جعفر ایکسپریس میں 380 مسافر سوار تھے، 26 شہید ہوئے، قائمہ کمیٹی کو بریفنگ
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے میں وزارت داخلہ اور آئی جی ریلوے نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی تحریری بریفنگ پیش کردی۔
نجی ٹی وی کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے حوالے سے وزارت داخلہ اور آئی جی ریلوے کی ان کیمرہ بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔
سرکاری دستاویز کے مطابق جعفر ایکسپریس 11 مارچ کو کوئٹہ سے دن 9 بجے 380 مسافروں کو لے کر روانہ ہوئی تھی، پانیر اور مشکاف اسٹیشن کے درمیان دن ایک بجے آئی ای ڈی دھماکے کے ذریعے ٹرین کو روکا گیا۔
دہشت گردوں نے ٹرین پر حملہ کرکے مسافروں کو یرغمال بنایا، دہشت گردوں نے ابتدائی طور پر مقامی مرد، عورتوں اور بچوں سمیت 86 مسافروں کو رہا کیا،12 مارچ کو مزید 78 یرغمالیوں کو دہشت گردوں نے رہا کردیا۔
سرکاری دستاویز کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف 12 مارچ کی شام کو آپریشن شروع کیا جس میں 190مسافروں کو بازیاب جبکہ 33 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا گیا، دوران آپریشن 5 اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔
سرکاری دستاویز کے مطابق ٹرین میں مجموعی طور پر 380 مسافر سوار تھے، 354 مسافروں کو ٹرین سے بحفاظت نکالا گیا جبکہ 26 مسافر شہید ہوئے جبکہ ریلوے پولیس کا کانسٹیبل اور ریلوے کا ایک ملازم بھی شہید ہوا۔
سرکاری دستاویز کے مطابق سیکورٹی کلیئرنس کے 12 گھنٹے بعد ریلوے ٹریک کی مرمت کر دی گئی تھی۔
آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے کمیٹی کے سامنے سیکورٹی کے بنیادی ڈھانچہ کو بہتر بنانے اور پاکستان ریلوے پولیس کی استعداد کار میں اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سرکاری دستاویز کے مطابق جعفر ایکسپریس مسافروں کو
پڑھیں:
کراچی کا نڈر سپاہی چوہدری اسلم شہید جو مجرموں کے لیے خوف کی علامت تھا
کراچی میں جب شہر دہشت اور خوف میں ڈوبا ہوا تھا، اس خوف کا مقابلہ کرنے والا واحد نام چوہدری اسلم کا تھا، ۔ وہ شہر کے نڈر سپاہی تھے اور دہشت کے سامنے کھڑے ہونے والے آخری شخص، جنہیں ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:فلم ’دھُرندھر‘ کے متنازع ڈائیلاگ پر چوہدری اسلم کی اہلیہ کا سخت ردعمل
چوہدری اسلم وہ شخص تھے جو سفید شلوار قمیض میں ملبوس ہاتھ میں پسٹل لیے، سینہ تان کر دہشتگردوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے تھے۔ وہ 1964 میں مانسہرہ کے علاقے ڈھڈیال میں پیدا ہوئے اور 1984 میں سندھ ریزرو پولیس کے ایگل اسکواڈ میں بطور اے ایس آئی شامل ہوئے۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ کراچی پولیس کا حصہ بنے اور 80 کی دہائی میں جونیئر افسر سے ترقی کرتے ہوئے ایس ایس پی کے عہدے تک پہنچ گئے۔
90 کی دہائی میں جب کراچی خوف اور بے امنی کی لپیٹ میں تھا، چوہدری اسلم گلبہار تھانے کے ایس ایچ او مقرر ہوئے اور آپریشن کلین اپ کے دوران اپنی گرفتاریوں، چھاپوں اور دبنگ انداز کے باعث شہر بھر میں مشہور ہوئے۔
چوہدری اسلم پر متعدد جان لیوا حملے کیے گئے۔ 2011 میں ان کے گھر پر خودکش حملہ ہوا، مگر وہ بچ گئے، البتہ چھ پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔ اس حملے کو انہوں نے دہشتگردوں کے خلاف ’اعلانِ جنگ‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:ایک بدنام زمانہ ڈاکو نے کیسے چوہدری اسلم سمیت دیگر پولیس افسران کو جیل بھیجا؟
وہ 9 جنوری 2014 کو کراچی میں ایک خودکش دھماکے میں وہ شہید ہو گئے۔ بعدازاں فوجی عدالتوں نے ان کے قتل میں ملوث ملزمان کو سزائے موت سنائی۔
چوہدری اسلم کی پہچان صرف بہادری نہیں بلکہ ہائی پروفائل کیسز کی بے خوف تفتیش بھی تھی، چاہے صولت مرزا کا معاملہ ہو، شعیب خان، رحمان ڈکیت، یا طالبان کے خطرناک نیٹ ورکس۔ ہر بڑے محاذ پر چوہدری اسلم کا نام ہی گونجتا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
چوہدری اسلم کراچی کراچی پولیس