Daily Ausaf:
2025-04-22@10:01:52 GMT

مسلمانوں کا لہو اتنا سستا کیوں ؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

سرینگر سے غزہ اور کے پی کے سے بلوچستان تک مسلمانوں کا لہو پانی سے سستا سمجھ کر بہایا جارہا ہے،عام لوگ تو دہشت گردی کا نشانہ بن ہی رہے ہیں،یہاں تو علماء کرام کو بھی چن چن کر مارا جا رہا ہے،آج پوری دنیا ہوبہو وہ منظر پیش کررہی ہے جس کا نقشہ اس آیتِ کریمہ میں کھینچا گیا ہے، ترجمہ:کہ زمین کی خشکی وتری میں لوگوں کے کرتوتوں سے فساد پھیل گیا، تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کی بعض بدعملیوں کا مزہ چکھائیں، ہوسکتا ہے(اس سے عبرت پکڑ کر) وہ باز آجائیں اور ان ہلاکت خیزیوں کا سب سے زیادہ شکار مسلم دنیا، امتِ مسلمہ بنی ہوئی ہے، کہیں پر کفریہ طاقتیں’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ کا مصداق بن کر اپنے سارے لائو لشکروں سمیت پوری طرح ہتھیار بند ہوکر چڑھائی یلغار کئے ہوئے ہیں، ایک مسلم خطے کے بخیے ادھیڑ کر اور اس کے حصے بخرے کرکے آپس میں بندربانٹ کرکے فارغ ہوتے ہی دوسرے خطے پر چڑھ دوڑتے ہیں، اس کا بھی یہی حشر کرکے کسی اور تازہ شکار پر دھاوا بول دیتے ہیں، کفر کا یہ طوفانِ بدتمیزی اپنی طغیانی وتمرد کے ساتھ جہاں جہاں سے گزرتا ہے، سکھ چین، امن وسکون، نظم وضبط، تہذیب وتمدن، روایات واقدار سب کچھ خس وخاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے، پیچھے لوٹ مار، قتل وغارت گری، خوف ودہشت، آہیں اورسسکیاں چھوڑ جاتا ہے، جہاں زندگی سسک سسک کر جیتی ہے اور انسانیت بلک بلک کر روتی ہے۔
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہِ بازارمیں
اب عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے
دوسری طرف مسلمانوں کے ہاتھوں، مسلمانوں کے قتلِ عام کا مسئلہ اتنا عام ہو گیا ہے کہ جس کو شمار وحساب میں لانا مشکل ہے اور پھر مسلمانوں کا باہمی قتل وقتال کا یہ سلسلہ بغیر کسی معقول وجہ کے نظر آیا ہے ، خواہ وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر بلکہ بسا اوقات تو قتل کرنے اور کئے جانے کے اسباب بھی معلوم نہیں ہوتے۔حالانکہ شریعت نے مسلمان کی جان کی قدروقیمت کو بہت اہمیت دی ہے اور اس پر انتہائی اہمیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور مذکورہ شکل کے قتل وقتال کو قربِ قیامت کے فتنوں میں شمار کیا ہے اور ان سے بچنے اور الگ رہنے کی تلقین کی ہے۔
ہم اختصار کے پیشِ نظر چند احادیث پیش کرتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہﷺکو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا اور آپﷺ یہ فرما رہے تھے تو کیسا پاکیزہ ہے اور کعبہ تیری خوشبو کیسی پاکیزہ ہے؟ تیری کیسی بڑائی ہے اور تیرا احترام کتنا بلند ہے؟ لیکن اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدﷺ کی جان ہے کہ مومن کا،اس کے مال کا اوراس کے خون کا احترام اللہ کے نزدیک تیرے احترام سے زیادہ ہے اور ہم مومن کے ساتھ اچھا گمان ہی رکھتے ہیں۔
مسلمان کو بغیرکسی شرعی وجہ کے قتل کرنا تو درکنار، مسلمان کی طرح اسلحہ سے اشارہ کرنے کو بھی سخت گناہ قراردیا گیا ہے، چنانچہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے(دینی) بھائی کی طرف لو ہے( جیسے اسلحہ، خنجر، تیر، تلوار یا ہلاک کرنے والی کسی چیز) سے اشارہ کیا تو اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جو عمل باعثِ لعنت ہوتا ہے وہ صغیرہ گناہ نہیں ہوسکتا بلکہ کبیرہ گناہ ہی ہوا کرتا ہے اور ایک دوسری حدیث میں حضورﷺ نے مسلمان پر اسلحہ اٹھانے والے کے بارے میں سخت وعید بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’ جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا تو وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ مسلمان کو بغیرشرعی وجہ قتل کرنا حرام ہے لہٰذا اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کے قتل کو بلاشرعی وجہ کے حلال سمجھے تب تو وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور اگر حلال نہ سمجھتے ہوئے مسلمان کو قتل کرے تو پھر اس کا یہ عمل مسلمانوں والا عمل نہیں اور ممکن ہے کہ وہ اس عمل کی وجہ سے کافروں کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہو۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد ہے’’ جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہوگی اور اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔اگر بغیر شرعی وجہ کے مسلمان کے قتل کو حلال سمجھے گا تو کافر ہوجائے گا اور ہمیشہ جہنم میں رہے گا ورنہ سخت گناہ گار ہونے کی وجہ سے ایک عرصئہ دراز تک تو جہنم کے عذاب میں مبتلا کیا ہی جائے گا۔
ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ’’مسلمان کو گالی دینافسق ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے‘‘۔اگر کسی کو مسلمان سمجھتے ہوئے شریعت کی طرف سے بیان کردہ وجہ کے بغیر اس کے قتل کو حلال سمجھا جائے تو اس کے کفر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ورنہ کم ازکم کبیرہ گناہ اور کافروں والا اور کفر کے قریب کرنے والا عمل تو ضرور ہے اورحضورﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر مسلمانوں کو جو مخصوص نصیحتیں فرمائیں، ان میں ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ ’’میرے بعد میں تم کافر ہوکرمت لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض کی گردنیں اڑائیں یعنی قتل کریں‘‘۔اس حدیث میں بھی حضورﷺ نے مسلمان کے قتل کرنے کو کفر کے الفاظ سے تعبیر فرمایا جس کی وجہ پیچھے گزر چکی ہے ۔اور ایک حدیث شریف میں حضورﷺ کا ارشاد ہے’’ہر گناہ کے بارے میں اللہ سے امید ہے کہ اس کی مغفرت فرمادیں مگر جو آدمی کفر کی حالت میں مرا، یا جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کرقتل کیا۔‘‘ اور ایک حدیث شریف میں یہ الفاظ وارد ہیں’’ ہر گناہ کے بارے میں اللہ سے امید ہے کہ اس کی مغفرت فرمادیں مگر جو آدمی شرک کی حالت میں مرا یا جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیا۔ظاہر ہے کہ مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی اتنی سخت وعیدیں اسی لئے ہیں کہ بعض حالات میں یہ عمل کفر کا باعث بن جاتا ہے اور اگر کفر کا باعث نہ بنے تو کفر کے قریب تو پہنچا ہی دیتا ہے۔‘‘
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مسلمان کو جان بوجھ کر کو جان بوجھ کر قتل اللہ تعالی قتل کرنے کے ساتھ ہے اور کے قتل وجہ کے اور اس

پڑھیں:

وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی

بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کرتی رہتی ہے یہ نہ صرف مسلمانوں کو ہندوؤں کا دشمن قرار دیتی ہے بلکہ مسلمانوں کو غیر ملکی بھی خیال کرتی ہے۔ برصغیر میں اسلام پھیلانیکا سہرا بزرگان دین کے سر ہے جن کی تعلیمات سے متاثر ہوکر غیرمسلم جوق در جوق مسلمان بنے۔ جہاں تک مسلمان بادشاہوں کا تعلق ہے۔ اسلام کو پھیلانے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔

حقیقت تو یہ ہے بی جے پی کے پروپیگنڈے کے قطع نظر ہندو مسلمان بادشاہوں سے اتنے مانوس تھے کہ جب 1857 میں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو ختم کرنا چاہا تو ہندو ان کے ساتھ تھے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ انگریزوں سے لڑے۔

اگر انگریزوں کو ساورکر جیسے غدار ہندوستانی نہ ملتے تو وہ چند سالوں میں ہی ہندوستان سے نکال دیے جاتے مگر اس شخص نے نہ صرف انگریزوں کی غلامی کو قبول کیا بلکہ ان کی ہدایت کے مطابق ہندو مسلمانوں میں خلیج پیدا کی جس کی وجہ سے دونوں قوموں میں دوریاں پیدا کی گئیں۔ ہندو مسلمانوں میں نفرت کی وجہ سے انگریز ہندوستان پر ڈیڑھ سو سال تک حکومت کرتے رہے۔ اسی ساورکر کی وجہ سے ہندوستان میں کئی مسلم دشمن تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) بھی ہے۔

بی جے پی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے جو اس وقت بھارت میں برسر اقتدار ہے اور مسلمانوں کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے ۔ چند سال قبل یہ متنازعہ شہریت بل متعارف کرا چکی ہے جس کے تحت بھارتی مسلمانوں کو بھارت میں اپنی شہریت ثابت کرنا ہے۔

مسلمانوں نے اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور بالآخر بی جے پی حکومت کو اسے موخر کرنا پڑا۔ اسی بی جے پی نے بابری مسجد کو رام جنم بھومی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا اور بالآخر اپنی حکومتی طاقت کے بل پر اس قدیم مسجد کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر گائے کاٹنے یا اسے ایذا پہنچانے کے الزام میں درجنوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔

پھر لَو جہاد کا مسئلہ کھڑا کیا اورکئی مسلم نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ پھر دھرم پری ورتن یعنی مذہب کی تبدیلی کی مہم چلائی گئی جس کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنانا شروع کیا گیا مگر یہ اسکیم کامیاب نہ ہو سکی اور اسے بند کرنا پڑا۔ اب مسلمانوں کو تنگ کرنے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے وقت کی زمینوں اور جائیدادوں میں مداخلت کی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں ایک بل پیش کر کے لوک سبھا میں پاس کرایا گیا ہے۔ اس بل کو پاس ہونے سے روکنے کے لیے کئی سیکولر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ لوک سبھا میں اس بل پر ووٹنگ میں اس کی حمایت میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ آئے۔

ظاہر ہے کہ حکومت نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر اس متنازعہ بل کو پاس کرا لیا تھا۔ یہ بل پاس تو ہوگیا ہے مگر مسلمان اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ احتجاجی مسلمانوں پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے حملے کر رہے ہیں تاکہ انھیں چپ کرا دیا جائے مگر مسلمان اس بل کو واپس لینے کے لیے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو یہ بل کسی طرح بھی ہندوؤں یا ملک کے خلاف نہیں تھا، یہ ایک خالص مذہبی معاملہ ہے۔ زمینوں کا اللہ کی راہ میں وقف کرنا اور پھر انھیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا ایک پرانا نظام ہے۔ وقف زمینوں کی دیکھ بھال ایک بورڈ کے ذمے ہوتی ہے جو وقف بورڈ کہلاتا ہے۔

ایسے وقف بورڈ بھارت کے ہر شہر میں موجود ہیں۔ ان زمینوں کو مدرسے، اسکول، اسپتال، قبرستان، مساجد اور عیدگاہ وغیرہ کے قیام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وقف قانون میں پہلی دفعہ 1995 میں ترمیم کی گئی تھی اس کے بعد 2013 میں پھر کچھ تبدیلی کی گئی۔ اب نئی ترمیمات نے بل کی شکل ہی بدل دی ہے۔ بی جے پی حکومت نے ان نئی ترمیمات کے ذریعے مسلمانوں کے اختیارات کو کم سے کم کر دیا ہے۔

اب نئی ترمیمات کے ذریعے دو غیر مسلم نمایندے بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جب یہ مکمل مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور صرف وہی اپنی زمینوں کو وقف کرتے ہیں تو ہندوؤں کو بورڈ میں شامل کرنے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔

اب نئے قانون کے تحت ہر ضلع کا کمشنر پراپرٹی کا سروے کرے گا اور ضلع کا اعلیٰ سرکاری عہدیدار فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف کی ہے یا نہیں۔ وقف کے معاملات میں مداخلت پر مسلمانوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مسلمانوں کے معاملے میں حکومت جو چاہتی ہے سپریم کورٹ بھی وہی فیصلہ دیتی ہے۔

کچھ مسلمان یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ جب مسلمانوں کے معاملات میں ہندوؤں کو دخل اندازی کا موقع دیا جا رہا ہے تو پھر مسلمانوں کو بھی ہندوؤں کے مندروں وغیرہ کی زمینوں کے ٹرسٹ میں شامل کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو رہا ہے۔

یہی بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی ہے جس سے وہ انتخابات کے وقت سیاسی فائدہ اٹھاتی ہے۔ وہ 15 برس سے مسلم کارڈ کے سہارے ہی حکومت پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ وقف جیسے مسلمانوں کے مذہبی معاملات پر زیادتی کے سلسلے میں لیاقت نہرو معاہدے کے تحت حکومت پاکستان بھارتی حکومت سے بات کر سکتی ہے مگر افسوس کہ ہماری حکومت بالکل خاموش ہے پھر سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے میڈیا نے بھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اس زیادتی پر کچھ لکھا اور نہ کہا۔

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل؛ کنگز کے آل راؤنڈر عامر جمال پر جرمانہ، مگر کیوں؟
  • فلم ’جوش‘ میں کاجول اور عامر خان نے شاہ رخ کیساتھ کام کرنے سے کیوں منع کردیا تھا؟
  • وقت وقت کی بات ہے
  • پاکستانی یوٹیوبرز کے بینک اکاؤنٹس کیوں بند ہوئے، اصل سبب کیا بنا؟
  • پاکستان میں کون اتنا طاقتور ہے جو صحافیوں کو اسرائیل بھیج رہا ہے:حافظ نعیم الرحمن
  • فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • غیرمسلم فلسطینیوں کے حق میں احتجاج، مسلمان ممالک چھرا گھونپ رہے ہیں، ہرمیت سنگھ