Express News:
2025-04-22@06:05:22 GMT

رعایا اور حکمرانوں کے عمرے

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

غالباً پانچ درجن کے لگ بھگ وزراء ، مشیران، معاونین وغیرہ کی بھاری بھرکم کابینہ جس کے سالانہ اخرجات کا کوئی حساب کتاب لگانا مشکل ہے، اتنی بھاری بھرکم کابینہ کو دیکھ کر میں اس مخصمے میں ہوں کہ قوم ان کے اخراجات کیسے برداشت کرے گی ،شاید اس کے لیے ہمیں کسی نئے آئی ایم ایف کو تلاش کرنا پڑے گا جو ہمارا یہ خرچہ برداشت کرنے کے لیے ہمیں قرض دے سکے ۔

حکمران تو ہمیں یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ ملک کے معاشی حالات دگرگوں ہیں اور ہم دنیا بھر میں قرض قرض کی صدائیں لگا رہے ہیں اور جو کوئی بھی ہمارے سلام کا جواب دے دیتا ہے اس سے بقول ہمارے وزیر اعظم مجبوری کی حالت میں ہم قرض کی بات کرتے ہیں ۔ اراکین پارلیمنٹ نے تودو ماہ قبل ہی اپنی تنخواہوں میں اضافہ کر لیا تھا جب کہ کابینہ نے نئے وزراء کی شمولیت کے بعد وزراء وغیرہ کی تنخواہوں اور مراعات میں اچھا خاصا اضافہ کر دیا ہے۔

جن وزیروں نے آنا تھا وہ تو آنا ہی تھاکہ صاحب کی مرضی اور منشاء یہی تھی اور ہماری قسمت کا لکھا بھی یہی تھا،اب یہ وزیر اعظم صاحب کی ڈیوٹی ہے کہ وہ ان وزیروں سے کام لے کر ان مراعات کو حلال کرائیں۔ ادھر ایک خبر کے مطابق حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو فوری ریلیف دینے سے معذرت کر لی ۔

حکمرانو ںکو ابھی اپنی ہی مراعات سے فرصت نہیں ہے ، اشیائے ضرورت کی قیمتیں ہمارے حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے لیے بالکل بے معنی ہوتی ہیں ۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ بیگم صاحبہ نے کسی دکان سے کچھ خریدا تو یہ نہیں پوچھا کہ قیمت کیا ہے بس پسند کی چیز اٹھا لی اور ساتھ کھڑے ڈرائیور کے حوالے کر دی، قیمت بھی اسی ڈرائیور نے ادا کی کہ بڑے لوگ پیسے جیب میں نہیں رکھا کرتے، ملازمین کے پاس ہوتے ہیں، وہ صرف پسند کی کسی چیز کی طرف انگلی سے اشارہ کرنے کی زحمت کرتے ہیں۔

یہ تو حکومت کے انتظامی معاملات ہیں جن سے عوام کو کوئی سرکار نہیں ہونا چاہیے لیکن عوام کو اس بات سے ضرور سروکار ہے کہ جس طرح حکومت ملک کے معاملات چلا رہی ہے، ان میں عوام کے لیے کوئی سکھ کی خبر نہیں ہے۔ دہشتگردی کی سر اٹھاتی لہر سے عوامی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے، ابھی تک تو معاملات صرف بلوچستان اور خیبر پختونخواہ تک ہی محدود ہیںلیکن خدانخواستہ اگر دہشتگردی کی موجودہ لہر دوسرے صوبوں اور حکمرانوں کے گھر تک بھی پہنچ گئی تو پھر معاملات مزید بگڑ جائیں گے ۔

ہم گزشتہ کئی برس سے یہ تو دیکھ چکے ہیں کہ اس عفریت کا وقتی طور پر تو قلع قمع کیا جاتا ہے لیکن مستقل بنیادوں پر ہر گز نہیں ۔ ابھی امریکا کو افغانستان سے گئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ دہشت گردوں نے دوبارہ اپنی پوزیشین سنبھالنی شروع کر دی ہیں اور ان کا نشانہ پاکستان بن رہا ہے ،اس نشانہ بازی کا علم ہمارے حکمرانوں کو خوب ہے اور وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اس مشق کے پیچھے کون کون سی طاقتیں کارفرما ہیں جن کا مقصد اور مطمع ریاست پاکستان میں افراتفری ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی جارہے ہیں ۔

اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ بلوچوں سے براہ راست مکالمے کا آغاز کیا جائے اور ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایک کثیر الجہتی مکالمے کا آغاز ہی مسئلے کا حل ہو سکتا ہے لیکن اگر ہمیشہ کی طرح معاملات بلوچ سرداروں پر ہی چھوڑ دیے گئے تو معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ حالات کے سدھار کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

 کالم کی دُم۔

میرے مرحوم والد عبدالقادرحسن بتاتے تھے کہ جنرل ضیاء الحق مارشل لگانے کے بعد حسب معمول اپنے پیشترو حکمرانوں کی طرح سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہوگئے جہاں پر انھوں نے عمرہ بھی ادا کیا اور روضہ رسول مقبول ﷺ پر حاضری بھی دی۔ پاکستانی اخبارات میں جنرل صاحب کی عبادات کی تصویریں شایع ہوئیں۔وطن واپسی پر پاکستان بھر کے اخبارات کے نمایندوں کو انھوں نے اسلام آباد میں اپنی حکومت کے خدو خال بیان کرنے کے لیے جمع کیا۔ جنرل صاحب کی گفتگو کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو والد صاحب نے جنرل صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے پہلا سوال ہی یہ داغ دیا کہ ایک حکمران کی عبادات اس کا اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔

 آپ کی اخبارات میں شایع ہونے والی تصاویر سے کچھ اچھا تاثر نہیں گیا، ایک حکمران کی اصل نیکی اور عبادت یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیا اقدامات کرتا ہے۔ والد صاحب بتاتے تھے کہ جنرل صاحب نے میرے سوال پر پہلو بدلا اورخشمگین نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے میرے سوال کا جواب دیا، بعد ازاں چائے کی محفل میں بریگیڈیئر صدیق سالک شہید نے مجھے( عبدالقادر حسن) کہا کہ آپ نے جنرل کو پہلی ہی ملاقات میں ناراض کر دیا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ میں نے بریگیڈئیر صاحب کو کہا کہ میں نے جو دیکھا اور محسوس کیا وہ بیان کر دیا، جنرل اگر ناراض ہوتا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صاحب کی کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، روسی قونصل جنرل

جامعہ کراچی میں خطاب کرتے ہوئے آندرے وکٹرووچ فیڈروف نے کہا کہ پاک روس تعلقات ہر روز ایک نئی سطح پر ترقی کر رہے ہیں اور جلد ہی ہمیں بریک تھرو سے حیرانی ہوگی کیونکہ دونوں تاریخوں کے درمیان متعدد معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں جن کے لیے بات چیت جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کراچی میں تعینات روس کے قونصل جنرل آندرے وکٹرووچ فیڈروف نے کہا کہ فلسطین میں نسل کشی کی وجہ سے روس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو روک دیا ہے، ہمارے اس وقت اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں، غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بنیادی ذمہ داری ہے، اگرچہ اقوام متحدہ کا ڈھانچہ کسی بھی لحاظ سے مثالی نہیں ہے اور تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی ماحول کی وجہ سے اکثر اس کے بہت سے نمائندوں بشمول روس کی طرف سے اصلاحات پر زور دیا جاتا ہے، پاک روس تعلقات ہر روز ایک نئی سطح پر ترقی کر رہے ہیں اور جلد ہی ہمیں بریک تھرو سے حیرانی ہوگی کیونکہ دونوں تاریخوں کے درمیان متعدد معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں جن کے لیے بات چیت جاری ہے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز جامعہ کراچی کے زیر اہتمام چائنیز ٹیچرزمیموریل آڈیٹوریم جامعہ کراچی میں منعقدہ لیکچر بعنوان ”دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ اور نئے عالمی نظام کا ظہور“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج کل ہم بین الاقوامی قانون کو کسی نہ کسی قسم کے من مانی اور مبہم قوانین سے بدلنے کی زیادہ سے زیادہ کوششیں دیکھ رہے ہیں اور اس تحریک کو مغربی ممالک نے پروان چڑھایا ہے، جو اپنی زوال پذیری کے باوجود خود کو نام نہاد مہذب سمجھتے ہیں، اگرچہ کسی نے بھی ان سے ان قوانین کو نافذ کرنے کے لیے نہیں کہا اور نہ ہی ان کی نمائندگی کی لیکن مغرب اب بھی ان پر عمل کرنے کے لیے سب کو دباؤ یا بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ اپنے متکبرانہ رویے کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ آندرے وکٹرووچ فیڈروف نے کہا کہ نوآبادیات، غلامی اور ترک جنگوں سے لے کر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں تک، یہ سب یورپ کی مختلف طاقتوں کی طرف سے اپنے حریفوں کو دبانے کی کوششیں تھیں، اس کے برعکس روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کئی بار بین الاقوامی قانون کا احترام بحال کرنے پر زور دیا۔

قونصل جنرل نے مزید کہا کہ بلجیم جیسے نام نہاد مہذب یورپ کے ممالک میں دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی انسانی چڑیا گھر موجود تھے جہاں افریقہ کے لوگوں کو عوامی تفریح کے لئے جانوروں کی طرح رکھا جاتا تھا، کچھ ممالک میں ایسے قوانین بھی تھے جن کے مطابق آپ کو بچے پیدا کرنے کی اجازت نہیں تھی، اگرچہ اس طرح کی انتہائی مثالیں اب کہیں بھی برداشت نہیں کی جاتی ہیں، مغرب اب بھی نازیوں کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے لوگوں نے نازی ازم کے خلاف جنگ میں سب سے بڑی قربانی دی، اس جنگ کے دوران سوویت یونین کے 27 ملین شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ایک بھی ایسا خاندان تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہے جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوا ہو، یہی وجہ ہے کہ یہ قربانیاں ہمیشہ قابل قدر رہیں گی اور تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کی مختلف بدنیت قوتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہمارے عوام انہیں کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈریں اس دن سے جب اڈیالہ جیل کا دروازہ ٹوٹ گیا تو معاملات کسی کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے، اعتزازاحسن 
  • غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، روسی قونصل جنرل
  • رانا ثنا کا ایک بار پھر شرجیل میمن سے رابطہ، پانی کے مسئلے پر مشاورت آگے بڑھانے پر اتفاق
  •  رانا ثنااللہ کا  شرجیل میمن سے دوبارہ رابطہ، آبی تنازعپر مشاورت کو آگے بڑھانے پر اتفاق
  • اسرائیلی مظالم پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی ،بے حسی افسوسناک :زوار بہادر  
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  • پی پی سے معاملات کا حل افہام و تفہیم سے چاہتے ہیں، عطا تارڑ
  • کوئی کتنا ہی ناراض ہو انصاف دباؤ کے بغیر ہونا چاہیے، آغا رفیق
  • سیاسی سسپنس فلم کا اصل وارداتیا!
  • مقتدرہ ہوش کے ناخن لے، معاملات حل نہ ہوئے تو سڑکوں پر نکلے بغیر چارہ نہ ہوگا. سلمان اکرم راجہ