنیہ کی عملی مزاحمت تک، اہل تشیع نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یہ قربانیاں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ فلسطین کی آزادی کیلئے فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر امت مسلمہ متحد ہو جائے اور ان شہداء کے راستے پر چلے تو اسرائیلی قبضے کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔ ان شہداء کا خون ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امت کا مسئلہ ہے اور جب تک القدس آزاد نہیں ہوتا یہ مزاحمت جاری رہے گی۔ تحریر: محمد حسن جمالی
یوم القدس امام خمینیؒ بت شکن کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے رمضان کے آخری جمعے کو منایا جاتا ہے۔ یہ فلسطین کی آزادی اور صہیونی جارحیت کے خلاف ایک مشترکہ اسلامی تحریک ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام نے اس دن کو متنازع بنانے کے لیے کئی قسم کے پروپیگنڈے پھیلا رکھے ہیں، جس کا بنیادی ہدف اہل سنت مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے انہیں اس دن سے دور رکھنا ہے۔ دشمنوں نے سب سے زیادہ جو پروپیگنڈہ پھیلایا، وہ یہ کہ یوم القدس صرف شیعہ مسلمانوں کا دن ہے اور اس کا مقصد ایران کی خارجہ پالیسی کو فروغ دینا ہے۔اس پروپیگنڈے کے تحت یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ چونکہ اس دن کی بنیاد امام خمینیؒ نے رکھی ہے، لہذا اہل سنت کو اس میں شریک نہیں ہونا چاہیئے۔ اس نظریئے کو تقویت دینے کے لیے مغربی، صہیونی اور بعض عرب میڈیا ادارے مسلسل ایسی خبریں اور تجزیے پیش کرتے ہیں، جن میں یوم القدس کو ایک "شیعی ایونٹ" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ پروپیگنڈہ نہ صرف تاریخی حقائق کے خلاف ہے بلکہ اسلامی اتحاد کو کمزور کرنے کی ایک منظم سازش بھی ہے، کیونکہ فلسطین کا مسئلہ کسی مخصوص مسلک یا قوم کا نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ مسجد اقصیٰ صرف ایک مقدس مقام نہیں، بلکہ مسلمانوں کے قبلہ اول کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی آزادی کے لیے ہر مسلمان، خواہ وہ کسی بھی فقہ یا مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو، برابر کی ذمہ داری رکھتا ہے۔ یوم القدس کا مقصد اسرائیلی جارحیت کے خلاف امت مسلمہ کو متحد کرنا ہے۔ امام خمینیؒ نے جب یوم القدس کا اعلان کیا تو ان کے پیش نظر صرف ایران یا شیعہ دنیا نہیں، بلکہ پوری مسلم امت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یوم القدس کے مظاہرے نہ صرف ایران میں بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں بھی منعقد ہوتے ہیں، جہاں مسلمان مشترکہ طور پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔
دشمن قوتوں کا اصل مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا ہے، تاکہ وہ فلسطین کے مسئلے پر تقسیم ہو جائیں اور اسرائیل کو مزید استحکام ملے۔ اسی لیے وہ یوم القدس کو فرقہ واریت کی نظر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اہل سنت عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ یہ دن ان سے متعلق نہیں، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر یوم القدس کو کسی مخصوص مکتب فکر سے منسوب کرکے محدود کر دیا جائے تو اس سے صرف اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو فائدہ پہنچے گا، جبکہ امت مسلمہ مزید کمزور ہو جائے گی۔ بعض عرب اور مغربی میڈیا ادارے یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ یوم القدس کا اصل مقصد اہل سنت ممالک میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔ اس نظریئے کو فروغ دینے کے لیے وہ مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ سیاسی تجزیے، ٹی وی پروگرامز، سوشل میڈیا مہمات اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں بیانات۔
بعض عرب حکومتوں کے زیر اثر میڈیا چینلز بھی اس پروپیگنڈے کو تقویت دیتے ہیں، تاکہ اپنے عوام کو یوم القدس سے دور رکھا جا سکے۔ ان ذرائع میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایران یوم القدس کو صرف ایک سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ وہ خطے میں اپنی گرفت مضبوط کرسکے اور عرب دنیا میں اپنے اتحادی پیدا کرسکے۔ اس پروپیگنڈے کے تحت بعض اوقات یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایران کی جانب سے فلسطین کی حمایت درحقیقت ایران کے اپنے اسٹریٹیجک مفادات کا حصہ ہے اور اس کا مقصد صرف اپنی عسکری اور سیاسی طاقت کو بڑھانا ہے نہ کہ فلسطینی عوام کے حق میں کوئی خالص انسانی یا دینی ہمدردی۔ اس بیانیے کو خاص طور پر ان ممالک میں زیادہ پھیلایا جاتا ہے، جو پہلے ہی ایران کے ساتھ سیاسی اختلافات رکھتے ہیں، جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بعض دیگر خلیجی ریاستیں۔ یہ ممالک یوم القدس کو ایران سے جوڑ کر اپنے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس میں شرکت دراصل ایران کے ساتھ وفاداری کا اظہار ہے، نہ کہ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی۔
چنانچہ اس پروپیگنڈے کے ذریعے اہل سنت مسلمانوں کو یوم القدس سے متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ وہ اسے ایک خالص اسلامی مسئلہ کے بجائے ایک مخصوص ملک یا مکتب فکر کی تحریک سمجھیں۔ اس کوشش میں بعض شدت پسند مذہبی گروہ بھی شامل ہوتے ہیں، جو پہلے ہی ایران کے خلاف سخت رویہ رکھتے ہیں اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ یوم القدس کو "شیعہ تہوار" قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اہل سنت عوام اس میں شرکت کرنے سے ہچکچائیں اور فلسطین کے مسئلے پر ایک متحد موقف اختیار نہ کرسکیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ اور فلسطین کی حمایت ایک دینی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اسلامی فریضہ ہے، جس کی حفاظت اور آزادی کی کوشش ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اگر کسی ملک، خواہ وہ ایران ہو یا کوئی اور، فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ مسئلہ اس ملک کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بن گیا ہے، بلکہ یہ ایک فطری اور دینی ردعمل ہے، جو ہر باشعور مسلمان اور انسان کو دکھانا چاہیئے۔
ایران اور بعض عرب حکومتوں کے درمیان کشیدگی رہی ہے، جو سیاسی، سفارتی اور بعض اوقات مذہبی اختلافات پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے ان ممالک میں سرکاری اور نیم سرکاری میڈیا ادارے، اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ بیانیہ عام کیا جاتا ہے کہ یوم القدس فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کا دن نہیں، بلکہ دراصل ایک گہری ایرانی چال ہے، جس کا مقصد عرب دنیا میں بدامنی پھیلانا ہے اور عرب ممالک میں بغاوت اور عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ خاص طور پر ان عرب ممالک میں زیادہ شدت سے پھیلایا جاتا ہے، جو ایران کے ساتھ علاقائی معاملات میں تنازعات کا شکار ہیں، جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بعض دیگر خلیجی ریاستیں۔ چونکہ ان ممالک کی خارجہ پالیسی اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی طرف مائل ہے، وہ نہیں چاہتے کہ ان کے عوام فلسطین کے مسئلے پر زیادہ جذباتی ہوں یا یوم القدس جیسی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ لہٰذا وہ اس دن کو ایک سیاسی تنازعے کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاکہ عوام کو اس میں شامل ہونے سے روکا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ یوم القدس کا انعقاد کسی ایک ملک یا حکومت کے خلاف نہیں بلکہ صہیونی ریاست اور اس کے ظالمانہ تسلط کے خلاف ہے۔ یہ دن کسی مخصوص سیاسی نظریئے یا حکمت عملی کا حصہ نہیں بلکہ ایک عالمی اسلامی بیداری کی علامت ہے، جو تمام مسلمانوں کے مشترکہ عقائد اور مقاصد پر مبنی ہے۔ ایک اور پروپیگنڈہ یہ کیا جاتا ہے کہ فلسطین دراصل صرف عربوں کا مسئلہ ہے اور غیر عرب مسلمان ممالک کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یوم القدس میں شرکت غیر عرب مسلمانوں کے لیے غیر ضروری ہے۔ حالانکہ اسلامی نقطہ نظر سے قبلہ اول کی آزادی کسی مخصوص قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ مغربی اور صہیونی میڈیا اکثر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یوم القدس کے مظاہرے انتہاء پسندی کو ہوا دیتے ہیں اور یہ ایک "بنیاد پرست تحریک" ہے۔
اس بیانیے کے ذریعے عام سنی مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر وہ یوم القدس میں شامل ہوں گے تو انہیں دہشت گرد یا شدت پسند قرار دیا جائے گا۔ صہیونی اور مغربی میڈیا مختلف طریقوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یوم القدس غیر مؤثر ہے اور اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہے۔ اس پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو یوم القدس میں شرکت سے مایوس کرنے اور اس دن کو بے اثر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فلسطین، جو امت مسلمہ کے قلب کا حصہ ہے، صہیونی ظلم و ستم کا شکار ہے، غزہ کے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور وہاں اکثریت کا تعلق اہلسنت مکتب فکر سے ہے۔ اس کے باوجود بدقسمتی یہ ہے کہ جہاد کے فتویٰ کا راگ الاپنے والے پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں اکثر اہل سنت علماء اور مذہبی رہنماء فلسطینی عوام کی حمایت میں واضح اور مؤثر آواز بلند کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ مالی، سیاسی اور مذہبی مفادات ہیں، جو انہیں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک سے وابستہ رکھتے ہیں۔
خاص طور پر پاکستان میں کئی بڑے اہل سنت علماء اور مذہبی تنظیمیں، جو خود کو اسلام کے حقیقی نمائندے قرار دیتی ہیں، فلسطین کے معاملے پر یا تو مکمل خاموشی اختیار کرتی ہیں یا پھر بہت کمزور اور غیر مؤثر بیانات دیتی ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان میں کئی مذہبی جماعتیں اور مدارس سعودی عرب سے مالی معاونت حاصل کرتے ہیں۔ سعودی عرب اپنی مذہبی اور سیاسی حکمت عملی کے تحت کئی دہائیوں سے پاکستان میں بہت سارے اہل سنت مدارس، مساجد اور علماء کو فنڈز فراہم کرتا رہا ہے۔ جس کا مقصد بظاہر اسلامی تعلیمات کی ترویج بتایا جاتا ہے، لیکن درحقیقت اس کے پیچھے کئی دیگر مقاصد بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ انہی مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ ان علماء کو ایسی پالیسیوں پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے، جو سعودی مفادات کے مطابق ہوں۔ فلسطین کے معاملے میں سعودی عرب کا مؤقف ہمیشہ مشکوک اور غیر واضح رہا ہے۔ عملی طور پر وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے خفیہ اور اب کھلم کھلا تعلقات استوار کر رہا ہے۔
سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ بڑھتا ہوا تعاون، عرب ممالک کی جانب سے صہیونی ریاست کے ساتھ معمول کے تعلقات کی پالیسی اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی مخالفت اس بات کا ثبوت ہیں کہ سعودی حکومت فلسطین کے مظلوم عوام کی حقیقی حمایت کے حق میں نہیں۔ چنانچہ پاکستان میں وہ مولوی حضرات جو سعودی مالی امداد پر انحصار کرتے ہیں، وہ فلسطین کے معاملے پر بھی سعودی بیانیے کے تابع رہتے ہیں اور کھل کر اسرائیل کی مخالفت نہیں کرتے۔ یہ سعودی نواز مولوی نہ صرف خود فلسطین کی حمایت سے گریز کرتے ہیں بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی اس مسئلے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ امت مسلمہ کو فلسطین کے معاملے پر متحد کرنے کے بجائے فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں اور فلسطین کی حمایت کو صرف ایک مخصوص فرقے یا گروہ کی جدوجہد قرار دے کر عوام کو اس سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستانی عوام کو چاہیئے کہ وہ ان مولویوں کے دوہرے معیار کو پہچانیں اور فلسطین کی حمایت میں بغیر کسی مصلحت کے کھڑے ہوں۔ ہمیں سعودی پالیسیوں کے زیر اثر رہنے کے بجائے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے فیصلے کرنے چاہئیں، کیونکہ فلسطین کی حمایت کسی ملک، جماعت یا فرقے کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہر مسلمان کی شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے اس ذمہ داری کو پس پشت ڈال دیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور ہم بھی ان ظالموں میں شمار ہوں گے، جو اسرائیلی جارحیت کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔ فلسطین اور غزہ کی آزادی کے لیے سب سے زیادہ اہل تشیع مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں۔ یہ قربانیاں صرف زبانی حمایت تک محدود نہیں، بلکہ عملی میدان میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف جدوجہد، فلسطینی عوام کے لیے مدد اور صہیونی سازشوں کے خلاف بے خوفی سے کھڑے ہونے پر مشتمل ہیں۔
اہل تشیع کی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت میں سب سے بڑی اور تاریخی قربانی وہ نظریاتی اور عملی تحریک ہے، جسے امام خمینیؒ نے شروع کیا۔ انہوں نے نہ صرف فلسطین کو امت مسلمہ کا ایک اہم مسئلہ قرار دیا بلکہ "یوم القدس" کے اعلان کے ذریعے دنیا کے تمام مظلوموں کو صہیونی استعمار کے خلاف متحد ہونے کی دعوت دی۔ امام خمینیؒ نے ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد اسرائیلی سفارتخانے کو بند کروا کر اسے فلسطینی سفارتخانے میں تبدیل کر دیا، جو عملی طور پر فلسطین کے لیے ایک بڑی سفارتی حمایت تھی۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی نے فلسطین اور غزہ کی حمایت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں، خاص طور پر حماس اور اسلامی جہاد کو ہر ممکن مدد فراہم کی، چاہے وہ عسکری تربیت ہو، وسائل کی فراہمی ہو یا سفارتی حمایت ہو۔ وہ عملی طور پر فلسطینی مجاہدین کے ساتھ میدان میں موجود رہے اور مزاحمت کو مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا۔
یہی وجہ تھی کہ اسرائیل اور اس کے اتحادی، خصوصاً امریکہ، انہیں فلسطینی جدوجہد کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے تھے اور بالآخر انہیں بغداد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا۔ اسی طرح سید عباس موسوی، جو حزب اللہ لبنان کے بانی رہنماؤں میں سے تھے، فلسطین کی آزادی کے لیے انتہائی فعال تھے۔ وہ نہ صرف اسرائیلی قبضے کے خلاف برسرپیکار تھے بلکہ فلسطینی عوام کے لیے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھاتے تھے۔ اسرائیل نے انہیں 1992ء میں ان کی اہلیہ اور بچے سمیت شہید کر دیا، کیونکہ وہ فلسطین کی مزاحمت میں ایک مضبوط ستون بن چکے تھے۔ عماد مغنیہ حزب اللہ کے وہ رہنماء تھے، جنہوں نے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے لیے دفاعی اور عسکری حکمت عملی ترتیب دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ فلسطین کے لیے سرگرم عمل رہے اور اسرائیل کے خلاف کئی کامیاب کارروائیاں انجام دیں۔ اسرائیل نے ان کی طاقت اور حکمت عملی سے خوفزدہ ہو کر 2008ء میں شام میں انہیں شہید کروا دیا۔
شہید مقاومت سید حسن نصراللہ نے اپنی پوری زندگی اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے وقف کر دی ہے۔ حزب اللہ نے 2006ء میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں جو کامیابی حاصل کی، وہ دراصل فلسطین کی مزاحمت کے لیے ایک بڑی مثال بنی، جس نے ثابت کر دیا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں۔خلاصہ امام خمینیؒ کی نظریاتی جنگ سے لے کر قاسم سلیمانی، عباس موسوی اور عماد مغنیہ کی عملی مزاحمت تک، اہل تشیع نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یہ قربانیاں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے لیے فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر امت مسلمہ متحد ہو جائے اور ان شہداء کے راستے پر چلے تو اسرائیلی قبضے کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔ ان شہداء کا خون ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امت کا مسئلہ ہے اور جب تک القدس آزاد نہیں ہوتا یہ مزاحمت جاری رہے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطین کے معاملے کی کوشش کرتے ہیں فلسطین کی آزادی فلسطینی عوام کے اس پروپیگنڈے کے فلسطین کی حمایت ہے کہ یوم القدس کی آزادی کے لیے یوم القدس کو کرنے کی کوشش یوم القدس کا پاکستان میں مسلمانوں کے کیا جاتا ہے اسرائیل کے اور فلسطین جاتا ہے کہ کہ فلسطین کے درمیان وہ فلسطین ممالک میں حکمت عملی نہیں بلکہ رکھتے ہیں ہے اور اس کے حق میں اور اس کے مسئلہ ہے اہل تشیع ہیں بلکہ ایران کے ان شہداء میں شرکت ان ممالک کے ذریعے کا مسئلہ یہ ہے کہ کے خلاف اہل سنت عوام کو اور بعض صرف ایک عوام کی کے ساتھ کا مقصد ہیں اور کر دیا اور ان کا حصہ ہیں کہ رہا ہے
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری تقسیم
اسلام ٹائمز: فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔ خصوصی رپورٹ:
غاصب صیہونی ریاست کی فضائیہ کی پائلٹوں سے لے کر موساد کے افسران تک، جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج کی لہر اسرائیل میں اندرونی تقسیم اور دراڑ کی گہرائی کیسے ظاہر کرتی ہے؟ اس بارے میں عبرانی حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ کے خلاف مظاہرے اور پٹیشن، جو فضائیہ کے اندر سے شروع کی گئی اور موساد جیسے حساس اداروں کے افسران میں شامل ہوتے گئے، اب نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے خلاف اس احتجاج میں سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج اسرائیلی معاشرے میں دراڑ کی گہرائی، اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صیہونی آبادکاروں کے درمیان بے چینی اور اضطراب کو ظاہر کرنیوالا ایک بے مثال منظرنامہ ہے، جس میں صیہونی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی، فوجی اور سیکورٹی اداروں سے نکل کر ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، مصنفین وغیرہ سمیت اعلیٰ طبقات تک پہنچ گیا ہے، یہ سب غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کی یہ لہر 9 اپریل کو شروع ہوئی تھی۔ جب 1200 سے زائد پائلٹوں اور فضائیہ کے ریزرو دستوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف احتجاج کے طور پر خدمت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔
معاشرے اور ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا:
ملٹری برانچز کے مختلف افسروں اور اہلکاروں نے بھی پٹیشن پر دستخط کیے، جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بین گوریون، تل ابیب اور ایریل یونیورسٹیوں کے سابق ڈینز سمیت 1800 سے زائد افراد نے 11 اپریل کو ایک احتجاجی پٹیشن جاری کی۔ ان مظاہروں کی لہر برف کے گولے کی مانند تھی جس نے پورے صہیونی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فضائیہ کے یونٹوں کے علاوہ بحریہ کے افسران، بکتر بند فوج، ریزرو فورسز اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ، انٹرنل سیکیورٹی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم جنگ کو مسترد کرتے ہیں اور قیدیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں۔
لیکن ان مظاہروں میں صہیونی حکام کو سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ موساد کے اندر سے مختلف عناصر بھی جنگ کے خلاف مظاہروں کی تازہ لہر کا حصہ بن گئے۔ جہاں اسپائی سروس کے 250 سابق ملازمین بشمول اس کے تین سابق سربراہان نے ایک احتجاجی پٹیشن تیار کی اور جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایلیٹ یونٹس جیسے شیلڈگ، شیطت 13، اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق کمشنر بھی ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ ان پٹیشنز پر دستخط کرنیوالوں میں سب سے نمایاں موساد کے سابق سربراہان جیسے ڈینی یتوم، ابراہم حلوی اور تمیر پارڈو شامل ہیں۔
اسرائیلی محکمہ صحت کے 3000 سے زائد ملازمین، نوبل انعام یافتہ شخصیات 1700 فنکاروں، اور سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ، اس سلسلے میں احتجاجی پٹیشنز پر دستخط کر چکی ہیں، جس میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر، 3500 ماہرین تعلیم، 3000 تعلیمی شعبے کے ملازمین، اور 1000 طلباء ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ یہ پٹیشنز اب محض علامتی بیانات نہیں ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے لئے کئی دہائیوں سے اس کی بقا کا سب سے اہم عنصر سمجھنے والی اشرافیہ میں عدم اطمینان اور تقسیم اور دراڑ کی عکاسی ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کا اختتام اور جنگ کے خاتمے کے لیے واضح سیاسی نقطہ نظر کی عدم موجودگی صیہونی اشرافیہ کی احتجاجی مظاہروں کی لہر میں شمولیت اسرائیلی معاشرے میں گہری تقسیم کی علامت بن گئی ہے جو اسے اندر سے درہم برہم کر سکتی ہے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کی اہمیت کے حوالے سے عبرانی حلقوں کا کہنا ہے یہ رجحان اسرائیل مقتدرہ، اشرافیہ اور اداروں میں اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے علاوہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافے کا سبب ہے، فوجی اور سیکورٹی یونٹس کے ارکان کی جانب سے احتجاجی پٹیشنز پر دستخط اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اندر سے اتنے بڑے پیمانے پر داخلی مظاہرے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
سیاسی اور عسکری اداروں میں عدم اعتماد کا بحران:
یہ تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے خلاف احتجاجی پٹیشنز اسرائیل کی سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈروں پر اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً اشرافیہ کا کابینہ اور فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور سول اداروں کی طرف سے جاری احتجاجی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کی بے نتیجہ جنگ کے بعد سیاسی ذرائع سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر بڑھتے ہوئے احتجاج اور اندرونی دباؤ کی مثال ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو جنرل اسرائیل زیو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں سول نافرمانی تو نہیں، لیکن یہ اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔
اس صہیونی جنرل، جو اس سے قبل انفنٹری اور پیرا ٹروپرز ڈویژن کے کمانڈر، غزہ ڈویژن کے کمانڈر اور اسرائیلی فوج کے آپریشنل شعبے کے سربراہ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی سائیٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاکید کی ہے کہ جن لوگوں نے احتجاجی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں وہ فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اشرافیہ کے اہم لوگ ہیں، یہ اس جنگ میں اسرائیل کی سیاسی قیادت کی ناکامی پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پٹیشنز پر دستخط کرنے والے نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے، ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے اسرائیلیوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں، اور وہ غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس کا مطلب ہوگا واضح قومی اور فوجی اہداف کے بغیر جنگ جاری رہے گی، جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے۔
صیہونی فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔