Islam Times:
2025-04-22@11:09:19 GMT

اسرائیل کے ناجائز قیام سے لے کر آج تک

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

اسرائیل کے ناجائز قیام سے لے کر آج تک

اسلام ٹائمز: آج جب کچھ عرب حکمران اسرائیل کی گود میں جا بیٹھے ہیں، جب امت کے سوداگر فلسطین کے خون کا سودا کر رہے ہیں، تب بھی ایران ایک قلعے کی طرح کھڑا ہے، فلسطینیوں کے حق میں، حق و باطل کے معرکے میں سچائی کی جانب۔ امام خمینی نے فرمایا تھا: یوم القدس صرف فلسطین کا دن نہیں، بلکہ یہ مستضعفینِ عالم کا دن ہے، ظلم کے خلاف قیام کا دن ہے۔ تحریر: جواد حیدر جوئیہ

یہ داستان صدیوں پر محیط نہیں مگر اس کا ہر لمحہ کربلا کی یاد تازہ کرتا ہے، یہ کہانی زمین کے ایک ٹکڑے کی نہیں بلکہ اس خواب کی ہے، جو ہر مظلوم کی آنکھ میں روشن ہے، وہ خواب جو حق کی فتح، ظلم کے زوال اور بیت المقدس کی آزادی کا خواب ہے۔ 1948ء کا سال امتِ مسلمہ کے جسم پر وہ خنجر تھا، جس کی کاٹ آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کے ناجائز قیام نے فلسطین کے سینے میں ایسا زخم دیا، جو ہر دن تازہ ہوتا ہے۔ لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے بے گھر کیے گئے، بچوں کے معصوم چہرے خوف کے سائے میں پلنے لگے، ماں کی گودیں اجڑنے لگیں اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ ہتھکڑیاں دے دی گئیں۔ مگر! یہ زخم ہار کا نشان نہیں، یہ قربانیوں کی گواہی ہے۔

جب 1967ء میں صہیونی درندوں نے مزید عرب زمینوں پر اپنے ناپاک پنجے گاڑے، جب 1973ء میں عرب حکمرانوں نے کمزوری دکھائی، جب امت نے فلسطین کے لہو کا سودا کیا، تب بھی اس سرزمین کے بیٹوں نے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ ایک ایک شہید کا خون گواہ ہے کہ یہ تحریک صرف زمین کا جھگڑا نہیں، یہ ایمان کا امتحان ہے، یہ صدیوں کی جنگ ہے، اس جنگ میں پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ دنیا کے بیشتر حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا کر فلسطینی عوام کے ساتھ خیانت کی، مگر ایک چراغ ایسا بھی تھا، جو آندھیوں میں بھی روشن رہا ایران! وہی ایران جس نے علی الاعلان کہا کہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے، وہی ایران جس نے فلسطینیوں کو تنہاء نہیں چھوڑا، وہی ایران جس نے حزب اللہ، حماس اور انصاراللہ کو وہ حوصلہ دیا، جس نے اسرائیل کی نیندیں حرام کر دیں۔

یہی حوصلہ تھا، جس نے 2000ء میں حزب اللہ کے مجاہدین کو وہ فتح دی کہ اسرائیلی فوج کو ذلت کے ساتھ لبنان چھوڑنا پڑا۔ یہی حوصلہ تھا، جس نے 7 اکتوبر کو فلسطین کے بیٹوں کے ہاتھوں میں بجلی کی سی تیزی بھر دی اور دنیا نے دیکھا کہ کیسے غزہ کی چھوٹی سی پٹی میں دنیا کی طاقتور ترین صہیونی فوج زمین پر گھسٹتی رہی، اہداف ادھورے رہ گئے، خواب بکھر گئے اور غرور خاک میں مل گیا۔ مگر یہ جنگ آسان نہ تھی۔ فلسطین کے لیے کتنے ہی چراغ بجھے، کتنی ہی مائیں بے اولاد ہوئیں، کتنے ہی معصوم اجل کا شکار ہوئے۔ شہید سید حسن نصراللہ، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار یہ سب وہ ستارے ہیں، جو اپنی روشنی تاریخ پر ثبت کرچکے ہیں۔ مگر کیا مقاومت رکی؟ نہیں! ہر شہادت کے بعد دشمن نے سوچا کہ شاید اب یہ تحریک تھم جائے گی، مگر وہ نہیں جانتا کہ یہ تحریک خون سے پروان چڑھتی ہے، یہ چراغ شہادت کے تیل سے جلتے ہیں۔

آج جب کچھ عرب حکمران اسرائیل کی گود میں جا بیٹھے ہیں، جب امت کے سوداگر فلسطین کے خون کا سودا کر رہے ہیں، تب بھی ایران ایک قلعے کی طرح کھڑا ہے، فلسطینیوں کے حق میں، حق و باطل کے معرکے میں سچائی کی جانب۔ امام خمینی نے فرمایا تھا: "یوم القدس صرف فلسطین کا دن نہیں، بلکہ یہ مستضعفینِ عالم کا دن ہے، ظلم کے خلاف قیام کا دن ہے۔" یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو پوری دنیا میں یوم القدس منایا جاتا ہے، یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہم ظالم کے خلاف ہیں، ہم مظلوم کے ساتھ ہیں، ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک قبلہ اول آزاد نہیں ہو جاتا، یہ تحریک صرف الفاظ کی گھن گرج نہیں، یہ خون کا وہ دریا ہے، جسے بہا کر ہی اسرائیل کے ناپاک وجود کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے گا۔

رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے سچ کہا تھا: "اسرائیل ایک کینسر ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔" یہ کوئی نعرہ نہیں، یہ تاریخ کا وہ نوشتہ ہے، جو اپنے انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ وقت بدل رہا ہے، امت بیدار ہو رہی ہے اور وہ دن قریب ہے، جب فلسطین کے مظلوموں کی سسکیاں فتح کے نعروں میں بدل جائیں گی، جب مسجد اقصیٰ میں پہلی صف میں کھڑے ہو کر ہم سب ایک ساتھ اللہ اکبر پکاریں گے، جب دنیا دیکھے گی کہ ظلم کبھی دائمی نہیں ہوتا اور حق ہمیشہ سر بلند رہتا ہے۔ یوم القدس صرف ایک دن نہیں یہ انقلاب کا اعلان ہے۔
یہ وعدہ شہداء ہے
 یہ عزمِ مقاومت ہے
یہ خون کی تحریر ہے
 یہ حریت کا منشور ہے
فلسطین زندہ باد
صہیونی جبر مردہ باد

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیل کے فلسطین کے یوم القدس یہ تحریک کا دن ہے کے ساتھ

پڑھیں:

ایران کا جوہری پروگرام(3)

اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا

مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"

اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔

امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"

اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے

اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔  
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔

اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"

ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔

مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟

متعلقہ مضامین

  • فصلوں کے لحاظ سے یہ بہت ہی خراب سال ہے، اسد عمر
  • علیمہ خان کو سیاست میں گھسیٹنا ناجائز ہے، عمر ایوب
  • علیمہ خانم اور بشریٰ بی بی پر شیر افضل مروت کی تنقید ناجائز ہے، عمر ایوب
  • لاہور، اسرائیل کی غزہ پر بربریت کیخلاف آئی ایس او کا احتجاج
  • جماعت اسلامی کے زیراہتمام اسلام آباد میں غزہ مارچ: پاکستان میں حماس کا دفتر کھولا جائے، حافظ نعیم کا مطالبہ
  • فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  •  او آئی سی انجمن غلامان امریکہ ہے، یمن اور ایران مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، مشتاق احمد 
  •  دو ریاستی حل ہم کبھی بھی اسرائیل کو قبول ہی نہیں کرتے، فخر عباس نقوی 
  • ٹرمپ کی تنبیہ کے باوجود اسرائیل کا ایرانی جوہری پروگرام پر حملے کا امکان