پیشہ ورانہ مصروفیات نے راقم کو کافی وقت گزر جانے کے بعد اپنے قارئین سے مخاطب ہونے کا موقع فراہم کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ وقفہ کی ایک اور بہت اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دراصل اب محسوس ہوا ہے کہ آپ کے اردگرد اجتماعی غیر یقینی ‘ الجھائو اور انتشار کے براہ راست اثرات انفرادی طور پر آپ کے دل اور دماغ پر اثر انداز ہوئے ہیں … سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس موضوع پر اپنے قارئین سے خیالات کا اشتراک کیا جائے ‘ اپنے ارد گرد جہاں روشنی کی امید اور وطن کی مٹی کا درد لئے کئی افراد سے سامنا ہوتا ہے وہاں عقل سے عاری بڑے نام بلکہ نام نہاد ’’سیاسی‘‘ زعماء کے ’’زریں خیالات‘‘ اور ’’اقوال‘‘ سن کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی ایسی کشتی کے سوار ہیں جس کا ملاح آنکھوں سے آندھا اور عقل سے بہرا ہے … نہ کشتی کا کمال ہے اور نہ ملاح کی خولی‘ بس چلی جارہی ہے خدا کے سہارے… اپنے ذاتی مفادات پر معاشرے‘ افراد اور طبقات اس طرح پہرہ دیتے دکھائی دے رہے ہیں جیسے اس کی تخلیق کا مقصد حیات ہی یہی ہو … ایک انسان کی حرص‘ مال سے محبت‘ اقتدار سے عشق‘ طاقت سے جنون کی حد تک لگائو‘ ذاتی تشہیر اور نجانے کیا کیا … اس حد تک بھی ہوسکتا ہے؟ اور و ہ یہ اپنے مشاہدہ کی مدد سے اس بات کا احساس بھی نہ کرسکے کہ اس کی نظروں کے سامنے ماضی قریب کے ’’فرعون‘ شداد اور قارون‘‘ اس ہماری نظروں سے اوجل ہوئے جیسے وہ اس دنیا میں آئے ہی نہ تھے … راقم کسی مبلغ کی طرح اپنے قارئین کو کوئی نصیحت نہیں کر رہا بلکہ دراصل اس امر کی ضرورت پر زور دینے کی کوشش کررہا ہے کہ انسانی جسم میں روح کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کی حامل اگر کوئی شے ہے تو وہ احساس ہے انسان اور چوپائے یا جانو ر سے اس کی تخصیص کرتا ہے۔ آپ اور میں احساس کے دروازے پر دستک دیں گے تو وہ در کھلے گا جس کے نتیجے میں ہم ایک جانور کی سی خصوصیات والی زندگی سے نکل کر خوشحالی‘ تہذیب ‘ امید اور روشنی کی اس شاہراہ سے لطف اندوز ہوں گے جو برسوں سے اپنا رخ ہم سے موڑے ہوئے ہے۔
ذر ا سوچئے خود غرضی کی انتہا یہ ہے کہ اگر انفرادی زندگی میں انحطاط‘ پسماندگی‘ غربت‘ جہالت‘ تنگ دستی‘ کمزور معیشت اور اس جیسے بے شمار منفی عناصر ہماری ذاتی زندگی میں شامل ہوں گے تو کیا ہم ان سے نکلنے اور ایک روشن مستقبل کی فکر میں دن اور رات ایک نہیں کر دیں گے؟ مگر نجانے کیوں جب بھی بات ریاستی خوشحالی او ر اجتماعی مفاد کی آتی ہے تو ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں‘ ہمارے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے اور دماغ مائوف ہو جاتے ہیں۔
کیا بلوچستان سے لے کر خیبر تک ہم اپنی جاگتی آنکھوں سے لگی ہوئی آگ کو نہیں دیکھ پارہے … گو کہ ہمارے ’’زعماء‘‘ کی انا اور بے حسی نے اس آگ کی تپش سے انہیں ایک ’’حفاظتی حصار‘‘ میں لیا ہوا ہے کہ وہ اسے محسوس نہیں کر رہے ‘ آخر کب تک؟… یاد رکھیئے انا کی جنگ کو اصول کا نام دے کر ہمارے ’’اکابرین‘‘ ’’اشرافیہ‘‘ اور مقتدر حلقے‘‘ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ وہ بہت بڑے ’’افلاطون‘‘ ہیں اور ان کی ’’بصیرت بھری آنکھ‘‘ جو کچھ دیکھ رہی ہے وہ عوام نہیں سمجھ سکتے… یقین جانئے ان کی اس خوش فہمی کو دور کرنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ حالات چیخ چیخ کر یہ بتا رہے ہیں کہ دراصل ان کی اس ’’خوش فہمی‘‘ کا اختتام ایک بہت بڑی ’’غلطی فہمی‘‘ پر پہلے ہوچکا ہے … نتائج آپ کے سامنے ہیں راقم کو ان کی نشاندہی کرنے کی زحمت نہیں کرنی پڑ رہی ‘ کیونکہ کسی بھی حکمت عملی کے درست او ر غلط ہونے کا صرف ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے نتائج جسے ہم انگریزی زبان میں “End Results” کے نام سے موصوم کرتے ہیں … اور اگر اب بھی ’’ہم سب نے‘‘ اپنی غلطی کا اعتراف نہ سہی‘ نشان دہی بھی نہ کی تو اور اپنی اپنی ذاتی اور ادارتی انا کی پشت پر ہٹ دھرمی کے سرکش گھوڑے پر سواری سے ’’لطف اندوز‘‘ ہوتے رہے تو پھر آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہر شاخ پر کون ’’براجمان‘‘ ہے اور پھر یہ بھی آپ کے علم میں ہوگا کہ ’’انجام گلستان‘‘ کیا ہوگا؟… کتنے دکھ درد اور افسوس کی بات ہے کہ ہم نے تو غربت‘ جہالت‘ معاشی پسماندگی‘ آبادی کے مسائل‘ ماحولیات‘ زراعت کی ترقی‘ صنعتوں کے قیام‘ اپنی تہذیب اور تمدن‘ ترویح اور سب سے بڑھ کر بین الاقوامی برادری میں اپنے مقام اور کردار پر بات کرنی تھی!! یہ ہم کن مسائل کاشکار ہوگئے؟ مالیاتی لوٹ مار‘ اقتدار کی حوس‘ دہشت گردی‘ درندگی صفت‘ سیاسی سوچ‘ امن و امان‘ قرض لے کر قرض ادا کرنا … یہ تو نہ تھے ہمارے موضوعات!!! افسوس صد افسوس ‘ ہمارے اسلاف نے تو ہمارے کچھ اور اہداف مقرر نہ کئے تھے … آج کی تاریخ میں جب راقم آپ سے مخاطب ہے ‘ جاگیردارانہ سوچ بلکہ یوں کہیئے برائے نام ’’ڈگریوں والے علم‘‘ کے لبادے لپٹی جاہلانہ سوچ‘میرے اور آپ کے سامنے ایک خوفناک جن کی طرح کھڑی یہ کہہ رہی ہے کہ بھاڑ میں گئی اس ملک کے نوے فیصدعوام کی غربت‘ توانائی اور روزگار کے مسائل‘ وغیرہ وغیرہ۔
مجھے تو اپنی انا کی تسکین اور مفادات کے حصول کے لئے ’’ایندھن‘‘ درکار ہے … نجانے کب تک ہم ان کی ان ’’ضروریات‘‘ کے سامنے ہاتھ بندھے مودب کھڑے رہیں گے اور بے حسی کے چنگل سے حقیقی آزادی حاصل کر پائیں گے جسے گزشتہ دنوں ہم نے منایا بھی ہے مگر فی الوقت ہم اجتماعی اور ریاستی سطح پر ایک ریگستان میں بے سمت شتر بے مہار کی طرح بھٹک رہے ہیں او ر صورتحال یہ ہے کہ۔
کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا نہیں معلوم
ہاتھ اٹھالئے سب نے دعا نہیں معلوم
موسموں کے چہرے سے زردیاں نہیں جاتی
پھول کیوں نہیں لگتے خوشنما نہیں معلوم
رہبروں کے تیور بھی رہزنوں سے لگتے ہیں
کب کہاں پہ لٹ جائے قافلہ نہیں معلوم
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں معلوم کے سامنے نہیں کر ہے اور کی طرح
پڑھیں:
قانون کی حکمرانی ہوتی تو ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے : عمرایوب
اسلام آباد(اپنے سٹاف رپورٹرسے)قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمرایوب خان نے مجلس وحدت المسلمین کے زیر اہتمام منعقدہ استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں سینیٹرعلامہ راجہ ناصر عباس کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ہمیں معلوم ہے رات کے ا ندھیروں میں جو جنات آتے رہے دبائوڈالتے رہے ہیں ان جنات کے لئے آپ نے جو تعویز رکھا وہ موثرنکلا اور ان کو بھگا دیا عمر ایوب خان نے کہا کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو بانی پی ٹی آئی ، بشری بی بی اور ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے کل عالیہ حمزہ اور صدام خان ترین کو گرفتار نہ کیا جاتا گیا انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جب استحکام نہیں ہے قانون کی حکمرانی نہیں ہے تو وہ ہارڈ سٹیٹ نہیں بن سکتایہاں پر آزادی اظہار رائے موجود نہیں ریاست کی تشریح آئین کے آرٹیکل7 میں موجود ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کا مطالبہ ہے مِسنگ پرسن کا معاملہ ختم کریں ہمارے وسائل پر ہمارا حق دیں مگر دونوں مطالبات تسلیم نہیں کرتے ماہ رنگ بلوچ کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا گیا اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی نے کء اجولائی 2024 کو ایوان صدر میں گرین انیشیٹو کا اجلاس ہوتا ہے جس میں تمام چیزیں موجود ہیںوزرا اس کی تصدیق کرتت ہیں دنیا میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں پاکستان میں مہنگائی زیادہ ہوئی ہے عمر ایوب خان نے کہا کہ جعفر ایکسپریس حادثہ انٹلی جنس کی ناکامی ہے اس وقت فارم 47کی حکومت کے پاس مینڈیٹ ہی نہیں ہے اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم نے 12مارچ کو دریائے سندھ پر کینالز کی قرارداد جمع کرائی وہ قرار داد ہی اسمبلی ریکارڈ سے غائب کرادی گئی۔