ہیروئن اسمگلروں کے خلاف رینجرز کی کارروائیاں درست قرار
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
لاہور:
ہیروئن اسمگلرز کے خلاف رینجرز کی کارروائیوں کو لاہور ہائی کورٹ نے درست قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق کے روبرو کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے ہیروئن اسمگلروں کے خلاف رینجرز کی کارروائی کو درست قرار دیتے ہوئے قانونی نکتہ طے کردیا، جس کے مطابق رینجرز کسٹمز ایکٹ کے تحت ہیروئن اسمگلروں کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔
عدالت نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے ہیروئن برآمدگی کیس کے ملزم کی درخواست ضمانت خارج کردی ۔
فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ رینجرز کے مختلف اقسام کے افسران کے پاس کسٹمز ایکٹ کے ذریعے متعلقہ اختیارات موجود ہیں۔ رینجرز افسران نے ملزم سے منشیات برآمدگی کے بعد اسے پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ ملزم / درخواست گزار سے بھاری مقدار میں ہیروئن برآمد ہوئی ہے، جسے غلطی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے میں لکھا کہ ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ رینجرز نے کسی بری نیت سے ملزم کو مقدمے میں نامزد کیا۔ 10اکتوبر 2024 کو ملزم سے ہیروئن برآمدگی کا مقدمہ ہڈیاڑہ پولیس نے درج کیا۔ رینجرز کو بارڈر کے قریب ایک گاؤں میں کچھ مشکوک افراد کی موجودگی کی خبر ملی تھی جس پر ریڈ کرنے پر ملزم مقبول علی سے مجموعی طور پر 1060 گرام ہیروئن برآمد ہوئی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ملزم کے وکیل کے مطابق رینجرز نے ماضی میں ہونے والے ایک اختلاف کے باعث اس جھوٹے کیس میں نامزد کیا۔ وکیل کے مطابق پاکستان رینجرز کے پاس انسداد نشہ آور مواد ایکٹ کے تحت کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں۔حکومتی نوٹیفکیشن کے تحت گرفتاری کی صورت میں رینجر کا آفیسر انسپکٹر رینک سے چھوٹا نہیں ہونا چاہیے۔
عدالتی فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ وکیل کے مطابق موجودہ کیس میں ریڈ کرنے والی ٹیم رینجر کے سب انسپکٹر کی زیر نگرانی تشکیل دی گئی تھی۔ پاکستان رینجرز کے افسران کے مطابق کسٹمز ایکٹ کے تحت رینجرز افسران انٹرنیشنل بارڈر سے 20 کلو میٹر میں کسی مشکوک شخص کو چیک کر سکتے ہیں۔ ملزم کے وکیل کی دلیل تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ رینجرز کے سب انسپکٹر کی جانب سے گرفتاری نے سارے واقعے کو خراب کیا ہے۔ عدالت ماضی کے عدالتی فیصلوں پر انحصار کرتے ہوئے ملزم کی درخواستِ ضمانت مسترد کرتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فیصلے میں رینجرز کے کے مطابق ایکٹ کے کے خلاف کے تحت
پڑھیں:
اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ
پہلی بار نہ سہی مگر اکادمی ادبیات پاکستان نے ادبی ایوارڈ زکی صورت میں جو اندھا یدھ برپاکیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔قومی معاملات میں مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تو ہوہکار کے طوفان تو اٹھتے اور بیٹھ جاتے ہو ئے دیکھے ہیں مگر علم و دانش اور شعر و ادب کے حوالے سے ایسی رستاخیز کبھی برپا نہیں ہوئی تھی۔اس پر مستزاد اہل قلم مداہنت آمیز خاموشی…! اور تو اور جن کا قلم درد و الم کی گنگا بہانے کی’’خیالی نقش گری‘‘ میں کمال مہارت رکھتا ہے ، جن کی زنبیل میں سیاسی بد عنوانیوں اور بداعمالیوں پر ڈالنے کے لئے اطلس و کم خاب کے پارچہ جات کی کمی نہیں ،وہ جو ہر فیصلے اپنی پسند و ناپسندی کی جہت دینے کے وسیع اختیارات رکھتے ہیں ۔جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کے سفید ہونے کی تصدیقی مہریں ہر پل اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں اور طاقت پرواز ایسی کہ کاغذی بیمانوں پر سوار ہوکر جدہ پیلس پناہ جلینے میں ساعت بھر نہیں لگاتے ۔اپنا یہ حسن ظن بھی خیال خام ثابت ہوا کہ اس بار وہ بچ بچا کر ہونے والے امکانات کی روشنی میں فیصلے صادر کروائیں گے کہ اس پیرانہ سالی میں کفاروں کی ادائیگی کا اہتمام صاف و شفاف دکھائی دے گا ۔مگر وائے افسوس وہ دہکتے ہوئے ادبی ماحول کی بابت کچھ کہنے کی بجائے ’’لق و دق صحرا میں بگولے کی طرح رقص کرتے گھمن گھیریاں کھاتے‘‘
پی ٹی آئی کے وجود کا نوحہ لکھنے ہی میں مست رہے ،کیونکہ ان کے حکم اذاں کی تعمیل کے لئے عمرہ جاتی یا جاتی عمرہ کی جانب رخ انور سجائے رکھنا ضروری ہے ۔ اکادمی ادبیات کی نیاز بانٹنے والوں نے جو ’’یدھ‘‘ مچایا اس کی مثال نہیں ملتی اور مجال کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قومی خزانے پر انہیں کا حق ہے جنہیں ان کے اجداد سانپ کی طرح اس کی نگرانی پر مامور کر گئے تھے۔یوں بھی اپنے اپنے خدا گھڑلینے کا رواج اب نہیں پڑا یہ بہت پرانی رسم ہے زمین پر خدا بنالینے والوں کی اپنی احتیاجات اور اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔مورت گری کے فن پر دسترس ہوتو ضمیر آڑے نہیں آتا کہ یہ تو ہنر ہی باد فروشوں ہی کا ہے ۔اب کی بار اکادمی ادبیات کی شہ نشین صنف نازک ہیں نزاکتوں بھرے فیصلے ہی ان کی زبانی سنوائے جانے تھے ،انہیں کیا خبر عدل کیا ہوتا ہے ؟ انصاف کسے کہتے ہیں ؟ کہ ان کے زریں دور میں تو ایسے ہی غیر شفاف فیصلوں کا چلن ہے ،پھر ان پر کیا دوش کہ ان کے گرد بھی تو باد سنجوں کی ایک فوج ظفر موج ہوگی ، جنہیں سچ کہنے اور حق کرنے کا بھلے یارہ ہی کس نے بخشا ہوگا اور وہ بھی لکھے ہوئے فیصلوں پر دستخط کرنے کا اختیار رکھتی ہیں، خط تنسیخ کی اجازت آنہیں کہاں تفویض کی گئی یہ اختیار تو سنا ہے ریاست اور حکومت کے سربراہ کے پاس بھی نہیں ہوتا ،سوائے اس کے کہ فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت اختیار بس اتنا کہ خبر میں رہنا ہے کتنے سخن ساز ہیں ،قلم کار ہیں بھوک رات دن جن کے آنگنوں میں رقص کرتی ہے مگرکسے خبر ہے ہمارے اندر ہر ایک منظر بہ چشم تر ہے کسے خبر ہے (مصدق سانول) ایک نابغہ روزگار نوجوان شاعر تھا عین شباب میں داعی اجل ہوا ۔آج تک کسی کی نظر سے نہیں گزرا ،اس کی نظمیں ،اس کی گائی ہوئی کافیاں ،سرائیکی شعری سرمایہ سب حالات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
سرائیکی وسیب کے منفرد لہجے کے شاعر حبیب فائق کسے یاد ہیں،یاد تو فقیر منش سرائیکی شاعر اسلم جاوید بھی کسی کو نہیں جو ابھی زندہ ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔کس کس کا ذکر کریں کہ یہاں یہ رسم رہی ہے کہ ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ مقبول تنویر سرائیکی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئے ۔مرحوم ڈاکٹر مقصود زاہدی اردو رباعی کے بادشاہ کبھی کسی ایوارڈ کے مستحق نہیں ٹھہرائے گئے اور ممتاز اطہر اردوغزل کو نئی جہت اور جدید رنگ عطا کرنے والے ،غربت و افلاس کے اندھیروں میں بھٹکرہے ہیں کسی نے ان کی انگلی نہیں تھامی کہ بے روزگاری کے اندھے کنویں سے نکل آتے ۔ایسے کئی اور رتن ہوں گے جو آسودہ خاک ہوئے اور وہ ہیں کہ ابھی بے سمتی اور بے حکمتی کے لق و دق صحرا میں رقص کرتی، پی ٹی آئی پر ہی سوئی اڑائے ہوئے ہیں ۔