Islam Times:
2025-04-22@14:25:08 GMT

ٹرمپ کا یو ٹرن یا گہری سازش

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

ٹرمپ کا یو ٹرن یا گہری سازش

اسلام ٹائمز: ایران بھی 2015ء جیسا کھلاڑی نہیں ہے، جو کسی بھی قیمت پر معاہدہ کرنے کیلئے تیار ہو جائے۔ تہران ماضی سے سبق سیکھ کر کسی بھی ممکنہ مذاکرات میں بالادستی حاصل کرنے اور امریکہ کی سفارتی چالوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بہرحال اسوقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ واشنگٹن کیطرف سے حکمت عملی کی تبدیلی سے زیادہ ایک تاکتیکی اقدام ہے۔ ماہرین کے تجزیہ کے مطابق ٹرمپ کو اس سے جن توقعات اور مفادات کی امید ہے، وہ پورے ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

عراقی تجزیہ کار اور سیاسی کارکن نجاح محمد علی نے ایک تجزیہ لکھا ہے، جس کا عنوان ہے "متعدد دھمکیوں کے بعد امریکہ کا یو ٹرن۔" اس آرٹیکل سے چند اقتباسات اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی نمائندے اسٹیو وِٹکاؤف کے لہجے میں اچانک تبدیلی نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ وہ جو کچھ عرصہ پہلے تک ایران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ضرورت" کی بات کر رہے تھے، اب وہ "اعتماد سازی" اور "غلط فہمیاں دور کرنے" کی بات کر رہے ہیں۔ یہ انداز ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں میں واضح تضاد کی نشاندہی  کر رہا ہے۔ ایک ایسی پالیسی جو جنگ کی دھمکی سے شروع ہوئی تھی، لیکن اب یہ مذاکرات اور سفارتی پیغام رسانی کی کوششوں میں بدل گئی ہے۔ یہ اچانک موقف کی تبدیلی کہاں سے آئی ہے۔؟ کیا ٹرمپ انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے؟ یا یہ صرف وقت خریدنے کی ایک حکمت عملی ہے۔؟

ٹی وی انٹرویوز میں وٹکاؤ نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے تہران کو پیغام دیا ہے کہ وہ "باہمی احترام" کے ساتھ بات چیت کریں۔ ان کے اس بیان اور وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کے دھمکی آمیز الفاظ میں واضح فرق ہے۔ مائیک والٹر نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ دو بالکل متضاد مواقف ہیں، جو ٹرمپ انتظامیہ کی حکمت عملی میں ایک گہرے فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایران کے بارے میں وائٹ ہاؤس کی پالیسیاں الجھن اور تضاد کا شکار ہوئیں۔ جب ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی دور میں ایٹمی معاہدے سے دستبرداری اختیار کی تو انہوں نے وعدہ کیا کہ تھا کہ وہ ایران پر سختیاں بڑھا کر اسے مذاکرات کی میز پر کھینچیں گے، لیکن نتیجہ اس کے برعکس ہوا۔

ایران نہ صرف اپنے موقف سے پیچھے نہيں ہٹا بلکہ اس نے اپنی سرگرمیاں مزید بڑھا دیں اور اپنے علاقائی اثر و رسوخ کو مضبوط کیا۔ اس دوران، وائٹ ہاؤس نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ ایران کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی، جب تک کہ تہران اپنے ایٹمی منصوبوں کو مکمل طور پر ترک نہ کرے۔ اب 2025ء میں، تمام دھمکیوں اور پابندیوں کے باوجود، امریکہ نہ صرف بات چیت کا خواہاں ہے، بلکہ ٹرمپ کی جانب سے ایران کو بھیجے گئے خطوط میں ابتدائی پابندیوں میں تخفیف کے اشارے موجود ہیں۔ اس تبدیلی کو امریکہ کے اندرونی حالات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ معاشی مشکلات اور عوامی ناراضگی کا سامنا کرنے والے ٹرمپ کو اپنی خارجہ پالیسی کو ایک کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

ایران کے ساتھ فوجی تنازعہ میں داخل ہونا ان کے لیے بہت مہنگا پڑ سکتا ہے، اس لیے وہ مذاکرات کے ذریعے کم از کم ایک عارضی معاہدے کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایران جو کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کا تجربہ رکھتا ہے، وہ اب وائٹ ہاؤس کے وعدوں کو آسانی سے قبول کرنے کے لئیے تیار نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ٹرمپ کے پیغام کے ردعمل میں کہا ہے کہ ایران کے خلاف دھمکیوں اور سازشوں کی پالیسی مؤثر نہیں ہے۔ تہران نے کئی بار کہا ہے کہ وہ دباؤ کے تحت مذاکرات کو قبول نہیں کرتا اور کسی بھی طرح کے مذاکرات باہمی احترام کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی پیشکش کو کم از کم اس مرحلے پر ایران قبول نہیں کرے گا۔

لیکن ٹرمپ کے لہجے میں واضح پیغام ہے کہ ایران کے خلاف وائٹ ہاؤس کی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ یہ ناکامی صرف سفارت کاری تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس کی علامتیں میدان عمل میں بھی نمایاں ہیں۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے ایران کو معاشی اور سیاسی طور پر الگ تھلگ کرنے کی بہت کوشش کی ہے، لیکن ایران نہ صرف الگ تھلگ نہیں ہوا بلکہ اس نے روس، چین اور یہاں تک کہ کچھ عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے۔ یہ ٹرمپ کے لیے ایک تلخ حقیقت ہے، جو اسے طاقت کی پوزیشن سے نرمی کی پوزیشن میں جانے پر مجبور کر رہی ہے۔ لیکن کیا اس موقف کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اب بھی گاجر اور چھڑی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ایک طرف وہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف فوجی کارروائی کی دھمکی دیتے ہیں۔

ان کی حکومت میں یہ دوہری پالیسی بار بار سامنے آئی ہے۔ جب ٹرمپ نے شمالی کوریا کو امن کا پیغام دیا تو اس کے ساتھ اس نے پابندیوں کا دباؤ بڑھا دیا۔ جب انہوں نے مغربی ایشیا سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فوری طور پر مزید جنگی جہازوں کو خطے میں بھیج دیا اور اب، ایران کے خلاف، وہ اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس بار جو فرق ہے، وہ ایران کا ردعمل ہے۔ تہران پہلے کی طرح کسی معاہدے کی امید میں مذاکرات میں جلدی نہیں کر رہا ہے۔ ایرانی سیاست دانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ٹرمپ صرف ایک پروپیگنڈا ڈرامہ کی تلاش میں ہیں اور وہ حقیقی مراعات دینے سے انکار کر رہا ہے، لہذا اقتصادی دباؤ کے باوجود، ایران اپنے موقف پر قائم ہے۔ اس دوران، امریکہ کے اتحادی بھی الجھن میں ہیں۔ صیہونی حکومت، جو ہمیشہ ایران کے خلاف سخت پالیسیوں کی حمایت کرتی رہی ہے، اب ٹرمپ کے لہجے میں تبدیلی کو تشویش کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔

اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ٹرمپ کے پیغام پر ردعمل میں کہا ہے کہ "ہم ایران کے ساتھ کسی نئے معاہدے پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔" اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ کے قریبی اتحادی بھی ٹرمپ کی پالیسیوں میں پائے جانے والے تضادات سے پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکہ میں بھی اس موضوع پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لنڈسی گراہم جیسے سخت گیر ریپبلکن ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے مخالف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ ایک خطرناک پس پردہ سازش ہے۔ اس کے برعکس، کچھ دیگر امریکی سیاستدانوں کا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو جاری رکھنے سے ایران کو زیادہ جارحانہ اقدامات کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ اس حلقے کا کہنا ہے کہ سفارت کاری کو موقع دیا جانا چاہیئے۔ ان حالات میں یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ٹرمپ واقعی ایک نئے معاہدے کی تلاش میں ہیں یا صرف ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالیہ برسوں کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ اکثر اپنی پالیسیاں اپنے قلیل مدتی ذاتی مفادات کی بنیاد پر طے کرتے ہیں اور طویل مدتی حکمت عملیوں پر کم توجہ دیتے ہیں۔ اگر وہ ایران کے بحران کو اپنے مفاد میں ایک سفارتی ڈرامے کے ذریعے ختم کرسکتے ہیں، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسا ضرور کریں گے، چاہے انہیں اپنے سابقہ موقف سے عارضی طور پر پیچھے ہی کیوں نہ ہٹنا پڑے۔ دوسری جانب ایران بھی 2015ء جیسا کھلاڑی نہیں ہے، جو کسی بھی قیمت پر معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ تہران ماضی سے سبق سیکھ کر کسی بھی ممکنہ مذاکرات میں بالادستی حاصل کرنے اور امریکہ کی سفارتی چالوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بہرحال اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ واشنگٹن کی طرف سے حکمت عملی کی تبدیلی سے زیادہ ایک تاکتیکی اقدام ہے۔ ماہرین کے تجزیہ کے مطابق ٹرمپ کو اس سے جن توقعات اور مفادات کی امید ہے، وہ پورے ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ ہے کہ ایران کے ایران کے خلاف ایران کے ساتھ ہے کہ ٹرمپ کی کوشش کر وائٹ ہاؤس کی تبدیلی حکمت عملی امریکہ کے کی پالیسی کہا ہے کہ کر رہا ہے سے زیادہ کرنے کی ٹرمپ کے نہیں کر ہیں اور نہیں ہے کسی بھی رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
  • یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  •  او آئی سی انجمن غلامان امریکہ ہے، یمن اور ایران مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، مشتاق احمد 
  • ٹرمپ کی تنبیہ کے باوجود اسرائیل کا ایرانی جوہری پروگرام پر حملے کا امکان
  • مذاکرات، مقاومت اور جہد مسلسل