Express News:
2025-04-22@07:19:00 GMT

رمضان، عید اور جبرائیل کی بددعا

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

رمضان المبارک کا آخری عشرہ سرعت کے ساتھ اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، آج 26 واں روزہ اور ستائیس ویں رات، ممکن ہے آج کی رات ہی شب قدر ہو، وہ شب قدر جس کی ایک رات کی عبادت کو اللہ رب العزت نے 80 سال کی عبادت کے برابر قرار دیا ہے۔ شبِ قدر کے لیے مخصوص رات متعین نہیں یہ راز کسی کو معلوم نہیں ہے مگر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہی "ایک شب قدر" ہوتی ہے۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ "حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو"۔ طاق راتوں سے مراد، 21، 23، 25، 27، 29 کی راتیں ہیں۔ 21، 23 اور 25 تو گزر گئیں، باقی بچیں دو27 اور 29 کی طاق راتیں، اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ ان دونوں راتوں میں دل لگا کر عبادت کریں۔ پوری رات نہیں تو کچھ وقت ضرور شب بیداری کریں، ورنہ باجماعت نماز عشاء اور تراویح کے بعد دو، چار رکعت نفل پڑھ کر سوجائیں، بہتر ہے سحری سے پہلے دو چار رکعات نماز تہجد پڑھ لیں اورصبح فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لیں تو ان شاء اللہ اگر شبِ قدرگزری نہیں ہوگی تو مل جائے گی۔

اس بابرکت، مقدس اور جہنم کی آگ سے نجات والے مہینے کے اختتام پر آنے والی رات جسے عام طور پر چاند رات کہا جاتا ہے حقیقت میں وہ لیلۃ الجائزہ ہے، یہ رات خصوصی برکتوں، رحمتوں، بخشش و مغفرت اور نہایت فضیلت کی حامل ہے۔ جس میں ایمان و احتساب کے ساتھ ثواب کی نیت سے عبادت کرنے والوں کے لیے بڑی سعادتیں اور خوش خبریاں ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اس ماہِ مبارک میں اپنی عبادات اور روزوں سے اس ماہ مقدس کی برکات و فضائل سے فیض یاب ہوئے، اللہ کی رحمت اور مغفرت کو اپنے لیے برحق بنایا، جہنم سے خلاصی کا پروانہ حاصل کیا اور اللہ تعالیٰ کی تجلیات، انوارات و انعامات کے حق دار ٹھہرے۔

لیلۃ الجائزہ (چاند رات) میں اللہ تبارک و تعالیٰ اس ماہ مبارک کی تمام راتوں سے زیادہ سخاوت و فیاضی کے ساتھ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے، مگر یہ بدقسمتی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت عموماً اس رات کی اہمیت سے غافل رہتی ہے اور اس عظیم رات کے قیمتی لمحات کو بازاروں، شاپنگ سینٹرز، مارکیٹوں اور گلی کوچوں میں گزار کر ان کے فیوض و برکات سے محروم رہ جاتی ہے۔ ہم نے رمضان کے ابتداء میں اپنے کالم میں ذکر کیا تھا کہ اس مبارک مہینہ کی ناقدری کرنے والے کو کبھی حضرت جبرئیل امینؑ نے ان الفاظ میں بد دعا دی تھی کہ "ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی"۔ جس پر آپ ﷺ نے آمین کہی۔ خود آپﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایاکہ "بد بخت ہے وہ شخص جو اس ماہ مبارک میں بھی باران رحمت سے محروم رہا"۔ (کنز العمال، حدیث نمبر: 23693)

اس لیے ہمیں رمضان کے ان آخری لمحات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے رب العالمین کو راضی کرکے اپنی بخشش کا پروانہ لینا چاہیے، اللہ نہ کرے کہ ہماری غفلت ہمیں ہلاکت میں ڈالے اور آسمانوں میں ہمارا شمار ان بدبختوں میں ہو جو زمین پر عید کی خوشیاں منا رہے ہوں۔ اس لیے رمضان المبارک کے باقی لمحات اور خصوصاً آخری دو طاق راتوں اور بالخصوص لیلۃ الجائزہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے وقف کردیں۔

 عید الفطرمسلمانوں کا سب سے بڑا اور اہم ترین مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ آئیے آپ کو نبی رحمت کی ریاست مدینہ میں عید کے دن کی ایک جھلک دکھاتا ہوں، وجہ تخلیق کائنات آقائے نامدار نبی کریم ﷺ اپنے گھر مبارک سے نکل کر مسجد نبوی کی جانب بڑھنے لگے اچانک رسول اکرم ﷺ کے کانوں میں کسی بچے کے رونے کی آواز آئی، آپ ﷺ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس ایک بچہ، اپنے ہم عمر بچوں کے قہقہے سن کر روتے ہوئے بے اختیار اپنی درد انگیز آواز بلند کرتا تھا۔

آپ ﷺ نے اپنا رخ انور اس کی طرف کیا تو کائنات کا رخ تبدیل ہوگیا حسن و حسین اور صحابہ پیچھے چل پڑے، آپ ﷺ بچے کے قریب پہنچے، بچہ اتنا بڑا مجمع اپنی طرف آتے دیکھ کر سہم گیا اور سسکیاں بھرنے لگا حضور ﷺ کی آنکھیں بند ہوگئیں اپنا یتیمی والا دور یاد آگیا۔ فرمایا بیٹا کیوں رو رہے ہو۔ بچے نے غور سے آپ ﷺ کی طرف دیکھا اسے پہلی بار احساس ہوا کہ باپ جب اپنے لخت جگر کو بیٹا کہہ کر پکارتا ہے تو کتنا لطف آتا ہے، بچہ حیران تھا کہ میں ایک یتیم ہوں میرا تو باپ مرچکا ہے، بھوکا ہوں، نئے کپڑے نہیں ہیں مجھے کون بیٹا کہہ کر پکار رہا ہے۔

یتیم پیغمبر ﷺ نے یتیم بچے کو اپنے دوش مبارک پر سوار کیا، بچے نے سوال کیا آپ کون ہیں؟ رحمت اللعالمین ﷺ نے جواب دیا کہ میں تمہارا ابا ہوں۔ بچے کو لے کرحضور اکرم ﷺ گھر تشریف لاتے ہیں حضرت عائشہؓ آپ ﷺ کو اچانک دیکھ کرحیران ہوجاتی ہیں وجہ پوچھتی ہیں۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ "عائشہؓ تم اولاد کے لیے تڑپتی تھی نا آج خدا نے تمہاری آرزو پوری کردی میری اور سب مسلمانوں کی عید سے پہلے تمہاری عید ہوگئی۔ اللہ نے تمہاری سن لی۔ فرمایا یہ محمد ﷺ کا پسندیدہ بیٹا ہے"، عائشہؓ اہلًاوسھلًا مرحبا یا نبی کہہ کر بچے کو گود میں لے کر چومتی ہیں۔

حضور ﷺ نے اسے حسنین کریمین کے کپڑے پہنائے، کھانا کھلایا۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے میں تیرا باپ، عائشہؓ تیری ماں، فاطمہؓ تیری بہن، علیؓ تیرے چچا اور حسنؓ و حسینؓ تیرے بھائی ہوں۔ کہنے لگا یارسول اللہ ﷺ اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا۔ وہ خوش وخرم باہر نکلا تو لڑکوں نے پوچھا ابھی تو تو رو رہا تھا اور اب بڑا خوش وخرم ہے بات کیا ہوئی ہے وہ کہنے لگا میں بھوکا، ننگا تھا اللہ رب العزت نے میرے کھانے اور کپڑے کا انتظام کردیا اور اب میرے باپ رسول اللہﷺ، ماں سیدہ عائشہؓ، بہن سیدہ فاطمہؓ، چچا سیدنا علیؓ، اور بھائی حسنؓ وحسینؓ بن چکے ہیں۔ یہ سن کا لڑکے کہنے لگے کاش آج ہمارے باپ بھی نہ ہوتے۔ یہ لڑکا ہمیشہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی زیرکفالت رہا۔

تاریخ اسلامی کے اس درخشندہ واقعہ کو پڑھ کر میرا ذہن لمحہ موجود کے ان لاکھوں یتیموں اور یسیروں سے نہیں ہٹ رہا جن کے ماں باپ ارض مقدس فلسطین میں اسرائیلی درندوں کی بربریت کا شکار ہو کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر سے لے کر سرزمین فلسطین معصوم اور بے بس مسلمانوں کے خون سے سیراب ہوچکی ہیں۔ اگرچہ عیدالفطر 30دنوں تک مسلسل روزوں کی حالت میں بھوک وپیاس برداشت کرکے بار گاہ ایزدی میں خوشی و مسرت کا نام ہے۔ مگر یہ سوچا ہے اہل کشمیر اور خصوصاً اہل فلسطین صدیوں سے عید اور دوسری بڑی چھوٹی سب خوشیوں سے محروم ہیں۔

پوری دنیا میں مسلمانوں کے بچے عید کے دنوں میں کھلونوں کے ساتھ کھیل کر دل بہلاتے ہیں مگر غزہ کے معصوم بچوں کے نصیب میں کھلونوں کے بجائے بارود اور بم ہیں۔ غزہ کے بچے پورا دن اپنے والدین کی قبروں پر گزار کر پوری انسانیت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انھیں کس جرم کی پاداش میں یتیم کرکے ان کی زندگی سے رنگ و نور چھین لیا گیا اور ان کے والدین کو کیوںکر تاریک راہوں میں قتل کیا گیا؟ آج عالم اسلام کا کوئی حکمران ہے جو نبی کریم ﷺ کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے ان یتیم بچوں کوسینے سے لگائے، ان کی آنکھوں کے آنسو پونچھے، انھیں نئے کپڑے پہنائے تاکہ یہ بھی عید کی خوشیاں منا سکیں۔ اگر 75 اسلامی ممالک میں ایسا کوئی حکمران نہیں اور عوامی سطح پر ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے تو پھر اپنا جائزہ لیں کہ کہیں ہمارا شمار ان بدبختوں میں تو نہیں ہوگیا جن کو جبرائیل امینؑ نے بددعا دی تھی؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان المبارک کے لیے اس ماہ

پڑھیں:

کار مسلسل

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی( ایف آئی اے) پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف انکوائری کررہا ہے۔ انھیں عید الفطر کی تعطیلات سے قبل طلب کیا گیا تھا اور 11اپریل کو دفتری اوقات کے بعد ایک سوالنامہ ارسال کیا گیا، بتایا جاتا ہے کہ کسی نامعلوم شخص کی درخواست پر اس انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔

یہ سوالنامہ 12نکات پر مشتمل ہے،انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ 17اپریل تک سوالنامہ کے جوابات جمع کرائیں۔ اس سوالنامے میں ان کے سینیٹر کی حیثیت سے اور بعد میں ہونے والی آمدنی کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے طریقہ کار سے واقف صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اب ایک چارج شیٹ تیار کریں گے، پھر مزید کارروائی کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔

 فرحت اللہ بابر بنیادی طور پر انجنیئر ہیں۔ وہ 70ء کی دہائی میں سابقہ صوبہ سرحد حکومت کے محکمہ اطلاعات میں شامل ہوئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیراعظم صوبہ سرحد کے دورے پر پشاور آئے تو بھٹو صاحب نے صوبائی کابینہ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔

احتیاط یہ کی گئی تھی کہ یہ خبر قبل از وقت افشا نہیں ہونی چاہیے اور شام کو پی ٹی وی کی خبروں میں یہ خبر شامل ہونی چاہیے۔ محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ افسروں نے جونیئر افسر فرحت اللہ بابر کو گورنر ہاؤس بھیجا اور ہدایت کی کہ جلد سے جلد خبر کا ہینڈ آؤٹ تیار کر لیں۔ بابر صاحب نے یہ ہینڈ آؤٹ تیار کیا، یوں بھٹو صاحب ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوئے۔

 جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ سرکاری نوکری کو خدا حافظ کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور وہاں کئی سال گزارے۔ وہ جونیجو دور میں واپس پاکستان آگئے اور پشاور سے شائع ہونے والے معروف انگریزی کے مینیجنگ ایڈیٹر بن گئے۔

اس اخبار کے ایڈیٹر معروف صحافی عزیز صدیقی تھے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے آخری ایام تھے ۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر عزیز صدیقی اور فرحت اﷲ بابر کو اس اخبار سے رخصت ہونا پڑا۔ فرحت اﷲ بابر پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں میں شامل ہوگئے، وہ بے نظیر بھٹو حکومت کی پالیسی اور پلاننگ کمیٹی کے رکن رہے۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے، تو انھوں نے انھیں اپنا پریس سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے کئی دفعہ خیبر پختون خوا سے سینیٹ کے رکن رہے۔ انھوں نے خواتین، ٹرانس جینڈر اور مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

انھوں نے اطلاعات کے حصول کے قانون کی تیاری میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔ وہ ایچ آر سی پیP کے بانی ارکان میں شامل ہیں اور کمیشن کے بنیادی ادارے کے منتخب رکن بھی ہیں۔ وہ اس ادارے کو فعال کرنے میں ہمیشہ متحرک رہے اور انھوں نے اپنے اس مقصد کے لیے کبھی کسی بڑی رکاوٹ کو اہمیت نہیں دی۔

فرحت اللہ بابر لاپتہ افراد کے حوالے سے آئین کے تحت دیے گئے انسانی حقوق کے چارٹر اور سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشنز جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیے ہیں کے تحت اس مسئلے کے لیے کبھی سینیٹ میں آواز اٹھاتے ہیں تو کبھی عدالتوں کی سیڑھیوں پر اور کبھی نیشنل پریس کلب کے سامنے بینر اٹھائے نظر آتے ہیں۔

گزشتہ دفعہ پیپلز پارٹی نے فرحت اللہ بابر کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا تو بابر صاحب کے پاس انتخابی فارم کے ساتھ زرِ ضمانت جمع کرانے کے لیے رقم موجود نہیں تھی۔ ان کے چند دوستوں نے چندہ جمع کر کے زرِ ضمانت کی رقم جمع کرائی تھی۔

فرحت اللہ بابر نے ہمیشہ پیپلز پارٹی میں رہ کر مظلوم طبقات کے لیے آواز اٹھائی مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کی خاموشی سے بہت سے پوشیدہ حقائق آشکار ہورہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے ۔ فرحت اللہ بابر پاکستان کی سول سوسائٹی کا استعارہ ہیں۔ رئیس فروغ کا یہ شعر بابر صاحب کی شخصیت پر پورا اترتا ہے:

عشق وہ کارِ مسلسل کہ ہم اپنے لیے

کوئی لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے

متعلقہ مضامین

  • ن لیگ اور پی پی کا پانی کے مسئلے پر مشاورتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق
  • ہم موجودہ حالات میں اپوزیشن اتحاد کے حق میں نہیں، حافظ حمد اللہ
  • ڈیرہ اسماعیل خان، علامہ رمضان توقیر کا تحصیل پہاڑ پور کا دورہ
  • یہودیوں کا انجام
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • لیسکو چیف رمضان بٹ کا دورہ ’’نوائے وقت دفتر‘‘ ایم ڈی رمیزہ نظامی سے ملاقات 
  • کار مسلسل
  • پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے: رانا ثنا اللہ
  • ‎کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا؛ رانا ثناء اللہ
  • کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے