یوکرین جنگ: ماسکو اور کییف بحیرہ اسود میں جنگ بندی پر متفق
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مارچ 2025ء) سعودی عرب میں تین روزہ امن مذاکرات کے بعد روس اور یوکرین نے امریکہ کے ساتھ الگ الگ معاہدوں کے تحت بحیرہ اسود میں بحری جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔
واشنگٹن نے معاہدوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریق ایک "پائیدار اور دیرپا امن" کے لیے کام جاری رکھیں گے، جس کی وجہ سے ایک اہم تجارتی راستہ دوبارہ کھل سکے گا۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ایک دوسرے کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ نہ کرنے کی جو جزوی جنگ بندی ہوئی تھی، اس کے نفاذ کے لیے بھی وہ "اقدامات تیار کرنے" کا پابند ہے۔
البتہ روس نے کہا ہے کہ یہ بحری جنگ بندی صرف اسی وقت عمل میں آئے گی، جب اس کی خوراک اور کھاد کی تجارت پر عائد متعدد پابندیاں ہٹا دی جائیں گی۔
(جاری ہے)
بحیرہ اسود میں جنگ بندی میں پیش رفت اس وقت سامنے آئی، جب سعودی عرب میں منگل کے روز ختم ہونے والے طویل مذاکرات میں امریکہ نے حصہ لیا۔
سعودی عرب میں مذاکرات میں ’پیش رفت‘ کی امید ہے، ماسکو
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ دونوں ممالک نے "محفوظ بحری سفر کو یقینی بنانے، طاقت کے استعمال کو ختم کرنے اور بحیرہ اسود میں فوجی مقاصد کے لیے تجارتی جہازوں کے استعمال کو روکنے پر اتفاق کیا ہے۔"
یوکرین جنگ بندی مذاکرات: امریکہ اور روس کی توقعات مختلف
روس نے اس حوالے سے کیا کہا؟روس کے ایک اہم مذاکرات کار نے کہا کہ یوکرین میں جزوی جنگ بندی پر روسی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت مددگار رہی ہے اور وہ اس کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
گریگوری کاراسین نے روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کو بتایا، "ہم نے ہر چیز کے بارے میں بات کی، یہ ایک شدید مکالمہ تھا، آسان نہیں تھا، لیکن ہمارے اور امریکیوں کے لیے بہت مفید تھا۔"
لیکن واشنگٹن کے اعلان کے فوری بعد کریملن نے ایک بیان میں اس بات کی وضاحت بھی کی کہ بحیرہ اسود کی جنگ بندی اس وقت تک عمل میں نہیں آئے گی، جب تک کہ بین الاقوامی خوراک اور کھاد کی تجارت میں شامل روسی بینکوں، پیداور میں شامل یونٹوں اور برآمد کنندگان پر عائد پابندیوں کو ختم نہیں کیا جاتا۔
روس کی جانب سے جن اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے اس میں متعلقہ بینکوں کو سوئفٹ پے والے ادائیگی کے نظام سے دوبارہ جوڑنا، خوراک کی تجارت میں ملوث روسی بحری جہازوں کی سروس پر عائد پابندیوں کو ہٹانا اور خوراک کی پیداوار کے لیے درکار زرعی مشینری اور دیگر سامان کی فراہمی پر عائد پابندیوں کو ختم کرنا شامل ہے۔
یوکرین بھی جزوی جنگ بندی پر راضی
روسی مذاکرات کار کاراسین نے یہ بھی کہا کہ روس چاہے گا کہ دوسرے ممالک اور اقوام متحدہ بھی ان مذاکرات میں شرکت کریں۔
انہوں نے کہا، "ہم مذاکرات جاری رکھیں گے۔ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ اور بعض دیگر ممالک کو اس میں شامل کر کے۔"
وائٹ ہاؤس کے بیان سے یہ واضح نہیں تھا کہ آخر یہ معاہدہ کب سے نافذ العمل ہو گا۔ جب پابندیاں ہٹانے کے بارے میں پوچھا گیا، تو ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا، "ہم ابھی ان سب کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
ہم ان کو دیکھ رہے ہیں۔"امریکہ-روس مذاکرات کے بارے میں واشنگٹن کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ "زرعی اور کھاد کی برآمدات کے لیے عالمی منڈی تک روس کی رسائی بحال کرنے میں مدد کرے گا"۔
یوکرین کا رد عملیوکرین کے وزیر دفاع رستم عمروف نے سوشل میڈیا ایکس پر اس نئے معاہدے کی خبر کی تصدیق کی۔
عمروف نے کہا کہ تمام فریقوں نے محفوظ نیویگیشن کو یقینی بنانے، طاقت کے استعمال کو ختم کرنے اور بحیرہ اسود میں فوجی مقاصد کے لیے تجارتی جہازوں کے استعمال کو روکنے پر اتفاق کیا ہے۔
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلینسکی نے بحیرہ اسود میں بحری جنگ کا احاطہ کرنے والے جزوی جنگ بندی معاہدے اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف فضائی حملوں کو عارضی طور پر روکنے کا خیر مقدم کیا ہے۔ البتہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ گیند اب ماسکو کے کورٹ میں ہے۔
’پوٹن ایک کھیل کھیل رہے ہیں‘، جرمن وزیر دفاع
انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے روزانہ شام کے خطاب میں کہا، "آنے والے دنوں میں روس کیسا برتاؤ کرتا ہے، اس سے بہت کچھ ظاہر ہو جائے گا۔
اگر دوبارہ فضائی حملوں کے انتباہات ہوتے ہیں، اگر بحیرہ اسود میں نئے سرے سے فوجی سرگرمیاں ہوتی ہیں، اگر روسی جوڑ توڑ اور دھمکیاں جاری رہتی ہیں، تو پھر، خاص طور پر ماسکو کے خلاف، نئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی۔"زیلنسکی نے مزید کہا کہ "روس سے نتائج کی ضرورت ہے۔" تاہم انہوں نے خبردار کیا، "ہمیں ان پر بھروسہ نہیں ہے۔
اور سچ کہوں تو دنیا روس پر بھروسہ نہیں کرتی ہے۔ انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ واقعی جنگ کے خاتمے کے لیے تیار ہیں، وہ دنیا سے اور امریکہ سے جھوٹ بولنا بند کرنے کے لیے تیار ہیں۔"یوکرین: ٹرمپ سے بات چیت میں پوٹن محدود جنگ بندی پر راضی
یوکرین نے خبردار کیا کہ بحیرہ اسود کے مشرقی حصے سے باہر روسی جنگی جہازوں کی نقل و حرکت امریکی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔
عمروف نے فیس بک پر کہا کہ اگر روسی جنگی جہاز بحیرہ اسود کے مشرقی حصے سے منتقل ہوتے ہیں تو "یوکرین کو اپنے حق دفاع کے استعمال کا پورا حق حاصل ہو گا۔
یوکرین اور روس دونوں اناج کے بڑے برآمد کنندگان میں سے ہیں اور جنگ کے آغاز کے بعد سے ہی اناج کی قیمتوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا۔
یوکرین جانے اور آنے والے مال بردار بحری جہازوں کو روس کے حملے کے بغیر بحفاظت نیویگیشن کرنے کی اجازت دینے کے لیے "بحیرہ اسود میں اناج کا معاہدہ" بھی کیا گیا تھا۔
اس معاہدے کے سبب بحیرہ اسود کے ذریعے اناج، سورج مکھی کے تیل اور خوراک کی پیداوار کے لیے درکار دیگر مصنوعات، جیسے کھاد کی نقل و حمل میں سہولت فراہم ہوئی تھی۔
تدوین: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جزوی جنگ بندی کے استعمال کو کے بارے میں انہوں نے کھاد کی کو ختم نے کہا روس کی کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
غزہ میں جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر نے نئی تجویز پیش کردی
غزہ میں جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر نے نئی تجویز پیش کردی WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز
غزہ(آئی پی ایس) اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے قطر اور مصر کے ثالثوں نے ایک نئی تجویز پیش کردی۔
ایک سینئر فلسطینی عہدیدار نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے قطر اور مصر کے ثالثوں نے ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔
عہدیدار کے مطابق اس تجویز میں پانچ سے سات سال کی جنگ بندی، اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی، جنگ کا باضابطہ خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا شامل ہے۔
اس حوالے سے حماس کا ایک اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ پہنچ رہا ہے جس میں سیاسی کونسل کے سربراہ محمد درویش اور مرکزی مذاکرات کار خلیل الحیّہ شامل ہوں گے۔
گزشتہ ماہ جنگ بندی اس وقت ناکام ہوئی تھی جب اسرائیل نے دوبارہ غزہ پر بمباری شروع کر دی اور دونوں فریقین نے ایک دوسرے کو اس ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
اسرائیل کی جانب سے تاحال ثالثوں کی نئی تجویز پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
چند روز قبل حماس نے اسرائیل کی اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا جس میں چھ ہفتوں کی جنگ بندی کے بدلے حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ادھر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ہفتے کے روز کہا کہ وہ حماس کی مکمل تباہی اور تمام یرغمالیوں کی واپسی سے قبل جنگ ختم نہیں کریں گے جبکہ حماس کا مؤقف ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی سے قبل جنگ کے خاتمے کی یقین دہانی چاہتی ہے۔
فلسطینی عہدیدار کے مطابق حماس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ غزہ کی حکومت کسی ایسی فلسطینی اتھارٹی کو سونپنے پر تیار ہے جس پر قومی اور علاقائی سطح پر اتفاق ہو، خواہ وہ مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی ہو یا کوئی نیا انتظامی ادارہ۔
تاہم نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ غزہ کی آئندہ حکومت میں فلسطینی اتھارٹی کا کوئی کردار نہیں ہوگا جو 2007 سے غزہ پر حکمرانی سے باہر ہے۔
فلسطینی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس مرحلے پر کسی کامیابی کی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے، لیکن موجودہ ثالثی کوشش “سنجیدہ” ہے اور حماس نے “غیر معمولی لچک” کا مظاہرہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک 61 ہزار 700 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں اکثریت معصوم نہتے خواتین اور بچوں کی ہے۔
دوسری جانب قاہرہ میں فلسطینی سفارتخانے نے اپنے عملے کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے خاندانوں سمیت رفاہ بارڈر کے قریب واقع مصری شہر العریش منتقل ہو جائیں۔ یہ عملہ غزہ سے زخمیوں کے مصر کے اسپتالوں میں علاج اور انسانی امداد کی ترسیل کے انتظامات میں مصروف تھا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین کیساتھ اسپیس ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں، وزیراعظم جامشورو: مسافر وین پہاڑی سے گر گئی، خواتین اور بچوں سمیت 16 افراد جاں بحق سپریم کورٹ: 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید اور شیخ رشید کی بریت پر حکومت کو عدالت کا دو ٹوک پیغام اسلام آباد میں تاریخ رقم: 35 روز میں انڈر پاس کی تعمیر کا آغاز وزیراعظم کا ملک میں سرمایہ کاری کرنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو سول ایوارڈ دینے کا اعلان پیپلز پارٹی کو منانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تمام کینال بنانے کا فیصلہ واپس لیں، شازیہ مری نفرت انگیز مہمات نہ رکیں تو ملک میں سیاسی قتل بھی ہوسکتا ہے، اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے خبردار کردیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم