شک تھا کہ شاہ رُخ اور سلمان میرا بالی ووڈ کیرئیر ختم کرنا چاہتے ہیں، عامر خان کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
بالی ووڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان نے انکشاف کیا ہے کہ ایک موقع پر انہیں لگا تھا کہ ان کے حریف سلمان خان اور شاہ رُخ خان ان کا کیرئیر ختم کر کے انہیں بالی ووڈ سے نکالنا باہر کرنا چاہتے تھے۔
مشہور فلم دنگل ریلیز کے بعد سب سے زیادہ ہٹ فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں عامر خان، فاطمہ ثنا شیخ، سانیا ملہوترا اور دیگر نے شاندار پرفارمنس دی اور خوب داد سمیٹی۔ اس فلم نے عامر کی ناقابل یقین جسمانی تبدیلی اور کردار کے لیے ان کی لگن کی وجہ سے بھی توجہ حاصل کی۔
تاہم دنگل اسٹار عامر خان نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ وہ ابتدائی طور پر اس فلم کو قبول کرنے میں ہچکچا رہے تھے اور انہیں شبہ تھا کہ شاہ رخ خان اور سلمان خان نے ان کے کیریئر کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہدایت کار نتیش تیواری کو اس پروجیکٹ کی پیشکش لے کر ان کے پاس بھیج کر سازش کی ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Pinkvilla (@pinkvilla)
ایک حالیہ انٹرویو میں عامر خان نے دنگل پر اپنے ابتدائی ردعمل کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب نتیش تیواری نے اسکرپٹ پڑھ کر سُنایا تو وہ فوری طور پر متاثر ہوئے اور اسے قبول کرنے کے لیے بے چین ہوگئے۔ تاہم دھوم 3 میں انہوں نے 9.
اداکار نے بتایا کہ کیونکہ ماضی میں تینوں ’خانز‘ کے درمیان اختلافات بھی رہے ہیں اس لئے دنگل کے کردار کیلئے درکار سخت جسمانی تبدیلی نے انہیں سوچنے پر مجبور کردیا اور انہیں شک ہوا کہ سلمان خان اور شاہ رُخ خان نے ان کا بالی ووڈ کیرئیر ختم کرنے اور انہیں انڈسٹری سے باہر نکال پھینکنے کیلئے ایک بوڑھے باپ کے کردار کی آفر بھیجوائی ہے۔
ابتدائی طور پر عامر نے نتیش تیواری سے کہا کہ وہ فلم کو مزید 10-15 سال کے لیے روک دیں، کیونکہ یہ کردار بعد کے مرحلے میں ان کے لیے بہتر ہوگا۔ تاہم فلمساز عامر خان کے ہی ساتھ فلم بنانے پر بضد تھے۔
اداکار نے کہا کہ مگر اس فلم کی زبردست کہانی نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ وہ اسے دماغ سے نکال نہ سکے اور فیصلہ کیا کہ وہ فلم کریں گے اور اگر یہ فلم ان کے کیرئیر کی آخری فلم ثابت ہوئی تو ایسا ہی صحیح۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
تحریک انصاف اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی، نامور صحافی کا انکشاف
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن ) نامور صحافی انصار عباسی نے اپنے بلاگ میں لکھاہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔
پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لئے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کے بجائے سیاسی بقاءکی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ”ہائبرڈ سسٹم” (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔ یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دباﺅ یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں
کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔
پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتا ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔ اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔
آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے، اپنے قیدی رہنماو¿ں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کے بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔
لاہور سمیت ملک بھر میں زلزلے کے شدید جھٹکے
مزید :