Express News:
2025-04-22@06:48:35 GMT

زرعی انقلاب کا خواب ادھورا کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

پاکستان کی ترقی کے لیے زرعی شعبہ کی ترقی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کسان کو بہترین بیج، کھاد اور اصلی زرعی ادویات مناسب قیمت پر فراہم کی جائیں تو دوبارہ زرعی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل ( پی اے آر سی) میں جدید ایرو پانکس طریقہ کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔

 اِس میں کوئی شک نہیں کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باعث زراعت ہی پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور زرعی معیشت کی ترقی ملک کو معاشی طور پر مضبوط اور خود کفیل بنا سکتی ہے۔ ہمارا ملک پہلے زرعی شعبے کی برآمدات سے بھاری زرمبادلہ کماتا تھا، آج ہم اپنی غذائی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بے دریغ خرچ کر رہے ہیں۔

زرعی پیداوار کا گراف نیچے کی طرف جارہا ہے، ہمارا زیرِ کاشت رقبہ بھی کم ہو رہا ہے اور فی ایکڑ زرعی پیداوار بھی۔یہ بات تکلیف دہ ہے کہ ہماری مختلف فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کی فی ایکڑ پیداوار اس خطے کے ممالک سے کہیں کم ہے۔ ہمارے کسانوں کے فی ایکڑ پیداواری اخراجات بے حد زیادہ ہیں جب کہ ان کی فی ایکڑ آمدن بے حد کم ہے جس سے زراعت کا ہمارا بنیادی ستون ’’ کسان‘‘ تنگدستی کا شکار ہے۔ حکومتیں ان کے مسائل کو حل کرنے اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتی بلکہ ’’ کسی نہ کسی کسان پیکیج کی میٹھی گولی‘‘ دیکر خود ’’مزے کی نیند‘‘ سو جاتی چلی آرہی ہیں۔

کیا حکومت اور سرکاری زرعی ماہرین، یہ بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں کے دوران مختلف فصلوں اور سبزیوں کی کتنی نئی اقسام دریافت کیں اور ان کے بیج جن کی پیداواری صلاحیت بھی زیادہ ہو اور وہ بیماریوں کے خلاف زبردست قوت مدافعت رکھتی ہوں۔ ہمارے کسانوں کو خالص اور ملاوٹ سے پاک بیج، کھاد، زرعی ادویات، ڈیزل اور زرعی مشینری سستے داموں فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟

پاکستانی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا حاصل ہے ۔ پاکستان میں دنیا کا ایک بہت بڑا نہری نظام موجود ہے، لیکن اس کے باوجود چھوٹے کسان مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔

یہ چھوٹے کسان جب تھوڑی دیر سے اور غیر معیاری بیج و کھاد سے اپنی فصل کاشت کرتا ہے تو اس کی پیداوار بھی کم ہوتی ہے۔ پھر جب یہ اپنی پیداوار اس آڑھتی کے پاس لے کر جاتے ہیں جہاں سے انھوں نے ادھار پر کھاد بیج لیا ہوتا ہے تو وہ اپنی مرضی کا نرخ لگاتا ہے اور سب سے پہلے اپنا ادھار وصول کرتا ہے۔ پھر بقایا رقم اسی وقت ادا نہیں کرتا بلکہ تھوڑی تھوڑی کر کے قسطوں میں ادا کرتا ہے۔ اس طرح چھوٹے کسان کے پاس بروقت پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے مہنگی اشیاء خریدنے اور کم قیمت پر پیداوار بیچنے کی وجہ سے اچھا خاصہ معاشی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ان کسانوں کو زرعی قرضوں تک رسائی ناممکن ہوتی ہے کیونکہ بینک کے قواعد و ضوابط کو پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کسانوں کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کو جدید زرعی تقاضوں کا کا علم نہیں ہوتا اور یہ پرانے اور روایتی طریقہ کار پر ہی اکتفا کیے ہوتے ہیں۔ روایتی فصلوں میں مصروف رہتے ہیں اور یہ علم نہیں رکھتے کہ کم زمین میں منافع بخش فصلیں کیسے اگائی جا سکتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے یہ نا واقف ہوتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی زمین کو کون سی کھاد کی ضرورت ہے اور کتنی مقدار چاہیے۔

پانی کی کیا کوالٹی ہے، زمین ناہموار ہوتی ہے۔ اس طرح یہ پانی اور کھادوں کا اندھا دھند استعمال کرتے ہیں جس سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ منڈیوں کی صورتحال سے بے خبر ہوتے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کا معاشرتی ڈھانچہ غیر منظم ہوتا ہے۔ ہر کسان اپنی انفرادی دوڑ میں لگا ہوتا اور اجتماعیت کی افادیت سے آگاہی نہیں ہوتی۔ یہ تمام مسائل اور ان کے ساتھ منسلک دشواریاں ایک ایسا گرداب بناتے ہیں جس کے اندر چھوٹے کسان اپنی پوری زندگی جکڑے رہتے ہیں۔ دنیا اس وقت آرگینِک فصلوں اور فوڈ کی طرف آ رہی ہے اور کتنی ایسی فصلیں ہیں جن کے صرف بیجوں سے بے تحاشہ زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں مستقبل قریب میں ’’ فوڈ سیکیورٹی‘‘ جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم نے وقت پر اپنی زراعت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا، جدید ٹیکنالوجی، جدید تحقیق بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے اور زیادہ پیداوار دینے والے تصدیق شدہ بیج کی تیاری اور فراہمی، خالص اور ملاوٹ سے پاک کھاد اور زرعی ادویات کی کاشتکاروں کو فراہمی اور سب سے بڑھ کر کاشت کاروں کی تربیت اور عملی رہنمائی سے عدم توجہی اور دیگر مسائل کی وجہ سے ہمارا یہ اہم شعبہ مسلسل تنزلی کا شکار ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ انھی مسائل کی وجہ سے کاشتکاری اب کسان کے لیے سراسر ’’ گھاٹے کا سودا ‘‘ بن چکی ہے جس سے زرعی خود کفالت اور زرعی انقلاب کے ہمارے تمام سنہرے خواب ’’ چکنا چور‘‘ ہو چکے ہیں۔

دوسری طرف ہماری زرخیز زرعی اراضی پر کسی منصوبہ بندی کے بغیر ’’ دھڑا دھڑ‘‘ رہائشی اسکیمیں بنتی جا رہی ہیں۔ اس وجہ سے بھی ہماری زراعت مکمل تباہی کے دہانے پر ہے لیکن افسوس کہ اس اہم مسئلے پر کسی حکومت نے بھی کوئی توجہ نہ دی۔ دیہی علاقوں سے منتخب ہو کر ’’ اقتدار کے ایوانوں‘‘ تک پہنچے والے عوامی نمایندے بھی نہ جانے کیوں زرعی اراضی پر ہاؤسنگ سیکٹر کے بے رحمانہ دھاوے پر مسلسل خاموش ہیں جب کہ بلدیاتی اور ترقیاتی ادارے محض اپنی فیس کھری کرنے کے لیے زرخیز زرعی اراضی کو اجاڑ رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ محکمہ زراعت اپنے وسیع نیٹ ورک کی وجہ سے ملک کے چند بڑے محکموں میں شمار ہوتا ہے لیکن زرعی شعبے کی تباہ حالی اس کی مثالی کارکردگی کا واضح ثبوت ہے۔

 ہماری زراعت میں حالیہ بحران کی وجہ سے دیہی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیزل، پٹرول، بجلی کو قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ زرعی مداخل کی قیمتیں بھی آسمانوں کو چھو رہی ہیں جس کی وجہ سے ہمارا کاشتکار بد حال ہوچکا ہے۔ اس کے فی ایکڑ پیداواری اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زمینوں پر کاشتکاری کرنے کے بجائے اُسے خالی چھوڑنے پر مجبور ہے۔

 حکومت جب تک وہ زراعت اور کسان کے مسائل کو ترجیجی بنیادوں پر حل نہیں کرتی، یہ زرعی بحران کبھی بھی ٹل نہیں سکتا۔ ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ہم کئی بار غذائی بحران کا پہلے بھی شکار ہو چکے ہیں۔ جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں گندم مختلف سبزیاں اور چینی ہنگامی طور پر برآمد کرنا پڑی تھی لیکن ہم نے اس سے پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھا، وگرنہ ہمارے دیہات اور کسانوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ہمارے حکمران اور اس کے پالیسی ساز یہ بات اپنے پلے باندھ لیں کہ پاکستان کی ترقی کا ہر راستہ زراعت سے ہوکر گزرتا ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی زراعت کو بحران سے باہر کیسے نکالیں؟ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت کو فوری طور پر ہنگامی عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ زراعت اور کسان کے مسائل کو حل کرنے اور انھیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینا ہوگی۔ غذائی اجناس سبزیوں، پھلوں اور پھولوں کی مقامی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بے کار پڑے قابل کاشت رقبے کو زیرِ کاشت لانا ہوگا۔ زراعت سے متعلقہ اشیاء خاص طور سبزیوں اور پھلوں کی درآمد پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ اس مد میں خرچ ہونے والا زرمبادلہ، ملک زرعی پیداوار کو بڑھانے پر استعمال کیا جاسکے، ہم پیاز، لہسن، مرچ ہلدی ادرک، ٹماٹر اور دیگر کئی سبزیاں درآمد کر رہے ہیں حالانکہ ہماری زمینیں آب و ہوا اور کاشتکار کی لگن، ان کی کاشت اور پیداوار بڑھانے کے لیے نہایت موزوں ہے۔

تمام زرعی ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی غذائی اجناس سبزیاں اور پھل اپنی غذائیت ذائقے اور خوشبو کی وجہ سے دنیا بھر میں اول نمبر پر ہیں لیکن زراعت سے ہماری عدم توجہی نے ہمیں زرعی پیداوار برآمد کرنے والے ملک سے زرعی پیداوار در آمد کرنے والا ملک بنا دیا اور یہ ہمارے حکمرانوں، زرعی سائنس دانوں، زرعی تعلیمی ماہروں اور خود کسانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زرعی پیداوار چھوٹے کسان کی وجہ سے زراعت کو اور زرعی فی ایکڑ کرنے کے کی ترقی کسان کے ہوتا ہے کے لیے ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

جمہوریت کی مخالفت کیوں؟

گزشتہ دنوں میرے ایک دوست جو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، میری ان سے ملاقات ہوئی۔ میرے یہ دوست جمہوریت کے سخت ترین مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک ہماری تمام تر سیاسی نظام کی خرابیوں کی جڑ پاکستان میں رائج یہ جمہوری نظام ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا سیاسی نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔

اپنے اس دوست کی سوچ کے برعکس راقم التحریر جمہوری نظام کی تمام تر خرابیوں کے باوجود اس کا حامی رہا ہے۔ میرے نزدیک ہماری تمام سیاسی نظام میں خرابیوں کی وجہ جمہوری نظام کا تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہنا ہے۔

بار بار کے مارشل لا اور سیاست میں مداخلت کے نتیجے میں یہ خرابیاں پیدا ہوئیں اور عوام جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے محروم رہے۔ مجھے دینی اور مذہبی موضوعات پر اپنی کم علمی اورکم فہمی کا ہمیشہ احساس رہا ہے، اس لیے میں عموماً دینی اور مذہبی موضوعات پر علمی گفتگو سے گریز کرتا ہوں۔ تاہم جب جمہوریت کا موضوع ہمارے درمیان دوران گفتگو آیا تو اس گفتگو نے مکالمے کی صورت اختیار کر لی۔

جمہوریت کی مخالفت کے حوالے سے میرے دوست کا کیا موقف ہے، اسے اپنے اسلوب میں بیان کر رہا ہوں۔ میرے دوست کے نزدیک ایک صالح اور مہذب حکومت وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد اخلاقی اقدار اور تصورات پر قائم ہو۔

دنیا کے سیاسی نظاموں میں اخلاقی اقدارکی کوئی جگہ نہیں، اس میں نمایندگی کا اہل وہی شخص تصورکیا جاتا ہے جو ڈپلومیٹک اور چرب زبان ہو، چاہے اخلاقی حوالے سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ ہو۔ یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق شہری کا حق ہے۔ لازمی اس قانون سازی میں انسانی خواہشات کو اولین حیثیت حاصل ہوگی اس طرح انسان کی روحانی زندگی تباہ ہو جائے گی اور انسان نفس کا غلام بن کر رہ جائے گا۔

اسلام میں نسلی اور مذہبی گروہ بندی جائز نہیں۔ جمہوری طریقہ انتخاب میں نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو ابھارکر عوامی جذبات کو استعمال کرکے اسے اپنی کامیابی کا زینہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

جمہوریت کی بنیادی خوبی محض عددی برتری تصورکی جاتی ہے یہ منطقی لحاظ سے درست نہیں،کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ 200 کے مقابلے 201 کی رائے زیادہ درست اور دانش مندانہ ہے۔ اس نظام میں افراد کی گنتی کی جاتی ہے انھیں تولا نہیں جاتا، یعنی صلاحیت اور قابلیت کی اس نظام میں کوئی اہمیت نہیں۔

جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کا مزاج سیکولر ہے، یہی وجہ ہے کہ جو مذہبی اور دینی جماعت اس میں حصہ لیتی ہے، اس کا مزاج سیکولر ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں کامیابی کے لیے تمام طبقات کی حمایت درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ جماعتیں مصلحت کا شکار ہو کر خدائی احکامات کے نفاذ کے بجائے انسانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں یہ طرز عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔

میرے دوست کی یہ تمام باتیں جزوی طور پر درست ہیں کلی طور پر نہیں۔ میرا موقف یہ تھا کہ انسانی معاشرے کو مہذب اور تمدنی معاشرہ کہلانے اور عوام الناس کو اجتماعیت کے دائرے میں رکھنے کے لیے کسی نہ کسی نظام حکومت کی ضرورت لازمی طور پر ہوتی ہے اب یہ نظام حکومت کیسے وجود میں آئے گا، اس نظام کے خد و خال کیا ہوں گے؟

حکومت کرنے والوں کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی، ان کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا اور سیاسی استحکام کس طرح پیدا ہوگا۔ اس حوالے سے مختلف زمانے میں مختلف تجربات سامنے آئے ہیں، اس میں ایک تجربہ جمہوری نظام بھی ہے۔ دنیا نے اب تک کے تجربات سے جمہوری نظام کو اس کی بہت سی خرابیوں کے باوجود ایک بہتر نظام سیاست پایا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوا۔

اگر آپ جمہوری نظام کو اس کی چند خرابیوں کی بنیاد پر مسترد کرتے ہیں تو آپ کو دنیا کے سامنے ایک واضح سیاسی نظام پیش کرنا ہوگا۔ محض ہوا میں قلعے بنانے سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔

جہاں تک اسلام کے نظام حکومت کی بات ہے تو ہمیں اسے تاریخی پس منظر میں سمجھنا ہوگا۔ اسلام کے سیاسی نظام میں خلاف راشدہ کے دور کو رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دور حکومت 30 سال کے عرصے پر محیط ہے، اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے چاروں خلفا کا تقرر چار مختلف طریقوں سے ہوا۔ اس کے بعد جو ماڈل سامنے آیا اسے خاندانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔

اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اس پس منظر میں چلتی رہی، اسی پس منظر میں مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ اس میں زیادہ تر حکمران وہی تھے جو خاندانی حکومت کے اصول کے تحت حکمران بنے تھے۔ یہ خاندانی ماڈل خلافت راشدہ کے رول ماڈل سے مختلف تھا لیکن کیونکہ اس ماڈل میں اہل اسلام کو امن اور حفاظت کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام بخوبی انجام پا رہا تھا، اس لیے عوام الناس نے اس نظام کو قبول کیا عرب کے بعض ممالک میں یہ نظام آج بھی رائج ہے۔

اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے۔ اسلام کسی لگے بندھے نظام کی تجویز یا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ ایسے بنیادی اصول قائم کرتا ہے جو کسی حکومت کے عمومی خدوخال کی تشکیل کرتے ہیں وقت اور حالات کے تحت طرز حکومت کیسا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے یہ میری ناقص رائے ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار مذہبی اسکالر اور علما دین ہی کر سکتے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس وقت دنیا میں جمہوری نظام کامیابی سے جاری ہے۔ جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسا نظام حکومت ہے جس میں حکومتی مدت پوری ہوتی ہے اس میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ موجود ہے۔

عوامی رائے عامہ کے ذریعے اسے قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے اس لیے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دینا درست عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسے مغربی طرز حکومت کا نام دیا جانا چاہیے۔ بعض لبرل اور سیکولر عناصر سیاست میں دینی اور مذہبی جماعتوں کی شمولیت کے خلاف ہیں میری ذاتی رائے میں اگر ملک کی اکثریت کسی نظام حیات کو قبول کرکے اس کے نفاذ کی کوشش کرتی ہے تو اس کے اس جمہوری حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اسے تسلیم کیا جانا جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔

یہ ہے دونوں جانب کا نقطہ نظر، کون درست ہے کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • تعلیم پر روزانہ 59 ہزار روپے خرچ کرنیوالی جاپانی گلوکارہ
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • دنیا نے زراعت میں ترقی کی، ہم وقت ضائع کرتے رہے: شہباز شریف
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • دنیا زراعت میں آگے بڑھ گئی، ہم قیمتی وقت گنواتے رہے: وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں آگے بڑھ گئی، ہم قیمتی وقت گنواتے رہے: وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں ترقی کر کے آگے نکل گئی اور ہم قوم کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہے. وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں ترقی کر کے آگے نکل گئی، ہم قیمتی وقت ضائع کرتے رہے‘ وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں آگے نکل گئی،ہم قوم کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہے: وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں ترقی کر کے آگے نکل گئی اور ہم قوم کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہے: وزیراعظم